- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

عالی مرتبہ خاتون

یہ عالی مرتبہ خاتون ہجرت نبوی سے ستائیس سال قبل مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔ والد ماجد روز اول سے ہی نہایت اعلی اخلاق اور پاکیزہ اوصاف کے حامل تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے پاک باز اور فرشتہ سیرت باپ کے زیر سایہ ان کی تربیت کیسی ہوئی ہوگی؟ قبولِ اسلام کے لحاظ سے بھی انھیں امتیازی خصوصیت حاصل ہے۔ وہ اوائل بعثت ہی میں اس سعادت کو پاگئیں، جب صرف سترہ نفوس قدسی مخفی طور پر ایمان لائے تھے۔ اس طرح السابقون الاولون کی صف میں ان کا اٹھارھواں نمبر ہے۔
بعثت کے چوتھے سال میں جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانیہ تبلیغ حق کا آغاز فرمایا تو مشرکین قریش کے قہر و غضب کا آتش فشان پوری قوت سے پھٹ پڑا اور انھوں نے پرستاران حق پر ایسے دلدوز مظالم ڈھانے شروع کردیے کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ عالی مرتبہ خاتون نے یہ مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم شفیق والد گرامی رضی اللہ عنہ اور دوسرے اہل حق پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھ کر ان خاتون کے دل پر کیا گزرتی ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ تا ہم وہ نہایت صبر و استقامت کے ساتھ یہ روحانی کلفت سہتی رہیں، تا آنکہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔
مدینہ منورہ (قبا) میں اقامت گزین ہونے کے بعد اُن خاتون نے پہلے چند سال بڑی تنگی ترشی سے بسر کیے، چناں چہ خود ان خاتون کی روایت ہے:
”میرے شوہر نے جب مجھ سے نکاح کیا، اس وقت اُن کے پاس زمین تھی نہ غلام نہ ہی کچھ اور۔۔۔ سوائے ایک اونٹ اور ایک گھوڑے کے۔ میں اُن کے گھوڑے کو دانہ کھلاتی تھی، پانی بھرتی تھی، ڈول سہتی تھی، آٹا گوندھتی تھی۔ انصار کی چند عورتیں جو میری ہمسایہ تھیں، وہ روٹی پکادیتی تھیں وہ عورتیں مخلص تھیں۔ میں اپنے شوہر کی زمین سے (جو انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی) سر پر گٹھلیاں رکھ کر لاتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے تین فرسخ کی مسافت پر تھی۔“
ہجرت کے بعد مہاجرین کے یہاں کچھ دنوں تک اولاد نہیں ہوئی تو یہودیوں کو بڑی خوشی ہوئی، بلکہ بعض یہودیوں نے یہ بھی کہا کہ ہم لوگوں نے ایسا جادو کردیا ہے کہ کسی مہاجر کے گھر میں بچہ پیدا ہی نہیں ہوگا۔ اس فضا میں سب سے پہلے مہاجرین کے یہاں سب سے پہلے انہی عالی مرتبہ خاتون کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ سو مسلمانوں کو اِس سے بے حد خوشی ہوئی۔ محترم خاتون نے اپنے فرزند کو بارگاہ رسالت میں بھیجا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مقدس گود میں لے کر کھجور منگائی اور خود چبا کر کھجور کو اس بچے کے منہ میں ڈال دیا۔
طبرانی نے اُن عالی مرتبہ خاتون کی تنگ دستی کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جو خود اُن کی زبانی مذکور ہے: فرماتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ اسی زمین پر تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی۔ یہ بنونضیر والی زمین کہلاتی تھی۔ ایک دن میرے شوہر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ ہمارا ایک یہودی پڑوسی تھا اس نے ایک بکری ذبح کی اور گوشت بھونا۔ اُس کی خوشبو جب مجھے پہنچی تو مجھے ایسی سخت اشتہا پیدا ہوئی جو پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ ان دنوں میرے ہاں زچگی متوقع تھی۔ مجھ سے صبر نہ ہوسکتا تو میں یہودی عورت کے پاس آگ لینے گئی اِس ارادے سے کہ شاید مجھ سے کھانے کی بابت پوچھ لے، ورنہ مجھے آگ کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن یہودیہ نے کھانے کی بات ہی نہ کی۔ میں آگ لے کر اپنے گھر آگئی مگر وہاں جانے سے میری اشتہا اور بڑھ گئی تھی تو کچھ دیر کے بعد پھر یہودیہ کے گھر گئی، پھر بھی اس نے کھانے کی بات نہ کی، تیسری مرتبہ پھر میں نے اس کے گھر پہرا ڈالا، لیکن اس نے کھانے کا نہ پوچھا۔ اب میں اپنے گھر میں بیٹھ کر رونے لگی اور اللہ سے دعا کی کہ الہی میری چاہت پوری کردے۔
