- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

مولانا سیدمحمد میاں دیوبندی، عظیم مؤرخ اور مفکر

جمعیت علمائے ہند کے قیام کو ایک صدی مکمل ہونے پر بھارت میں صد سالہ تقریبات کا سلسلہ جاری ہے اور جمعیت کے بزرگ اکابر کی یاد میں مختلف سیمینارز منعقد ہو رہے ہیں۔
دہلی میں جمعیت علمائے ہند کے سرگرم راہنما، مؤرخ اور مفکر حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندی کے حوالہ سے منعقدہ سیمینار کی مناسبت سے حضرت رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ عقیدت اور چند ملاقاتوں کے تاثرات پر مشتمل کچھ گزارشات قلمبند ہوگئیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں۔
حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ کا نام پہلی بار طالب علمی کے دور میں اس وقت سنا جب میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھا اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی رحمہ اللہ کے زیر مطالعہ کتابوں اور جرائد پر میری بھی نظر پڑتی رہتی تھی بلکہ وہ خود کسی نہ کسی کتاب کے مطالعہ کا موقع فراہم کردیتے تھے۔ ان دنوں جمعیت علمائے ہند کے بارے میں حضرت مولانا سید محمد میاں کا رسالہ ’’جمعیت علماء کیا ہے؟‘‘ نظر سے گزرا، اس سے قبل چودھری افضل حقؒ کی ’’تاریخ احرار‘‘ دیکھ چکا تھا، اس لیے تاریخ کا تھوڑا بہت ذوق رکھتا تھا۔ اس کے بعد ’’علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے‘‘ اور ’’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور ذہن و فکر کے دائرے متعین ہوتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار و تعلیمات کا ایک نقشہ مولانا سید محمد میاں کے قلم سے ’’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ میں نظر سے گزرا تو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے بارے میں وہ باتیں بھی کچھ نہ کچھ سمجھ میں آنے لگیں جو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی سے عام طور پر سنا کرتا تھا۔ چچا محترم اپنے بیانات، اسباق اور مواعظ میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کا تذکرہ جس ذوق و محبت سے کرتے تھے، اس کے نقوش ذہن میں راسخ ہوتے چلے گئے اور ان بزرگوں تک فکری رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ میرے پاس حضرت مولانا سید محمد میاں کی کتابیں اور مضامین ہوتے تھے۔
میں طالب علمی کے دور میں ہی جمعیت علمائے اسلام پاکستان سے وابستہ ہوگیا تھا اور اس کی سرگرمیوں میں کسی نہ کسی سطح پر شریک رہنا میرے معمولات کا حصہ تھا۔ اسی دور میں جامعہ مدنیہ لاہور کے بانی اور حضرت مولانا سیدمحمد میاں کے فرزند حضرت مولانا سیدحامد میاں کی خدمت میں حاضری کے مواقع میسر آنے لگے اور ان سے نیازمندی کا تعلق استوار ہوگیا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ حضرت مولانا سیدمحمد میاں لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں، بے حد خوشی ہوئی اور ایک روز ان کی ملاقات و زیارت کے لیے جامعہ مدنیہ لاہور حاضر ہوگیا۔ حضرت مولانا سیدحامد میاں گھر پر نہیں تھے، ایک سادہ سے بزرگ نے دروازہ کھولا تو میں نے عرض کیا کہ گوجرانوالہ سے حضرت کی زیارت و ملاقات کے لیے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت تو کسی کام کے لیے گئے ہوئے ہیں، تھوڑی دیر میں آئیں گے، آپ اندر آئیں اور بیٹھ جائیں۔ میں سمجھا کہ خاندان کے کوئی بزرگ ہیں اور مہمانوں و غیرہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ میں کمرے میں بیٹھ گیا، تھوڑی دیر بعد وہ بزرگ دسترخوان اور پانی کا لوٹا لیے تشریف لائے اور فرمایا کہ کھانے کا وقت ہے، آپ دور سے آئے ہیں، کھانا کھا لیں۔ میں بیٹھ گیا، انہوں نے ہاتھ دھلوانے کے لیے لوٹا پکڑا ہوا تھا، میں نے لوٹا ان کے ہاتھ سے لینا چاہا اور عرض کیا کہ آپ بزرگ ہیں، میں ہاتھ خود ہی دھولوں گا۔ فرمایا نہیں، آپ ہمارے مہمان ہیں، اس لیے میں ہی ہاتھ دھلواؤں گا۔ میں نے ہاتھ دھوئے اور کھانا شروع کردیا، ابھی فارغ ہوا ہی تھا کہ حضرت مولانا سیدحامد میاں تشریف لائے، ان سے ملا تو پوچھا کیسے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت سے ملنے آیا ہوں، پوچھا مل لیا؟ میں نے عرض کیا کہ وہ کہاں ہیں؟ کان کے قریب منہ لا کر آہستہ سے کہا کہ یہ آپ کے سامنے تو بیٹھے ہیں۔ اللہ اکبر، یہ کیا ہوگیا؟ میں تو شرم کے مارے پانی پانی ہوگیا، اب میرے منہ سے کوئی بات نہیں نکل رہی تھی اور حضرت مولانا سید حامد میاں مجھے دیکھ کر مسکرائے جارہے تھے۔ حضرت مولانا سید محمد میاں نے انتہائی شفقت کے ساتھ مجھے تسلی دی اور فرمایا کہ بھائی آپ مہمان ہیں، اس لیے پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔
