- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

توضیح القرآن۔ آسان ترجمہ قرآن، سورة الانعام (42-50)

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ ﴿٤٢﴾ فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَـٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٤٣﴾ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ ﴿٤٤﴾ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٥﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّـهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ ﴿٤٦﴾ قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّـهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ ﴿٤٧﴾ وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ۖ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٤٨﴾ وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴿٤٩﴾ قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ﴿٥٠﴾

ترجمہ:
اور ( اے پیغمبر!) تم سے پہلے ہم نے بہت سی قوموں کے پاس پیغمبر بھیجے، پھر ہم نے (ان کی نافرمانی کی بناپر) انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں گرفتار کیا، تا کہ وہ عجز و نیاز کا شیوہ اپنائیں۔ (۴۲)
پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان کے پاس ہماری طرف سے سختی آئی تھی، اس وقت وہ عاجزی کا رویہ اختیار کرتے؟ بلکہ ان کے دل تو اور سخت ہوگئے، اور جو کچھ وہ کررہے تھے، شیطان نے انہیں یہ سجھایا کہ وہی بڑے شاندار کام ہیں(۴۳)
پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہم نعمت کے دروازے کھول دیئے[۱]، یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کررہ گئے۔(۴۴)
اس طرح جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی، اور تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔(۴۵)
(اے پیغمبر! ان سے) کہو: ’’ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سننے کی طاقت اور تمہاری آنکھیں تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں ہر مہر لگادے، تو اللہ کے سوا کو نسا معبود ہے جو یہ چیزیں تمہیں لا کر دیدے؟‘‘ یہ دیکھو، ہم کیسے کیسے مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں، پھر بھی یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں۔(۴۶)
کہو: ’’ذرا یہ بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تمہارے پاس اچانک آئے یا اعلان کر کے ، دونوں صورتوں میں کیا ظالموں کے سوا کسی اور کو ہلاک کیا جائے گا؟‘‘[۲] (۴۷)
ہم پیغمبروں کو اسی لئے تو بھیجتے ہیں کہ وہ (نیکیوں پر) خوشخبری سنائیں، (اور نافرمانی پر اللہ کے عذاب سے) ڈرائیں۔ چنانچہ جو لوگ ایمان لے آئے اور اپنی اصلاح کرلی، ان کو نہ کوئی خوف ہوگا، اور نہ وہ غمگین ہوں گے(۴۸)
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ان کو عذاب پہنچ کر رہے گا، کیونکہ وہ نافرمانی کے عادی تھے۔(۴۹)
(اے پیغمبر !) ان سے کہو: ’’میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب کا (پورا) علم رکھتا ہوں، اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں[۳]۔ میں تو صرف اُس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘ کہو کہ: ’’کیا ایک اندھا اور دوسرا بینائی رکھنے والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ پھر کیا تم غور نہیں کرتے؟‘‘(۵۰)

حواشی:
۱) اللہ تعالی نے پچھلی امتوں کے ساتھ یہ معاملہ فرمایا ہے کہ انہیں متنبہ کرنے کے لیے انہیں کچھ سختیوں میں بھی مبتلا فرمایا، تا کہ وہ لوگ جن کے دل سختی کی حالت میں نرم پڑتے ہیں، سوچنے سمجھنے کی طرف مائل ہوسکیں، پھر ان کو خوب خوشحالی عطا فرمائی تا کہ جو لوگ خوشحالی میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، وہ کچھ سبق لے سکیں۔ جب دونوں حالتوں میں لوگ گمراہی پر قائم رہے، تب ان پر عذاب نازل کیا گیا۔ یہی بات قرآنِ کریم نے سورہ اعراف (۷:۹۴۔۹۵) میں بھی بیان فرمائی ہے۔
۲) کفارِ مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی کہتے تھے کہ اللہ کے جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں، تو وہ عذاب ابھی کیوں نہیں آجاتا؟ شاید وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر عذاب آیا تو مؤمن کافر سبھی ہلاک ہوجائیں گے۔ اس کے جواب میں فرمایا جارہا ہے کہ ہلاک تو وہ ہوں جنہوں نے شرک اور ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔
۳) یہ ان مطالبات کا جواب ہے جو کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے کہ اگر تم پیغمبر ہو تو دولت کے خزانے تمہارے پاس ہونے چاہئیں، لہذا فلاں فلاں معجزات دِکھاؤ۔ جواب میں فرمایا گیا ہے کہ پیغمبر ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدائی کے اختیارات مجھے حاصل ہوگئے ہیں، یا مجھے مکمل علم غیب حاصل ہے یا میں فرشتہ ہوں۔ پیغمبر ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ مجھ پر اللہ تعالی کی طرف سے وحی آتی ہے اور میں اسی کا اتباع کرتا ہوں۔

مفتی محمد تقی عثمانی
اشاعت: ماہنامہ البلاغ۔ جنوری ۲۰۱۹ء