- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

اِسراء یا معراج!

’’پیش نظر مضمون محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی دو تحریروں کا مجموعہ ہے، جو ماہنامہ جامعہ اسلامیہ، اکوڑہ خٹک کے شماروں بابت ربیع الثانی ۱۳۸۶ھ مطابق اگست ۱۹۶۶ء اور جنوری ۱۹۶۳ء میں پشتو زبان میں شائع ہوئی تھیں۔ سیاق وسباق سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرتؒ کی تقریروں کو قلم بند کرکے ترتیب دیا گیا ہے۔ ربط کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے دونوں تحریروں میں تقدیم وتاخیر سے کام لیا گیا ہے۔ افادۂ عام کی غرض سے انہیں اُردو کے قالب میں ڈھال کر نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔‘‘ (ادارہ)
حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت ’’نبوت‘‘ سے سرفراز کیے گئے تو کچھ عرصہ بعد رب العالمین جل ذکرہٗ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز واکرام کی خاطر دربارِ خداوندی کے دیدار کے لیے آپ کو اپنے دربار میں مدعو فرمایا۔ دنیا میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ کوئی آدمی جس منصب پر فائز کردیا جاتاہے اور (اس کو کسی سے) محبت پیدا ہوجاتی ہے تو چاہتا ہے کہ اُسے اپنے دربار میں بلائے اور اپنی محبت کے اظہار کے لیے اس کی مہمان نوازی کرے، اور اپنی شان کے لائق اور اپنی طاقت کے مطابق انتظامات کرے۔
بالکل اسی طرح سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے نبوتِ کبریٰ کا منصب عطا فرمایا، پھر اپنے دربار ِخداوندی میں عجیب و غریب خداوندی اعزاز کے ساتھ بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت اُمِ ہانیؓ (جو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چچیری بہن تھیں) کے گھر میں آرام فرمارہے تھے کہ پروردگار کے نمائندے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمانوں کی سیر اور دربارِ خداوندی کی دعوت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا، چونکہ پیغمبری منصب اور قوتِ قدسی کے باوجود بشریت کے وجود میں ان تجلیات کے برداشت کی طاقت نہیں ہوتی اور اس کے دیدار اور دیکھنے کا حوصلہ انسانی طاقت سے باہر ہوتا ہے، اس بناپر قدرت نے اس کے لیے مخصوص طریقہ سے علاج یا تدبیر فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو سینہ سے نکالا اور اس سے بشری آلائشیں نکال دی گئیں اور اس میں روحانی عنصر اور روحانی طاقت رکھ دی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طاقت کی زیادتی کے لیے جنت کا مخصوص ستودہ (دودھ) دیا گیا، تاکہ آپریشن کے سبب جو کمزوری پیدا ہوگئی تھی‘ ختم ہوجائے، جنت سے ایک خاص سواری آئی، روح کو ایک گھوڑے کا لباس پہنایا گیا اور اس برق رفتار سواری کا نام ’’براق‘‘ تھا، اس پر سوار ہوئے، اور حضرت جبرئیل امین ؑنے لگام کو ہاتھوں میں تھاما، یوں آناً فاناً بیت المقدس پہنچ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ’’نبوتِ کبریٰ‘‘ اور ’’امام المرسلین‘‘ کا مرتبہ ظاہر کرنے کی خاطر تمام انبیاء کرام علیہم السلام وہاں (بیت المقدس میں) مدعو کیے گئے تھے، وہاں دو رکعت نماز ادا فرمائی، تمام پیغمبروں نے اقتداء فرمائی اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت وقیادت اور امامت وزعامت کی ظاہری تشکیل دے دی گئی، اس دیدار اور سفر کا ذکر قرآن کریم میں سورۂ اسراء میں ہوا ہے، جس کا دوسرا نام سورۂ بنی اسرائیل ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’سُبْحَانَ الَّذِيْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِيْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔‘‘ (بنی اسرائیل:۱)