یہ ان سے میرے پہلی ملاقات تھی، جس کے نقوش و مناظر ابھی تک ذہن میں تازہ ہیں اور کبھی کبھی ان کا تصور ذہن میں لاکر اپنے ان بزرگوں سے عالم تخیل میں ملاقات کرلیا کرتا ہوں۔ میرے ساتھ ان دونوں گوجرانوالہ کے مولانا قاری محمد یوسف عثمانی جماعتی و تحریکی کاموں میں بہت متحرک ہوا کرتے تھے، اب وہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک بار پھر جامعہ مدنیہ حاضری ہوئی اور دونوں حضرات کی زیارت و ملاقات سے شاد کام ہوئے، اس موقع پر پتا چلا کہ حضرت مولانا سید محمد میاں اپنی پوتی کے نکاح میں شرکت کے لیے آئے ہیں، جس کا نکاح ضلع گواجرانوالہ کے ایک بڑے قصبہ قلعہ دیدار سنگھ کے کسی نواحی گاؤں میں ہوا ہے اور نکاح کے دوسرے دن حضرت نے ولیمہ میں شرکت کے لیے اس گاؤں جانا ہے۔ اس زمانہ میں گوجرانوالہ کا بائی پاس روڈ نہیں بنا تھا اور قلعہ دیدار سنگھ جانے کے لیے چوک گھنٹہ گھر کے پاس سے گزر کر جانا ہوتا تھا جس سے چند قدم کے فاصلے پر جامعہ نصرۃ العلوم واقع ہے۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ اس بہانے حضرت مولانا سید محمد میاں تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، جامعہ نصرۃ العلوم میں تشریف لاسکیں گے، مگر معلوم ہوا کہ عملاً ایسا نہیں ہوسکے گا، اس لیے کہ وہ ویزے کے قوانین کے تحت ان کی نقل و حرکت متعین راستوں اور مقامات سے ہی ممکن ہوگی اور ادھر ادھر کسی جگہ وہ نہیں جاسکیں گے۔ یہ بات مجھے اور قاری محمد یوسف عثمانی کو کسی طرح ہضم نہیں ہورہی تھی کہ حضرت مولانا سید محمد میاں جامعہ نصرۃ العلوم کے قریب صرف چند قدم کے فاصلے سے گزریں گے اور ہمارے ہاں تشریف نہیں لائیں گے۔
ہم شش و پنج اور پیچ و تاب کے اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالی نے ’’کذلک کدنا لیوسف‘‘ کی طرز پر ذہن میں ایک ترکیب ڈال دی اور ہم نے پلان بنا کر حضرت مولانا سید حامد میاں کو اعتماد میں لے لیا۔ پھر ہوا یوں کہ حضرت مولانا سید محمد میاں کو لاہور سے ولیمہ کے لیے قلعہ دیدار سنگھ لے جانے کے لیے گاڑی کا بند و بست ہم نے کیا، جو جامعہ نصرۃ العلوم کے قریب سے گزرتے ہوئے اچانک ’’خراب‘‘ ہوگئی۔ ڈرائیور نے بہت کوشش کی مگر انجن کا نقص معلوم نہ ہوسکا، حضرت مولانا سید محمد میاں کو گاڑی سے باہر لاکر سڑک پر ایک کرسی پر بٹھادیا گیا تا کہ جتنی دیر گاڑی چلنے کے قابل نہیں ہوتی وہ آرام سے بیٹھے رہیں۔ نگرانی کے لیے ساتھ جانے والے پولیس آفیسر سے ہم نے کہا کہ بزرگ مہمان ہیں، اس طرح سڑک پر بٹھانا مناسب نہیں ہے، قریب ہی مدرسہ ہے، اگر اجازت ہو تو گاڑی ٹھیک ہونے تک وہاں بٹھالیا جائے۔ اس نے صورتحال دیکھتے ہوئے اجازت دے دی اور یوں ہم حضرت کو مدرسہ میں لے آئے، جہاں حضرت والد محترم مولانا محمدسرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی کے علاوہ شہر کے بزرگ علماء حضرت مولانا مفتی عبدالواحد، حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی، حضرت مولانا احمد سعید ہزاروی اور دیگر بہت سے حضرات پہلے سے موجود تھے، ان کے ساتھ تھوڑی دیر نشست رہی اور پھر گاڑی ٹھیک ہوجانے پر حضرت کو آگے روانہ کردیا گیا۔
حضرت مولانا سید محمد میاں نے ایک مؤرخ کے طور پر برصغیر میں دینی جد و جہد کی تاریخ کو جس ذوق و محنت کے ساتھ مرتب کیا ہے، وہ اہل حق پر ان کا بہت بڑا احسان ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکار و تعلیمات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کر کے انہوں نے علمائے حق کی راہنمائی کا ہمیشہ کے لیے اہتمام کردیا ہے، وہ تحریک ولی اللہی کے محسنین میں سے ہیں، اللہ تعالی ان کے درجات جنت میں بلند سے بلندتر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