- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

لوگوں کو اعتقادی و اخلاقی برائیوں سے پاک کرنا انبیا ؑ کی اہم ذمہ داری

خطیب اہل سنت زاہدان نے پانچ نومبر دوہزار اکیس کے خطبہ جمعہ میں بعض اعتقادی و اخلاقی رذایل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان رذایل کی بیخ کنی کو سب نبیوں کی سب سے اہم ذمہ داری یاد کی۔ انہوں نے ’تزکیہ نفس‘ اور ’باطن کی پاکیزگی‘ پر زور دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے سورت الاعلیٰ کی آیات: 14-17 کی تلاوت سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے زاہدانی نمازیوں کے مجمع میں کہا: سب نبیوں سمیت ہمارے نبیﷺ کی ذمہ داری ہی یہی تھی کہ لوگوں اور معاشرے کو ظاہری و باطنی برائیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف رکھیں۔
انہوں نے مزید کہا: نبوت کی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل تھی کہ احکامِ الہی اور ارشادات کی روشنی میں لوگوں کے ظاہر و باطن کو آلودگیوں سے پاک کریں۔ آپﷺ نے ظاہر کی صفائی کو ایمان کا آدھا حصہ یاد کرتے ہوئے باطن کی طہارت کو ایمان کا دوسرا حصہ قرار دیا۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے ’شرک جلی اور خفی‘ کو اندرونی آلودگیوں کی واضح مثالیں یاد کرتے ہوئے کہا: شرک جلی و خفی سے انسان کا دل پلید ہوتاہے۔ بتوں کی عبادت اور مخلوق کو پوجنا ’شرک جلی‘ ہے۔ کفر و شرک کی پلیدی کے ساتھ ایمان حاصل ہی نہیں ہوتا۔
شرک کی دوسری قسم کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا: وہ نیک کام جو انسان دکھاوے کے لیے کرلے تاکہ لوگ اس کی تعریفیں کریں، اس کی تشہیر ہوجائے، اصطلاح میں اسے شرک خفی کہتے ہیں۔ ریاکاری کورونا وائرس کی طرح آنکھوں سے اوجھل ہے اور کوئی اسے نہیں دیکھ سکتا۔ بعض اوقات لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور یہ سمجھتاہے کہ وہ نیک آدمی ہے، حالانکہ وہ ریاکار ہے۔ کوئی بھی کام جو اللہ کے لیے نہ ہو، شہرت اور ذاتی مفادات کی خاطر ہو، وہ ایک گونہ شرک ہے۔
مولانا عبدالحمید نے ’نفاق‘ کو ایک اور اندرونی پلیدی یاد کرتے ہوئے کہا: مدینہ کے منافقین خود کو مسلمان ظاہر کرتے، لیکن درحقیقت رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو دل سے نہیں مانتے تھے۔یہ ’اعتقادی نفاق‘ ہے۔ نفاق کی دوسری قسم ’عملی‘ ہے؛ شخص اسلامی عقائد پر ایمان رکھتاہے، لیکن عملی طورپر نفاق کا شکار ہے اور وہی کام کرتاہے جو منافقین کیا کرتے تھے، مثلا جھوٹ بولنا، امانت میں خیانت کرنا، وعدہ خلافی کرنا اور گالی دینا۔
انہوں نے مزید کہا: تکبر اور حسد بھی دل کی بیماریاں ہیں۔ متکبر انسان اندر سے پلید ہے۔ تکبر بدترین پلیدی ہے جو انسان کو ہلاک کردیتاہے۔ اسی سے انسان کی گردن ٹوٹ جاتی ہے۔ جو شخص ایک گھنٹے کے لیے دانت، آنکھ اور پیٹ کا درد برداشت نہیں کرتا اور ہر چیز کے لیے خدا کے محتاج ہوتاہے، وہ کیوں تکبر کرتاہے؟ انسان کی بہترین صفت یہی ہے کہ اللہ کی بندگی کرے، اگرچہ اس کے پاس مال و دولت اور حکومت و اقتدار ہو۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے، سب اللہ کی عطا ہیں۔
حسد کی ریشہ دوانیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: حسد کا شمار نفسانی اور اندرونی بیماریوں میں ہوتاہے۔ حسد چیونٹی کی طرح انسان کی دیانت اور ایمان کو اندر سے ختم کردیتاہے۔
حسد کا ایک علاج بتاتے ہوئے انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ ہمیں حسود نہ بنائے۔ اگر کسی کے دل میں حسادت آجائے، وہ یہ سوچے کہ جو نعمت کسی کو ملی ہے، وہ اللہ ہی کی عطا ہے؛ اس کی مخالفت دراصل اللہ کی مخالفت ہے۔ جسے اللہ نے مال، دولت، نعمت اور عزت دی ہے، ہم اس کے لیے دعا کریں اللہ اسے مزید عطا کرے۔
حضرت شیخ الاسلام نے ’حب مال‘ کو دل کی ایک اور بیماری یاد کرتے ہوئے کہا: مال کی محبت مال کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، لیکن اس محبت کی ایک حد ہونی چاہیے تاکہ اللہ کی محبت سے بڑھ نہ جائے۔ جب کوئی شخص زکات نہیں دیتا، اہل و عیال کے اخراجات میں کوتاہی کرتاہے، واجبہ حقوق کی ادائیگی میں سستی دکھاتاہے، یہ سب حب مال کی نشانیاں ہیں۔ ایسے شخص کے دل میں اللہ سے زیادہ مال و دولت محبوب ہے۔ ایسی نجاستوں کو دل سے نکالنا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ظاہر و باطن کی پاکیزگی بہت اہم ہے، یہاں تک کہ نماز سے بڑھ کر اس کی اہمیت ہے؛ چونکہ جب انسان دل کو نفس کی بیماریوں اور آلائشوں سے پاک و صاف کرتاہے، پھر اس کی نمازیں اور دیگر عبادات قبول، قابل قدر اور موثر ہوجائیں گی۔
انہوں نے کہا: قرآنی ارشادات کے مطابق، انسان اپنے نفس کی تزکیہ میں اس لیے ناکام ہوتاہے کہ وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگتاہے۔ یہ ہرگز سمجھدارانہ اقدام نہیں ہے کہ بندہ اپنی ابدی زندگی کو بھلاکر فانی زندگی میں لگ جائے اور اسی چند روزہ زندگی صرف آباد کرنے کی کوشش کرے۔ لہذا اپنی بھی اصلاح کریں اور دوسروں بشمول اہل خانہ، اولاد، پڑوسی اورسماج کے لوگوں کی اصلاح و تزکیہ کی فکر کریں۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کے آخرمیں بین الاقوامی باکسنگ مقابلے میں بلوچ نوجوان ’دانیال شہ بخش‘ کی تیسری پوزیشن حاصل کرنے پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنی مسرت کا اظہار کیا۔