’’پاک ہے وہ ذات کہ اپنے خاص بندہ کو رات کے وقت مسجدِ حرام (مکہ) سے (بیت المقدس) مسجد اقصیٰ پہنچادیا، جس کو گھیر رکھا ہے ہماری برکت نے، تاکہ انہیں اپنی قدرت اور بادشاہی کی عجیب عجیب نشانیاں دکھلائیں، یقینا اللہ تعالیٰ سمیع وبصیر ہے۔‘‘
سفر کے اس حصہ کو ’’اسراء‘‘ کہا جاتاہے اور دوسرے سفر کا نام ’’معراج‘‘ ہے۔ بیت المقدس سے آسمانوں، بالائی فضا اور جنت و دوزخ کے دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک دولت یا حکومت‘ دوسری حکومت وسلطنت کے کسی بڑے کو اپنے وطن کی سیر وتفریح کی دعوت دے تو اُسے اپنے کارخانے اور حکومتی استحکامات وانتظامات دکھاتی ہے، تاکہ دوستی اور تعلق مزید مضبوط ہوجائے، بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خداوندی دعوت میں اپنی قدرت کے کارخانے، خداوندی انتظامات اور اس دربار کی خصوصی ’’آیاتِ کبریٰ‘‘ یعنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔
اس پیغمبرانہ سفر اور خداوندی دعوت کا ذکر قرآن کریم کی سورۂ نجم میں ہوا ہے، الغرض معراج اور اسراء ایک مبارک سفر کے دو حصے ہیں، دونوں کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ پر ہوا ہے، اور احادیث میں اس اجمال کی عجیب تفصیلات ہیں، دونوں واقعات کو کبھی ’’اسراء‘‘ کہاجاتاہے اور کبھی ’’معراج‘‘۔
حضرت خاتم النبیین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیغمبرانہ پرواز اس بات کی نشاندہی تھی کہ ان کی اُمت یعنی نسلِ انسانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ نبوت میں اتنی ترقی کرے گی کہ وہ پرواز کرے گی اور کم وقت میں کہاں سے کہاں پہنچ جائیںگے، لیکن فرق یہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی (یہ پرواز) خدا تعالیٰ کی مخصوص طاقت کے ساتھ ہے، جو عالمِ اسباب سے بالاتر طاقت ہے۔ وہ اسباب اور موجودہ مادی ذرائع و وسائل کا محتاج نہیں ہے اور نسلِ انسانی کی پرواز‘ مادی وسائل کی محتاج ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۹۳۰ء میں لاہور میں ایک بار حضرت امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور ڈاکٹر اقبال مرحوم ایک ضیافت میں یکجا ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحبؒ ‘حضرت شاہ صاحبؒ کی بہت عزت اور ادب کرتے تھے اور ان کے علمی مرتبہ کے بہت قائل تھے۔ شاہ صاحبؒ یہ تحقیق (بیان) فرمارہے تھے کہ پیغمبر کے معجزات میں اس بات کی تمہید ہے کہ آئندہ نسلِ انسانی‘ اسباب کے دائرے میں اس قسم کی ترقی کرے گی، شاہ صاحبؒ نے اپنے عربی منظوم کلام میں بھی اس مضمون کو بیان کیا تھا، وہ مجھے یاد ہے، ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بہت شوق اور بہت توجہ کے ساتھ یہ مضمون سنا اور لطف اندوز ہوئے۔
