ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے : یعنی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا- اس نے کہا کہ اے خدا کے رسول، مجهے ایک ایسا عمل بتائے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو میں اللہ کا محبوب بن جاوں اور لوگ بهی مجهہ سے محبت کریں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دنیا کے معاملے میں تم زاہد بن جاو، اللہ تم سے محبت کرے گا- اور جو کچهہ لوگوں کے پاس ہے، اس کے معاملے میں تم زاہد بن جاو تو لوگ تم سے محبت کریں گے- (ابن ماجہ، رقم الحدیث :4102)
اس حدیث رسول میں ‘ زہد ‘ کا لفظ استعمال هوا ہے- زہد کا لفظی مطلب بے رغبتی ہے، یعنی دلچسپی نہ رکهنا، بے تعلق ہو جانا- دنیا سے بے رغبتی کا مطلب دنیا کو عملا چهوڑنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا میں رہے، لیکن قلبی تعلق کے اعتبار، وه آخرت سے جڑا ہوا ہو- جس آدمی کے اندر زہد کی یہ صفت ہو گی، اس کے اندر فطری طور پر ایک نئی شخصیت پیدا ہوگی- اپنی سوچ اور اپنے قول و عمل کے اعتبار سے وه عام دنیا داروں سے مختلف ہو جائے گا- اس کے اندر وه اخلاقی اور روحانی اوصاف پیدا ہوں گے جو خدا پرستانہ زندگی کے اعتبار سے مطلوب ہیں-
جو آدمی لوگوں کے درمیان اس طرح رہے کہ وه ان سے پانے کی امید رکهتا ہو، وه لوگوں کی نظر میں حقیر بن جائے گا- لوگ ایسے آدمی کو عزت دیتے ہیں جو ان کو اپنے آپ سے اونچا دکهائی دے- حریص آدمی کبهی دوسروں سے اونچا نہیں ہوتا، اس لیے وه دوسروں کی نظر میں قابل عزت بهی نہیں ہوتابے غرضی کی روش آدمی کو لوگوں کے درمیان باعزت بناتی ہے اور خود غرضی کی روش آدمی کو دوسروں کی نگاہوں میں ذلیل کر دیتی ہے-