- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

صوبہ سندھ میں گھوٹکی کے قریب دو مسافر ٹرینوں میں تصادم، کم از کم 30 افراد ہلاک

پاکستان کے صوبہ سندھ میں گھوٹکی کے قریب سرسید ایکسپریس اور ملت ایکسپریس میں تصادم میں 30 افراد ہلاک اور 40 سے زائد مسافر زخمی ہو گئے ہیں جبکہ متعدد بوگیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق شدید زخمی مسافروں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ بوگیوں میں پھنسے ہوئے مسافروں کو نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق یہ حادثہ علی الصبح گھوٹکی کے نزدیک ریتی اور اوباڑو کے ریلوے سٹیشن کے درمیان پیش آیا۔ حادثے کے بعد ٹرینوں کی آمدورفت روک دی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ملت ایکسپریس کراچی سے سرگودھا جبکہ سرسید ایکسپریس راولپنڈی سے کراچی جا رہی تھی۔ حادثے میں ملت ایکسپریس کی آٹھ اور سرسید ایکسپریس کی انجن سمیت تین بوگیاں پٹری سے اتر گئیں جبکہ کچھ بوگیاں کھائی میں جا گریں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’گھوٹکی میں آج صبح ہونے والے خوفناک ٹرین حادثے میں 30 افراد کی ہلاکت پر صدمے کا شکار ہوں۔ وزیر ریلوے کو جائے حادثہ پر پہنچنے، زخمیوں کو طبی امداد اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی امداد کو یقینی بنانے کی ہدایت کر دی ہے۔‘
ڈی آئی جی سکھر فدا حسین مستوئی نے 30 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پھنسی ہوئی بوگیوں میں مزید لاشیں اور زخمی ہو سکتے ہیں تاہم انھوں نے بتایا کہ ہیوی مشینری آ چکی ہے اور کٹرز کی مدد سے بوگیوں کو کاٹا جا رہا ہے۔
وزیر مملکت اطلاعات فرخ جبیب نے بتایا کہ کیونکہ یہ علاقہ پنجاب کی سرحد کے بھی قریب ہے اس لیے زخمیوں کو گھوٹکی اور پنجاب کے ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ فوجی بھی ریسکیو آپریشن کا حصہ ہیں۔

’جائے وقوعہ پر گیا لیکن وہاں کا منظر برداشت نہیں کر سکا‘
عبدالرحمان فیصل آباد سے رات کو آٹھ بجے سرسید احمد ایکسپریس میں سوار ہوئے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کو بتایا کہ ٹرین سو سے زیادہ سپیڈ میں جا رہی تھی اور وہ جاگ رہے تھے، تقریباً تین بج کر چالیس منٹ پر زودار جھٹکے لگے ڈرائیور نے ٹرین کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹکرا گئی۔
انھوں نے بتایا کہ ملت ایکسپریس کی کچھ بوگیاں ٹریک سے اتر کر دوسرے ٹریک پر آ گئیں تھیں جبکہ ٹرین خود آگے چلی گئی تھی۔
’اس وقت بہت اندھیرا تھا حادثے کے بعد آس پاس کے لوگ موٹر سائیکلوں پر پہنچنا شروع ہوئے۔ انھوں نے موٹر سائیکلوں اور موبائل کی روشنی سے زخمیوں اور لاشوں کو نکالا۔ پانچ بجے کے قریب سورج کی روشنی ہوئی اور اس وقت تک پولیس اور ایمبولینس بھی پہنچ گئیں۔‘
عبدالرحمان کے مطابق دل دہلانے والے مناظر تھے، زخمیوں کی چیخ و پکار تھی اور ان میں یہ مناظر دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔
انھوں نے بتایا ’مقامی لوگوں نے بہت مدد کی جو مسافر محفوظ رہے انھیں ٹریکٹر ٹرالیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار کر کے ڈھرکی پہنچایا۔‘
ٹرین حادثے کے ایک عینی شاہد منیر احمد گرگیج نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جائے وقوعہ پر گئے تھے لیکن وہاں کا منظر دیکھ کر برداشت نہیں کر سکے۔
انھوں نے کہا ’میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں کہ میں درد و دکھ کا یہ منظر بیان کر سکوں۔ انسانی خون پھیلاؤ تھا، کچھ مسافر بوگیوں میں پھنسے ہوئے اور زخمی درد میں کر را رہے تھے۔‘

جائے حادثہ پر امدادی کام جاری
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق فوج اور رینجرز کے دستے جائے حادثہ پر پہنچ گئے ہیں اور امدادی کام جاری ہیں۔
بیان کے مطابق پنوں عاقل سے ایمبولینس کے ساتھ ملٹری ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس بھی واقعے کی جگہ پر پہنچ گئے ہیں جبکہ فوری امدادی اقدامات کے لیے ملتان سے ہیلی کاپٹروں کو بھی روانہ کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے حادثے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ کمشنر سکھر کو فون میں وزیر اعلیٰ نے تمام ضلعی انتظامیہ کو متحرک کرنے اور مسافروں کو نکالنے کے لیے فوری طور پر مشینری کا بندوبست کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے مسافروں کیلیے عارضی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
ایڈیشنل ڈی ایچ او عبدالرزاق نے بی بی سی کو بتایا کہ 100 سے زائد مسافر زخمی ہیں جنھیں ڈی ایچ کیو میرپور ماتھیلو منتقل کیا گیا ہے اور جن کی حالت تشویشناک ہے انھیں رحیم یار خان منتقل کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل
حادثے کی خبر آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین اس حادثے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے نظر آئے۔
راجہ اعجاز احمد نامی صارف نے لکھا: ’میں صرف وزیر ریلوے کے استعفے کا مطالبہ کرتا ہوں کیونکہ ایسے واقعات اب معمول بن گئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’اور موجودہ وزیر ریلوے کی نگرانی میں ایک شفاف انکوئری ناممکن ہے۔‘
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما محسن رانجھا نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’پچھلے دور حکومت میں ایسا حادثہ ہونے پر وزرا سے استعفیٰ مانگنے کی رسم تھی لیکن پتہ نہیں وہ استعفے مانگنے والے کیوں خاموش ہیں۔‘
’تمام متاثرین خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اللہ تعالی جاں بحق ہونے والے کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔‘
ایک صارف نے لکھا: ’ہمیں نہیں معلوم کہ ذمہ دار کون ہے لیکن ہمیں واضح تحقیقات چاہیں۔‘
ایک اور صارف نے لکھا: ’یہ 2021 ہے اور ابھی بھی پاکستان میں ٹرین حادثے ہوتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں ریلوے کے متعدد حادثات رونما ہوتے رہے ہیں اور ان میں متعدد افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
اس سال مارچ میں کراچی سے لاہور جانے والی کراچی ایکسپریس روہڑی شہر کے نزدیک پٹڑی سے اتر گئی جس کے نتیجے میں 30 افراد زخمی اور کم از کم ایک شخص کی ہلاکت ہوئی تھی۔
گذشتہ برس فروری میں پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر روہڑی میں کراچی سے لاہور جانے والی پاکستان ایکسپریس اور ایک بس کے درمیان تصادم میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے قبل نومبر 2019 میں پاکستان میں صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں آتشزدگی کے حادثے میں کم از کم 74 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