یہ ریڈیو، ٹیلی ویژن، ہوائی جہاز، ٹیلی گراف، ٹیلی فون وغیرہ سب کی اعلیٰ ترین صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں موجود ہیں، بلکہ بعض اوقات حضرات صحابہ کرامؓ کی کرامات میں بھی اس کے نمونے موجود ہیں۔ روحانی ترقی میں قدرت کے مختلف خوارق ومعجزات وکمالات صادر ہوتے ہیں اور مادی ترقی میں انسانی ترقیات کے کمالات‘ اسباب کے دائرہ میں ظاہر ہوتے ہیں، پھر جیسے بادشاہ کی دعوت پر کوئی ان کی سلطنت میں چلا جائے تو وہ اسے تحفے تحائف دیتے ہیں‘ ہو بہو اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تحفے دیئے تھے، لیکن وہ روحانی کمالات تھے کہ ان کے نتائج‘ آخرت میں جنت کی شکل میں ظاہر ہوںگے، ان تحفوں میں ایک پنج وقتہ نمازیں، دوسرا یہ کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا کم از کم دیا جائے گا، پھر یہ کہ جب گناہ کا ارادہ کرلیاجائے، لیکن گناہ نہ کرے تو اس کے اعمال نامہ میں ایک نیکی لکھی جائے گی۔
ہم جس وقت یہ تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخصیت کو درجۂ نبوت پر سرفراز کیا ہے تو یہ خیال ضروری ہے کہ ہم یہ احساس کریں کہ اس شخصیت میں قدرت نے فوق العادۃ، عقل کے دائرے سے بالاتر کمالات رکھے ہیں، اور انسان کی عقل اس کے تصور اور سمجھ سے بالکل عاجز ہے، جس مقام پر عقل کی پرواز ختم ہوتی ہے، (وہاں سے) نبوت کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ بس کسی شخصیت کو پیغمبر خیال کرتے ہی گویا ہم نے یہ اقرار کرلیا کہ ان کا مقام ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
اگر فارسی کی اس مشہور مثال کو دیکھا جائے کہ ’’ولی را ولی مے شناسد‘‘ (ولی کو ولی ہی پہچان پاتا ہے) تو یہ اعتراف بھی ضرور کرنا ہوگا کہ ’’نبی را نبی مے شناسد‘‘ (یعنی نبی کو بھی نبی ہی پہچان سکتا ہے) تو معلوم یہ ہوا کہ پیغمبریت کی حقیقت پیغمبر کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں ہوسکتی، ایک قدم آگے بڑھ کر سوچے کہ جو شخصیت‘ پیغمبروں کی سردار ہے اور ان کے کمالات پر فائز ہے تو ظاہر ہے کہ ان کا مقام پیغمبروں کے فہم سے بھی بالاتر ہوگا، اس موقع پر یہ مثال ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ ’’سید الانبیاء را خدا تعالیٰ مے شناسد‘‘(سید الانبیاء کے مقام کو تو خدا ہی جان سکتا ہے)۔
جب ہم نے اس ترتیب کے ساتھ فکر کو اپنے مقام تک پہنچادیا ہے، تو پھر ان کے کارناموں، معجزات ، حیرت انگیز واقعات پر تعجب نہیں کرنا چاہیے اور بے چوں وچرا ماننا چاہیے۔ بس شرط یہ ہے کہ خبر درست ہو اور محض افسانوں کے درجہ میں نہ ہو۔ دونوں جہانوں کے سردار پیغمبرحضرت محمد مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کا واقعہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور فوق العادۃ حیرت انگیز واقعات کا ایک عجیب واقعہ ہے، خصوصاً سائنس کی اس دنیا میں کہ آسمانی فضا میں مصنوعی ستارے چھوڑتے ہیں اور دیگر آلات‘ فضا میں بھیجتے ہیں اور پھر واپس کھینچتے اور لے آتے ہیں اور قدرت کی فضا کی وسعت کا اندازہ لگایئے اور ایک راکٹ پر اُن کی کتنی فکر، مال ودولت، وقت اور محنت خرچ ہوتی ہے، انہیں تو ایسے واقعہ پر خوب حیران ہوجانا چاہیے کہ کس طرح بغیر آلات کے، سائنس کی اس ترقی کے بغیر کس طریقہ پر رب العالمین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کائنات کی سیر کرائی؟!
