- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

ماہ رنگ بلوچ: ’جب بھائی لاپتہ ہوا تو میں نے نقاب اتار پھینکا اور احتجاج شروع کر دیا‘

صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں طلبہ کے ایک احتجاج کے دوران بولان میڈیکل کالج کی طالبہ ماہ رنگ بلوچ سب کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔
سوشل میڈیا پر موجود کئی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بدھ کو ماہ رنگ بلوچ کو خواتین پولیس اہلکار گرفتار کر رہی ہیں۔ بعد ازاں اسی روز انھیں رہا کر دیا گیا تھا اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بیان جاری کیا تھا کہ ’حکومت نے کسی طالب علم کی گرفتاری کا حکم نہیں دیا تھا۔‘
’سہولیات کے بغیر آن لائن کلاسز نامنظور‘ کا نعرہ لگانے والے کچھ طلبہ کی گرفتاری پر جام کمال خان نے وضاحت دی تھی کہ ’پولیس اور طلبہ کے درمیان جھڑپ ہوئی اور پولیس نے اپنے طور پر کارروائی کی، جس کے فوراً بعد پولیس کو حکم دیا گیا تھا کہ طلبہ کو رہا کیا جائے۔‘
بلوچستان میں انسانی حقوق کی کارکن ماہ رنگ بلوچ گرفتاری کے باوجود خاموش نہ رہیں۔ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب انھیں پولیس کی وین میں کئی خواتین اہلکار سوار کرواتی ہیں تو اس وقت بھی وہ نعرے بازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسی طرح جب انھیں پولیس تھانے کی طرف لے جایا جا رہا ہے تو اس وقت وہ فیس بک لائیو کر رہی ہیں۔ تھانے میں بھی وہ کہتی ہیں کہ وہ حقوق کی جنگ کو جاری رکھیں گی۔
ماہ رنگ بلوچ کے اس انداز کو پاکستان میں کئی سوشل میڈیا صارفین نے بے حد سراہا ہے۔ اس موقع پر کئی صارفین نے انڈیا میں نافذ کیے جانے والے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج میں مزاحمت کی نشانی بننے والی مسلمان طالبات کے ساتھ ان کا موازنہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ ماہ رنگ بلوچ کی تصاویر شیئر کی ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ چاہتی کیا ہیں؟
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’جب ہم طلبہ نے آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تو اس وقت ہی مجھے اور میرے ساتھیوں کو اندازہ تھا کہ پولیس ہمیں گرفتار کرسکتی ہے اور ہم پر تشدد ہوسکتا ہے۔‘
’میں طلبہ تحریک میں فعال کردار ادا کرتی ہوں۔ مجھے پتا تھا کہ میں بالخصوص نشانہ بن سکتی ہوں۔ جس وجہ سے میں ذہنی طور پر تیار تھی اور یہ بھی سوچ رکھا تھا کہ ہمارا احتجاج تو آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ یہ اگر پرتشدد ہوتا ہے تو ہم نے کس طرح مزاحمت کرنی ہے۔‘
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ جب احتجاج شروع ہوا تو ’اس وقت ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ ہمارے خدشات درست ہیں۔
’پولیس کا رویہ ٹھیک نہیں تھا اور پھر جب احتجاج تھوڑی دیر چلا تو جو سلوک کچھ پولیس اہلکاروں نے خواتین طالبات کے ساتھ کیا اس پر جمہوریت بھی شرما گئی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس احتجاج کے دوران میرا رویہ کوئی غیر معمولی نہیں تھا اور نہ ہی یہ کوئی میرا پہلا احتجاج تھا اور نہ ہی ہمیں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے پہلی بار ایسے سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
’میرے اور میرے ساتھیوں کے ساتھ کئی مرتبہ ایسے ہو چکا ہے۔ اب تو ہم اس رویے کے عادی ہوچکے ہیں۔ جس میں اپنا جائز حق مانگنے پر بھی ہمیں تشدد، جیل اور تھانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ماہ رنگ بلوچ کون ہیں؟
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ان کا آبائی ضلع قلات ہے۔ وہ پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہے اور سب تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد عبدالغفار واپڈا میں ملازمت کرنے کے علاوہ مزدور، قوم پرست اور بائیں بازو کی سیاست کرتے تھے۔
’سنہ 2006 میں وہ پہلی مرتبہ لاپتہ ہوئے جس کے کچھ عرصے بعد وہ واپس آگئے تھے۔ پھر وہ 2009 میں لاپتہ ہوئے اور 2011 میں ان کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔‘
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ’اس کے بعد ہم سب بہن بھائی والدہ کے ہمراہ کراچی چلے گئے جہاں کئی سال تک خاموشی سے زیر تعلیم رہے۔ بلوچستان سے طویل عرصے بعد اس وقت میرا رابطہ بحال ہوا جب مجھے بولان میڈیکل کالج میں داخلہ ملا۔‘
ان کا کہنا ہے ’بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں داخلے کے دوران میں نقاب کیا کرتی تھی اور خاموشی سے پڑھائی کررہی تھی۔ خیال تھا کہ کسی بھی طرح پہلے اپنی پڑھائی مکمل کر لوں اور پھر اس کے بعد سیاست میں بھی فعال کردار ادا کروں گی۔ مگر پتا نہیں کیا ہوا کہ 2016 میں میرے بھائی کو لاپتہ کردیا گیا۔ جس پر میں نے اپنا نقاب اتارا اور احتجاج شروع کردیا۔‘
اس کے بعد سے وہ طلبہ سیاست میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’سنہ 2006 میں جب میرے والد لاپتہ ہوئے تو اس وقت میں پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ اس وقت بھی والد کو بازیاب کروانے کے لیے میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج میں شامل تھی۔
’اس احتجاج میں میرے والد کے دوست ذاکر مجید بلوچ نے مجھ سے کہا کہ مجھے تقریر کرنی ہے۔ وہ میری پہلی تقریر تھی۔
’میں جب تقریر کے لیے کھڑی ہوئی تو اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ مجھے میرے والد یاد آرہے تھے۔ والد کو یاد کر کے میں نے رونا شروع کر دیا اور زور زور سے رونے لگی۔ اس موقع پر صرف یہ ہی کہہ سکی کہ میرے والد کو چھوڑ دیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ذاکر مجید بلوچ نے تقریر کی، وہ بھی لاپتہ ہوئے اور وہ اب بھی لاپتہ ہیں۔
’ذاکر مجید بلوچ نے تقریر ختم کی تو اس کے بعد پولیس نے وہی رویہ اختیار کیا جو گذشتہ روز (بدھ) طلبہ احتجاج کے دوران کیا تھا۔ ہر طرف چیخ و پکار شروع ہوگئی اور میرے کئی کزن اور ساتھی گرفتار کرلیے گئے۔‘

