- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

مولانا عبدالحمید کا افغان قوم اور طالبان کے نام تہنیتی پیغام

زاہدان (سنی آن لائن) اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے تہنیتی پیغام شائع کرتے ہوئے افغان علمائے کرام، تحریک اسلامی طالبان اور پوری افغان قوم کو مبارکباد پیش کی۔

سنی آن لائن نے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، مولانا عبدالحمید نے کابل سمیت تمام افغان صوبوں اور شہروں پر تحریک اسلامی طالبان کے قبضے کے بعد اہم پیغام شائع کیا ہے جس کا متن درج ذیل ہے:
حق کی راہ میں قابض افواج اور کرپٹ و ناکام کٹھ پتلی حکومت کے خلاف مسلسل جہاد، صبر و شہادت اور عزم نے بالاخر رنگ لایا۔ یہ عظیم فتح امارت اسلامی افغانستان، وہاں کے علمائے کرام اور بہادر و معزز قوم کو مبارک ہو۔
بلاشبہ یہ فتح و کامیابی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، عوامی حمایت، مظلوموں کی آہ و پکار اور شہدا کے خون کا نتیجہ ہے۔ اب سب نگاہیں اللہ کی طرف ہونی چاہییں، رب العالمین کے سامنے عاجزی کا اظہار کرکے افغان قوم کی خدمت کے لیے کمربستہ ہونا چاہیے۔
کامیابی اور اس کی پاسداری کے لیے اللہ رب العزت اور عوام کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ»؛ اے نبی! خدا تم کو اور مومنوں کو جو تمہارے پیرو ہیں کافی ہے.
دنیا میں اللہ کے قانون اور نظام سے بڑھ کر بہتر کوئی نظام نہیں ہوسکتا جس کی بنیاد قرآن پاک ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سنت اور تعلیمات سے بڑھ کر اعلیٰ ظرفی کہیں بھی نہیں مل سکتی ہے۔ افسوس ہے کہ دنیاوالے اس اعلیٰ ظرفی سے بے خبر ہیں۔
اسی اعلیٰ ظرفی کی ایک مثال طالبان کی جانب سے عام معافی کا اعلان ہے۔ انہوں نے اپنے خونی دشمنوں کو معاف کیا جو ان کے خلاف لڑتے تھے۔ طالبان نے کابل کے دروازے پر انتظار کیا تاکہ قتل و خونریزی نہ ہو، اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اسی اعلی ظرف سے خواتین کے حقوق و احترام، انسانی حقوق و عزت، انفرادی و اجتماعی آزادی، اظہار رائے اور تنقید کی آزادی جیسے مسائل بآسانی حل ہوسکتے ہیں۔
بندہ یقین کے ساتھ کہتاہے کہ آج کے طالبان بیس سال پہلے کے طالبان سے مختلف ہیں؛ انہیں تجربہ حاصل ہوا ہے اور وہ اپنی افکار میں تبدیلی لاچکے ہیں۔ کچھ کمزوریاں بھی ہوں تو قابل اصلاح ہیں۔ ہماری شناخت اور معلومات دنیا کے بہت سارے لوگوں سے طالبان کے بارے میں زیاد ہ ہیں؛ وہ ہمارے قریبی پڑوسی ہیں اور ہم ان کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ لہذا انہیں موقع دینا چاہیے اور جانبدارانہ پروپگینڈوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔ میڈیا کو بھی چاہیے غیرجانبدار رہیں اور حقائق کو کوریج دیں۔
امید کرتے ہیں طالبان اپنے ملک کے سب مذاہب و مسالک اور قومیتوں کے قابل افراد کی صلاحیتوں سے کام لینا چاہیے تاکہ ایک جامع حکومت بر سر کار آئے۔ اسی طرح تعلیم یافتہ طبقہ، مختلف شعبوں کے ماہرین سے کام لیاجائے اور ٹیکنالوجی، دیسی اور صنعتی پروڈکٹس میں ترقی کی رفتار کو تیز کیا جائے۔ روحانی و اخلاقی پہلووں پر بھی کام کیاجائے۔ جنگ کی وجہ سے لوگوں کو سخت نقصان پہنچاہے اور ان کے لوگ دنیا کے طول وعرض میں مہاجر بن کر زندگی گزاررہے ہیں۔
میری توقع ہے کہ تحریک طالبان اور افغانستان کے معزز شہری عملی طورپر ثابت کریں گے کہ عالمی برادری کی تشویش حقیقت سے دور ہے اور اپنے عمل سے پروپگینڈوں کو ناکام بنائیں گے۔ دیگر ملکوں کو چاہیے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں اور خستہ حال افغان قوم کی مدد کریں، افغان مہاجرین کی ملک واپسی کی راہ ہموار کریں تاکہ ایک آزاد اور خوشحال افغانستان سامنے آجائے۔
آخر میں طالبان کو میری نصیحت ہے کہ دشمنوں کی سازشوں اور کارستانیوں سے ہوشیار رہیں، جنی و انسی دشمن مورچوں میں ہیں۔ نیز افغان عوام اور طالبان کو چاہیے ماضی کی رنجشوں کو بھول جائیں اور ایک دوسرے سے گلے ملائیں اور اپنے ملک کی خوشحالی، امن اور ترقی کے لیے اکٹھے ہوجائیں۔