- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

اسلامی امارت افغانستان کے ذمہ داران ملک چلانے میں اسلام کی اعلیٰ ظرفی اور حکمت و تدبیر سے کام لیں

نوٹ: کم و بیش دس مہینہ قبل افغانستان امریکی اور مغربی طاقتوں کے قبضے سے آزاد ہوا اور آخری قابض فوجیوں کا انخلا مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس ہمسایہ ملک میں ایک نئی حکومت اور نیا سیاسی نظام قائم ہوا۔ اسی بارے میں اہل سنت ایران کے ممتاز عالم اور جامعہ دارالعلوم زاہدان کے صدر و شیخ الحدیث نے قرآن و سنت اور اسلامی مآخذ کی روشنی میں اسلامی امارت افغانستان کے ذمہ داران کے سامنے اپنی تجاویز، نصائح اور قیمتی آرارکھ کر انہیں ملک چلانے میں کامیابی کے راستے دکھائے۔
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، ممتاز عالم دین نے اپنی گفتگو میں اسلام کی اعلیٰ ظرفی اور وسعتِ دید کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس ظرف سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا ہے۔
سولہ جون دوہزار بائیس کو شائع ہونے والی گفتگو میں مولانا عبدالحمید نے کہا ہے: اگر اسلام کی اعلیٰ ظرفی کو مدنظر رکھاجائے، یہ دین پوری دنیا کی قیادت کی صلاحیت رکھتاہے۔ عصرِ حاضر میں دنیا کے سامنے اسلام کو پیش کرتے ہوئے ہمیں موجودہ دور کے حالات کو بھی سامنے رکھیں۔
انہوں نے کہا: جو لوگ اسلام کو دنیا میں نافذ کرنا چاہتے ہیں انہیں لسانی اور مسلکی تعصبات سے پاک ہونا چاہیے؛ انہیں چاہیے اسلام کو بطورِ دین مدنظر رکھیں۔ نگاہیں بلند رکھنے اور اعلیٰ ظرفی ہی سے دوسروں کو برداشت کرنا ممکن ہوجاتاہے۔ ہر قوم میں مختلف افکار اور سوچیں پائی جاتی ہیں؛ ان سب کے حقوق کا خیال رکھنا اور ان کے قابل افراد کی صلاحیتوں سے کام لینا از حد ضروری ہے۔

بہترین حکومت کی علامت
مولانا عبدالحمید نے کہا: دنیا کی حکومتیں اس وقت تک پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک وہ دو محور پر توجہ نہ دیں؛ اللہ اور عوام۔ ان دونوں کو ساتھ رکھنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ دنیا کی بہترین حکومت وہی ہے جس کے سربراہ اپنی قوم کی فلاح اور آسائش کی خاطر خود بھوک اور سختیاں برداشت کرتے ہیں، لیکن اپنے عوام کو بھوکے نہیں رہنے دیتے ہیں۔ ایسے ہی حکمران نبی کریم ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے والے اور اسلام کے حقیقی نمایندے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا: حکمرانوں کو چاہیے عوام کے سامنے تواضع دکھائیں اور ان کی باتوں پر توجہ دیں۔آپﷺ لوگوں کی باتیں، حتی کہ منافقین کی باتوں کو بھی توجہ سے سنتے تھے۔

اسلامی مکاتب فکر کی متفقہ رائے ہے کہ حالات کی تبدیلی سے فتوے تبدیل ہوتے ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے انٹرویو میں بعض فتووں کی تبدیلی پر زور دیتے ہوئے کہا: اسلام میں بعض احکام نصوص سے ثابت ہیں اور قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ ان کا حکم آیاہے؛ ان احکام میں کسی کو تبدیلی لانے کی اجازت نہیں ہے، چونکہ یہ احکام وحی کے ذریعے ثابت ہیں۔ لیکن بعض مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں صریح نص موجود نہیں ہے اور ان کے بارے میں علما نے اپنے اپنے زمانے کے تقاضوں اور ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اجتہاد کیا ہے۔ سب سے زیادہ اختلاف ان ہی مسائل میں پایاجاتاہے جن کی بنیاد اجتہاد ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسلام میں اجتہاد کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتاہے انسانی عقل بھی کام کرے اور علما اپنی سوچ، فکر اور اجتہاد کو بروئے کار لائیں۔ دوسری حکمت یہ ہے ہر زمانے کے تقاضے، عرف اور رسم و رواج مختلف ہیں اور مجتہد ان ہی مسائل کو سامنے رکھ فتویٰ دیتاہے۔ جب حالات مختلف ہوجاتے ہیں، فتوے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے صحابہ، تابعین اور ائمہ کے اقوال اور فتوے ’قول قدیم‘ اور ’قول جدید‘ میں تقسیم ہوتے ہیں۔
جدید دنیا کے مسائل پر نظر رکھنے والے عالم دین نے کہا: جب افغانستان جیسے ملک میں اسلام کا نفاذ کرنا چاہیں جس میں اسلام مخالف طاقتوں نے اپنا قبضہ جمایا تھا اور لوگوں کی سوچ اور افکار پر اثرانداز ہوچکی ہیں، وہاں آہستہ آہستہ اسلامی قوانین اور حدود کا نفاذ ضروری ہے۔ ان ملکوں میں ”الاہم فالاہم“ کے قاعدے پر عمل کرنا چاہیے۔ اسلام میں احکام بھی اسی انداز میں نازل ہوئے تاکہ لوگوں کے لیے برداشت ممکن ہو۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارے دور کی جاہلیت صدر اسلام کی جاہلیت سے بدرجہا زیادہ شدید اور خطرناک ہے۔ عوام بھی صحابہؓ کی طرح نہیں ہیں اور تمام تر دعووں کے باوجود ان میں وہ ایمان نہیں ہے جو صدر اسلام کے مسلمانوں کے دلوں میں تھا۔ لہذا بعض احکام کو ’قانون‘ کی صورت میں اور بعض کو صرف ’ترغیب‘ اور فضایل کے بیان کی شکل میں نافذ کرنا تدبیر و حکمت کا تقاضا ہے۔
انہوں نے عوام پر سختی کرنے سے گریز کرنے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: نبی کریم ﷺ جب اپنے نمائندوں اور سفیروں کو کہیں بھیج دیتے، تو سب کو یہی نصیحت فرماتے کہ آسانی کا معاملہ کریں، سختی نہ کریں اور خوشخبری سنائیں اور لوگوں کو متنفر نہ کریں۔ اسلامی امارت افغانستان کے ذمہ داران بھی لوگوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کا معاملہ کریں تاکہ دشمن کو غلط فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔

اسلام میں خواتین کے لیے کوئی خاص لباس متعین نہیں ہوا ہے
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اپنی گفتگو میں خواتین کے پردے کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: خواتین کے پردہ سمیت اس طرح کے اختلافی مسائل میں جن کے بارے میں علما کی آرا مختلف ہیں، عزیمت کے بجائے رخصت پر عمل ہو اور آسان ترین فتوے پر عمل کیا جائے۔
انہوں نے کہا: چہرہ ڈھانپنے کے حوالے سے بہترین رائے امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کا فتویٰ ہے جو مسلم ممالک میں بآسانی قابل نفاذ ہے۔ آپؒ کا فتویٰ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی رائے کے مطابق ہے۔ حنفی فقہا کا متفقہ قول ہے کہ خواتین کا چہرہ، ہاتھ اور پیر ’عورت‘ میں شامل نہیں ہیں؛ چنانچہ نماز پڑھتے ہوئے خواتین کے لیے یہ اعضا ڈھانپنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: البتہ ایک نکتہ ذہن میں رہے کہ جن علما نے چہرہ ڈھانپنے پر فتوی دیاہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ چہرہ عورت میں شامل ہے، بلکہ ’خوف فتنہ‘ کو مدنظر رکھ یہ فتویٰ دیا گیاہے۔ لہذا اسلامی امارت افغانستان سمیت کسی بھی اسلامی ملک کے لیے مناسب نہیں کہ چہرہ ڈھانپنے کو قانونی شکل میں لازمی قرار دیں، البتہ اس کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اسلام نے خواتین کے لیے کوئی مخصوص لباس متعین نہیں کیا ہے؛ صرف جسم ڈھانپنے کا حکم آیاہے۔کوئی یونیفارم متعارف نہیں ہوا ہے؛ لہذا اسلام کے نام پر کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ خواتین پر کسی مخصوص لباس یا یونیفارم کو مسلط کرے۔
خواتین کی تعلیم کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا: خواتین کی تعلیم کے بارے میں تردد عالم اسلام کے علمائے کرام اور کسی بھی مسلمان یا غیرمسلم کے لیے ناقابل قبول ہے۔ قرآن و سنت میں خواتین کی تعلیم کے لیے کوئی رکاوٹ اور حدبندی نہیں آئی ہے۔ لہذا اسلامی امارت کے ذمہ داران بلاجھجک سکولوں اور کالجوں کو خواتین کے لیے کھول دیں۔

اسلام میں انسانی حقوق کے عنوان سے کانفرنسز منعقد کرائیں
مولانا عبدالحمید نے اسلام میں انسانی حقوق پر تاکید کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمارے خیال میں انسانی حقوق پر زور سب سے زیادہ اسلام میں آیاہے اور اسلام کسی بھی ملک اور تنظیم سے آگے ہے۔ اسلامی امارت کے ذمہ داروں کو میری تجویز ہے کہ وہ اسلامی نقطہ نظر سے انسانی حقوق کے بارے میں علمائے کرام اور مسلم دانشوروں کی موجودی میں بعض کانفرنسز کا انعقاد کریں۔
انہوں نے مزید کہا: اگر اس طرح کی کانفرنسیں منعقد ہوجائیں، پھر معلوم ہوگا اسلام اور عالمی اداروں کے درمیان انسانی حقوق کے بارے میں مشترکہ افکار و آرا بہت زیادہ ہیں۔ ہمیں دکھانا چاہیے کہ اسلام میں انسانی حقوق کس حد تک اہم ہیں۔

اسلامی امارت کے ذمہ داران قانون سازی میں عالم اسلام کے علما سے مشورہ لیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایک ملک اور قوم کو چلانے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ملک چلانا اور ایک قوم کے امور کی سرپرستی کرنا کسی گھرانے، اسکول، مدرسہ اور کالج کے چلانے سے کافی مختلف ہے۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: اسلامی امارت افغانستان میں ہمارے عزیز لوگوں کی قابلیت کو مدنظر رکھیں؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے کہ سب قومیتوں اور مسالک کے قابل افراد سے کام لیاجائے۔ قانون سازی میں عالم اسلام کے علما سے مشورہ کیا جائے اور ان کی آرا و افکار سے کام لیاجائے۔پھر سب سے بہتر رائے جو امن قائم کرنے اور عوام کے لیے قابل قبول ہو، اسے اپنایا جائے۔
مولانا عبدالحمید نے آخر میں کہا: افغانستان کئی عشروں سے جنگ اور خانہ جنگی کی وجہ سے سخت نقصانات سے دوچار ہوا ہے اور اس کے عوام نے سختیوں اور مشقتوں کو برداشت کی ہے؛ اب یہ ملک مزید بدامنی اور خانہ جنگی کے متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہذا بہترین راہ مذاکرات اور بات چیت ہے۔