’حق کے لیے احتجاج کے دوران دوپٹے کھینچے جاتے ہیں‘
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ان کی سیاسی تربیت بچپن ہی سے ان کے والد نے کی۔ ’جب 2017 میں بھائی لاپتہ ہوا تو میرے اندر کا سیاسی کارکن بھی بیدار ہوگیا۔‘
بھائی کی گرفتاری کے خلاف جب انھوں نے نقاب اتار کر سڑکوں کا رُخ کیا تو ’تین ماہ بعد ہمارا بھائی واپس آگیا۔
’میں نے پھر نقاب کرلیا کیونکہ میں نے تعلیم مکمل کرنی تھی۔ ڈاکٹر بننا تھا۔ مگر بلوچستان کے اندر طالبات ویڈیو سکینڈل سامنے آیا جس پر میں چپ نہ رہ سکی اور ایک بار پھر احتجاج میں حصہ لیا۔ اس مرتبہ پھر وہی سلوک ہوا۔
’اس کے بعد فیصلہ کیا کہ اگر حق کے لیے احتجاج کے دوران دوپٹے کھینچے جاتے ہیں اور نقاب اتارے جاتے ہیں تو پھر اب نقاب پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد طلبہ سیاست میں فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا جو کہ اب تک جاری ہے۔‘
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کے والد ایک باشعور سیاسی کارکن تھے۔ ’مجھے یاد ہے کہ وہ اکثر و بیشتر ہم سب، ہماری پھوپیوں، چچاؤں کو اکٹھا کرتے اور سب کے ساتھ بحث مباحثہ کرتے تھے۔
’یہ بحث مباحثہ سیاسی ہوتا تھا اس کے بعد اکثر وہ مجھے وقت دیا کرتے تھے۔ میرے ساتھ بات کرتے، مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ وہ میری سیاسی تربیت کیا کرتے تھے۔ مجھے کہا کرتے تھے کہ جب حق مانگا جاتا ہے تو اس کے بدلے میں اکثر و بیشتر ظلم ہوتا ہے اور وہ ظلم برداشت کرنا ہوتا ہے مگر فتح حق کی ہوتی ہے۔‘
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’میرے والد کہا کرتے تھے کہ میں نے پہلے ڈاکٹر بننا ہے اور ساتھ میں سیاست کرنی ہے۔ ڈاکٹر بن کر اپنے لوگوں کی خدمت کرنی ہے اور ان کے لیے مثال بننا ہے اور سیاست کرکے اپنا حق مانگنا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میری نظر بہت دور ہے۔ ڈاکٹر بننے کے بعد اب بلوچستان میں ہی خدمات انجام دینی ہیں۔ سرکاری نوکری کرنی ہے یا نہیں یہ نہیں پتا، مگر اپنے لوگوں کی خدمت ضرور کروں گی اور پھر سیاست بھی کروں گی۔ چاہے اس میں کتنی ہی مشکلات کیوں نہ آئیں۔
’مجھے میرے والد صاحب نے سکھایا ہے کہ ظلم کو ظلم کہنا ہے اور میں ظلم کو ظلم کہوں گی چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