عقلِ انسانی یہ اقرار کرنے پر مجبور ہے :’’فَسُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ اور شاید اس وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل میں لفظ ’’سُبْحَانَ‘‘ سے شروع کیا ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے کمال کی طرف اشارہ ہوجائے اور دوسری طرف اس واقعہ کی نوعیت عجیب ہونے کی طرف اشارہ ہوجائے۔
اب اس مختصر وقت میں اس حیرت انگیز واقعہ کی تفصیلات کا موقع نہیں ہے، لیکن سادہ لفظوں میں خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ایک عظیم الشان اعزاز دیا اور اپنے مقدس دربار میں انہیں مدعو فرمایا کہ اب تک یہ حیرت انگیز ترین دعوت کسی اور شخصیت کو نہیں دی گئی تھی، اور اپنے ملکوت اور بادشاہی دربار کی انہیں زیارت کروائی، تاکہ وہ قدرت کے اس غیبی کارخانہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ یہ قاعدہ ہے کہ جب تعلق بہت زیادہ ہوجائے تو ملاقات، ہم کلامی، راز ونیاز اور مخصوص معاہدوں کے لیے دنیاوی بادشاہ اپنے دوستوں کو دعوت دیتے ہیں۔
اس واقعہ کے دو حصے ہیں: ایک حصہ اس ملکوتی سیر کا مکہ معظمہ سے شروع ہوتا ہے اور بیت المقدس پر ختم ہوتا ہے، یعنی مکہ معظمہ کے حرم پاک سے بیت المقدس کے حرم پاک تک۔ یہ مضمون قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں بیان ہوا ہے اور دوسرا حصہ اس سے اوپر عرشِ اعظم اور خصوصی دربارِ اقدس تک ہے۔ اس مضمون کو سورۃ النجم میں اشارہ کیاگیاہے۔ دعوت دینے کے لیے حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کو حکم دیاگیا تھا کہ وہ (دعوت دینے کے لیے) آدھی رات کو چلے جائیں، (حضور صلی اللہ علیہ وسلم ) حرم پاک میں حضرت ام ہانی tکے گھر آرام فرمارہے تھے، سواری کے لیے ایک عظیم الشان سواری، جس کا نام براق تھا، تیار کی گئی تھی، جس کی برق رفتاری کی تفصیلات احادیث میں موجود ہیں۔ اس واقعہ کو ’’قرآن و حدیث‘‘ کی زبان میں ’’اِسراء‘‘ کہا جاتا ہے۔ بیت المقدس میں استقبال کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام پیغمبر مدعو کیے گئے تھے۔ ظاہری اور حِسّی طور پر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوتِ کبریٰ اور سیادت کے لیے دو رکعت نماز میں امامت فرمائی، گویا یہ قدرت کا ایک ’’ٹیلی ویژن‘‘ تھا کہ وہاں حاضر کیے گئے، پھر اس جگہ سے ’’عالمِ بالا‘‘ کی سیر وسیاحت شروع ہوتی ہے، اس واقعہ کو حدیث کی روشنی میں ’’معراج‘‘ کہتے ہیں۔
بالآخر یہ عروج اور آسمانی طبقات کی یہ سیاحت ایسے مرحلہ میں داخل ہوگئی کہ جبرئیل امین علیہ السلام کو بھی وہاں اجازت نہیں تھی، یہ مقام ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ تھا۔ عجیب عجیب اور رنگا رنگ تجلیات تھیں اور وہ روحانی مناظر تھے کہ دنیا میں آپ علیہ السلام کے علاوہ کسی ایک پیغمبر کو بھی حاصل نہیں ہوئے اور پھر وہاں سے ’’قَابَ قَوْسَیْنِ‘‘ کے اس مقام تک عروج شروع ہوا، جو رب العالمین کے دربارِ مقدس کی حاضری تھی، اور راز ونیاز کا وہ سلسلہ شروع ہوا، جس کا ذکر سورۃ النجم میں ہے۔