اتنے میں اس یہودیہ کا شوہر اپنے گھر آیا اور آتے ہی پوچھا کہ کیا تمھارے پاس کوئی آیا تھا؟ یہودیہ نہ کہا کہ ہاں پڑوس کی عرب عورت آئی تھی۔ یہودی نے کہا جب تک اُس گوشت میں سے اس کے پاس نہ بھیجے گی میں ہرگز اسے نہ کھاؤں گا (کیوں کہ اسے ڈر تھا کہ کہیں کھانے کو نظر نہ لگ گئی ہو) چناں چہ اس نے میرے پاس گوشت کا پیالہ بھیج دیا اور اس وقت میرے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ اور عجیب کھانا کوئی نہ تھا۔۔۔“
یہ روایت عالی مرتبہ خاتون کی صاف گوئی پر دلالت کرتی ہے۔ اُس میں انھوں نے اپنی عسرت اور بشری کمزوری کا حال صاف صاف بیان کردیا ہے۔
شروع شروع میں وہ خاتون افلاس کی وجہ سے ناپ تول کر اللہ کے راستے میں خرچ کیا کرتی تھیں۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
”ناپ تول کر مت خرچ کیا کرو، ورنہ اللہ تعالی بھی نپی تلی روزی دے گا۔“
آپ رضی اللہ عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو حرزِ جان بنالیا اور کھلے دل سے خرچ کرنے لگیں، خدا کی قدرت اسی وقت سے ان کے شوہر کی آمدنی بڑھنے لگی اور تھوڑی ہی مدت میں دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ آسودہ حالی کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی سادہ وضع ترک نہ کی۔ ہمیشہ روکھی سوکھی کھاتیں اور موٹا کپڑا پہنتیں، البتہ اپنے مال کو خیر کے کاموں میں خوب خرچ کرتیں۔
آپ رضی اللہ عنہا کمال درجے کی عابدہ و زاہدہ تھیں۔ کثرت عبادت کی وجہ سے اُن کے تقدس کا عام شہرہ ہوگیا تھا۔ عالی مرتبہ خاتون بے حد نڈر اور شجاع بھی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد وہ اپنے شوہر اور فرزند کے ساتھ شام کے میدان جہاد میں تشریف لے گئیں اور کئی دوسری خواتین کی طرح یرموک کی ہولناک لڑائی میں جنگی خدمات انجام دیں۔
ہجرت کے وقت اُن عالی مرتبت والد کے مکان میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا توشہ سفر ایک تھیلے میں رکھا گیا اور اِس تھیلے کا منہ باندھنے کے لیے کچھ نہ ملا تو انہی خاتون نے فوراً اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر اُس سے توشہ دان کا منہ باندھ دیا۔ اسی دن سے انھیں ذات النطاقین (دو پڑکے والی) کا معزز لقب ملا۔
اُن کے باکمال فرزند اپنی والدہ کے بے حد خدمت گزار تھے اور خود بڑی اہم شخصیت کے مالک تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی المناک شہادت کے بعد انھوں نے قابض طاقت کا جس استقامت اور شجاعت کے ساتھ مقابلہ کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
عالی مرتبہ خاتون نے اپنی طویل زندگی میں زمانے کے بے شمار نشیب و فراز دیکھے وہ تاریخ اسلام کی ان معدودے چند ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے جاہلیت کا زمانہ بھی دیکھا اور پورا دور رسالت بھی دیکھا اور خلفائے راشدین کا عہدِباسعادت بھی دیکھا۔ اپنے عظیم المرتبت فرزند اکبر کا دورِ عروج بھی دیکھا اور ان کی المناک شہادت کا منظر بھی دیکھا۔ ان پر بارہا مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے، لیکن انھوں نے ہر موقع پر بے پناہ عزم و استقلال اور جرأت ایمانی کا مظاہرہ کیا۔
جی قارئین! یہ عالی مرتبہ خاتون سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بڑی صاحب زادی اور حواری رسول حضرت زبیر بن العوام کی زوجہ محترمہ اور اسلام کی ایک اہم شخصیت حضرت عبداللہ بن زبیر کی والدہ محترمہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم ہیں۔
آپ کو اللہ پاک نے پانچ فرزند اور تین صاحبزادیاں عطا کی تھیں۔ ان کے نام یہ ہیں: عبداللہ، عروہ، منذر، مہاجر، عاصم، خدیجۃ الکبری، ام الحسن اور عائشہ۔
ان میں سے حضرت عبداللہ اور عروہ نے تاریخ میں لازوال شہرت حاصل کی۔