- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں والا مہمان

یہ بڑا عجیب مہمان ہے۔ اس کی آمد کا طریقہ تو عجیب تر ہے۔
دبے پائوں تحفوں، نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے لدا پھندا چپ چاپ ہماری زندگی میں چند ساعتوں کے لئے آتا ہے۔ جس نے اس کو پہچان لیا اور آگے بڑھ کر اس کا پُرجوش خیرمقدم کیا، اس پر تو وہ اتنی بے حساب نعمتیں برساتا اور تحفے نچھاور کرتا ہے کہ جل تھل کر دیتا ہے اور جس نے تن آسانی، سستی اور غفلت سے اس کا نیم دلانہ استقبال کیا تو یہ پیکرِ جود و سخا، دو چار چھینٹیں اس پر بھی چھڑک ہی جاتا ہے۔ اسی لئے اس میخانے کا محروم بھی محروم نہیں کہلاتا۔
آپﷺ نے فرمایا ’’رمضان کے مہینے میں میری امت کو 5ایسی نعمتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔
اول، رمضان کی پہلی رات میں اللہ ان پر نظر کرم کرتا ہے اور جس پر اللہ نظر کرم کرتا ہے، اسے کبھی عذاب سے دوچار نہیں کرتا۔
دوم، فرشتے ہر رات اور اور ہر دن اس کے لئے مغفرت کی دُعا کرتے ہیں۔
سوم، اللہ اس کے لئے جنت واجب کردیتا ہے اور جنت کو حکم دیا جاتا ہے کہ روزے دار بندے کی خاطر خوب آراستہ وپیراستہ ہوجائو تاکہ دنیا کی مشکلات اور تھکاوٹ کے بعد میرے گھر اور میری مہمان نوازی میں آرام ملے۔
چہارم، روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔
پنجم، رمضان کی آخری رات روزے دار کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘۔
رمضان کی یہ ساری نعمتیں ان لوگوں کے لئے ہیں جو حقیقی معنوں میں روزے دار ہوں۔ حقیقی روزے دار کون ہوتا ہے؟ اس بارے میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: جو جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، اللہ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے سے غرض نہیں۔ رمضان کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ انسان صبح سے شام تک کھانا چھوڑدے اور باقی خرافات میں لگا رہے۔ روزہ اصل میں زبان کا بھی ہو، ہاتھ کابھی ہو اور پائوں کا بھی ہو۔ آپؐ نے فرمایا روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ گالم گلوچ اور فضول گوئی چھوڑنے کا نام ہے۔ اگر کوئی تمہیں گالی دے یا تم سے جھگڑنے لگے تو تم کہو میں روزے سے ہوں۔‘‘ جھوٹ، چغل خوری، لغویات، غیبت، عیب جوئی، بدگوئی، بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ سب چیزیں اس میں داخل ہیں۔ نبیؐ نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے۔ روزے دار کو چاہئےکہ بے حیائی کے کاموں اور لڑائی جھگڑے سے بچے۔
روزہ معاشرے کے غربا اور فقرا سے تعلق پیدا کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرکے معاشرے میں امیر وغریب کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں غریب امیر کے درمیان جو فرق پیدا ہواہے، وہ معاشرے کے امن وامان اور بھائی چارے کے لئے زہر قاتل ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت ہمارے ملک کے امن وامان اور طبقہ امرا کے ظاہری آسائش وراحت کو بھسم کرسکتا ہے۔
روزے کے احکام پر عملدرآمد کرتے ہوئے اجتماعی افطار وسحر اور مل جل کر کھانے پینے کی مجالس کا اہتمام کرنا چاہئے۔ رمضان میں نمازوں کا خوب اہتمام کرنا چاہئے۔ نماز محمود وایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی پر خاص توجہ دینی چاہئے۔ سحری، افطاری اور تراویح مسلمانوں پر اللہ کی ایسی خاص عنایات ہیں جو مسلمان معاشرے کو ایک الگ ممتاز حیثیت دلاتی ہیں۔ اسلام مسلمانوں کو یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں ان کا ساتھ دیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کا استحصال ہو۔ ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔
حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کتنا بُرا ہے اشیائے ضروریہ کو روک لینے والا آدمی۔ اگر اللہ چیزوں کے نرخ کو سستا کرتا ہے تو اسے غم ہوتا ہے اور جب قیمتیں چڑھ جاتی ہیں تو خوش ہوتا ہے۔ (مشکوٰۃ) ہمارے ہاں یہ عجیب چلن ہے رمضان اور دیگر تہواروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کردیاجاتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ تمام اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرے۔ عوام کو دی جانے والی ریلیف کی تشہیر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں کرے۔ پورے رمضان میں بجلی اور گیس کو یقینی بنائے۔ بالکل لوڈ شیڈنگ نہ کرے۔ تمام ٹی وی چینلز پر قرآن کی تلاوت، ترجمہ، تشریح کے لئے اوقات مقرر کریں۔ احادیث مبارکہ اور سیرت النبی ﷺکے دُروس کو لازمی کریں۔ ہمیں من حیث القوم چاہئے کہ ہم ایثار، قربانی، ڈسپلن اور برداشت کا مادہ پیدا کریں تاکہ بیش بہا اور لازوال تحفوں، نعمتوں اور برکتوں سے اپنا پورا پورا حصہ وصول کرسکیں اور مہمانِ مکرم کے چلے جانے کے بعد کسی افسوس، حسرت، ندامت یا پشیمانی کا شکار ہونے کے بجائے صمیم قلب سے اللہ کے شکر گزار ہوں کہ اللہ نے خوب توفیق سے نوازا۔