- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

دہلی فسادات میں بھارتی پولیس نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی، ایمنسٹی انٹرنیشنل

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ بھارت کے دارالحکومت میں رواں برس کے اوائل میں متنازع قانون کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج کے دوران فسادات میں دہلی پولیس انسانی حقوق کی سنگین خلاف پامالی کی مرتکب ہوئی۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ دہلی پولیس نے مظاہرین پر تشدد کیا اور انہیں گرفتار کیا جبکہ ہندو حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔
واضح رہے کہ بھارتی دارالحکومت میں فسادات کے دوران کم ازکم 53 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان فسادات میں 40 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اورمسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق دہلی پولیس نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو درخواست کے باوجود فسادات میں تشدد سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ فسادات کے دوران ہندووں کو بھی نقصان پہنچا لیکن سب سے زیادہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
فسادات کے حوالے سے کہا گیا کہ ‘ان فسادات میں مسلمانوں کا نقصان ہندووں کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ تھا، مسلمانوں کی جائیدادوں اور کاروبار کو بھی نذر آتش کیا گیا تھا’۔
مزید بتایا گیا کہ پولیس نے انسانی حقوق کے نمائندوں، اساتذہ اور طلبہ کو بڑی تعداد میں گرفتار کیا اور ان میں بھی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ‘فسادات کے دوران نفرت انگیز تقاریر کرنے والے اور ان فسادات کو ہوا دینے والے کسی ایک سیاسی رہنما کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی’۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں دہلی فسادات پر آزادانہ تحقیقات کی تجویز دی ہے۔
رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ‘فسادات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے دہلی پولیس تفتیش کررہی ہے لیکن دہلی پولیس کی جانب سے ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالی پر اب تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی’۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دیگر کئی اداروں نے بھی اپنی رپورٹس میں دہلی پولیس کے کردار کو جانب دارانہ قرار دیا تھا اور مسلمانوں کے خلاف ہندو حملہ آوروں کی مدد کی نشان دہی کی تھی۔
بھارت کے اقلیتی حقوق کمیشن (ڈی ایم سی) نے 18 جولائی کو اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ نئی دہلی میں رواں برس کے اوائل میں متنازع شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران مسلمانوں کے قتل و غارت اور املاک کو نقصان پہنچانے میں قانون کے حامیوں کے ساتھ پولیس بھی شامل رہی۔
ڈی ایم سی نے کہا تھا کہ رواں برس فروری میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کے موقع پر شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے دوران مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 11 مساجد، 5 مدارس، مسلمانوں کی ایک درگاہ اور قبرستان پر حملہ کیا گیا اور انہیں نقصان پہنچایا گیا۔
فسادات کے دوران ہونے والے مظالم کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ‘بظاہر احتجاج کو ختم کرنے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے ‘سی اے اے’ کے حامی مظاہرین نے بڑے پیمانے پر کشیدگی پھیلا دی’۔
کمیشن نے کہا تھا کہ پولیس نے مسلمانوں پر کشیدگی کا الزام دھرا حالانکہ وہ خود اس کا بدترین شکار ہوئے تھے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے مارچ میں اپنی ایک رپورٹ میں دہلی فسادات سے متعلق کہا تھا کہ دہلی پولیس نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔
اخبار نے لکھا کہ تھا کہ ثبوت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہلاکت خیز فسادات کے دوران مسلمانوں اور ان کے گھروں کو نشانہ بنانے میں نئی دہلی پولیس ‘اجتماعی طور پر مسلمانوں کے خلاف گئی’ اور ‘متحرک طریقے سے ہندو ہجوم کی مدد کی’۔
یاد رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر 2019 سے مظاہرے کیے جا رہے تھے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورہ بھارت کے دوران 24 فروری کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اچانک یہ مظاہرے مذہبی فسادات کی شکل اختیار کر گئے تھے۔
مذہبی فسادات اس وقت شروع ہوئے جب ہزاروں افراد نے نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کیا جہاں ان پر اچانک انتہا پسند اور شرپسند افراد نے حملہ کردیا جس کی وجہ سے مظاہرے مذہبی فسادات میں تبدیل ہوگئے۔
ان فسادات کے دوران کم از کم 53 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہو گئے تھے جبکہ دہلی میں مسلمانوں کی آبادی کو بڑی تعداد میں نشانہ گیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ‘اگر پولیس اپنا فرض ادا کرتی تو مشتعل افراد بچ نہیں سکتے تھے’۔