- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ازواج مطہرات میں سے ہیں، یہ بڑی سمجھدار اور عقلمند تھیں، اور اللہ تعالی نے حسن کی دولت سے بھی نواز رکھا تھا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز میرے شوہر حضرت ابوسلمہ گھر میں تشریف لائے اور بڑی خوشی کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں نے آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث سنی ہے کہ اس سے پہلی کبھی نہیں سنی اور اس کی وجہ سے مجھے بہت خوشی ہوئی اور وہ یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کوکوئی تکلیف پہونچے اور وہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھے اور پھر یہ دعاء پڑھے: اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیراً منھا۔ (اے اللہ اس مصیبت سے مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما۔) جب بندہ یہ دعا پڑھ لیتا ہے تو اللہ تعالی اس کو اجر اور بدلہ ضرور عطا فرماتے ہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے یہ دعا یاد کرلی۔ جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو میں نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر یہ دعا مانگی۔ دعا تو میں نے پڑھ لی، لیکن میرے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ میرے شوہر ابوسلمہ سے بہتر کون مل سکتا ہے؟ ابوسلمہ تو بہت بہترین شخص تھے، اللہ کی قدرت جب میری عدت پوری ہوگئی تو ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اپنا نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے نکاح فرمائیں تو یہ میرے لئے بہت ہی خوشی کی بات ہوگی اور ایسا بھی نہیں ہے کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کرنے کی خواہش نہ ہو؛ لیکن میرے اندر تین باتیں پائی جاتی ہیں: ایک تو یہ کہ میں بہت غیرت مند عورت ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کے خلاف مجھ سے کوئی بات ظاہر ہوجائے اور اس کی وجہ سے اللہ کے یہاں مجھے عذاب ہو۔ دوسری یہ کہ میری عمر زیادہ ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ میں بال بچے والی عورت ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی تمہاری بے جا غیرت کو دور فرما دے۔ عمر اگر تمہاری زیادہ ہے تو میں بھی چھوٹی عمر کا نہیں ہوں، میری عمر تم سے زیادہ ہے اور رہا اولاد کا مسئلہ تو تمہاری اولاد میری اولاد ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: میں نے پیغام نکاح کو قبول فرما لیا اور میرا نکاح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیا اور مجھے اللہ تعالی نے اس دعا کی برکت سے میرے شوہر سے بہتر شوہر یعنی کائنات کا سردار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمادیا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر رشک کرنا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہؓ سے نکاح فرمایا تو مجھے بہت رنج ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ ان کی طرف مجھ سے زیادہ ہوجائے، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خوبصورتی میں بہت مشہور تھیں۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو واقعتا جتنی شہرت تھی اس سے زیادی حسین معلوم ہوئیں۔ میں نے اس کا تذکرہ حضرت حفصہؓ سے کیا۔ تو انہوں نے کہا کہ: نہیں، اتنی حسین نہیں ہیں جتنی اس کی شہرت ہے۔ ان کے کہنے کی وجہ سے ان کا حسن میری آنکھوں سے گر گیا اور پھر جو دیکھا تو حفصہؓ کی بات ہی ٹھیک معلوم ہوئی۔
حضرت عائشہؓ کا مطلب یہ تھا کہ حضرت ام سلمہؓ حسین تو بہر حال تھیں، ہمارے نہ ماننے کی وجہ سے ت وان کے حسن میں کمی نہ آئی۔ البتہ سوکنوں والی پرخاش (ان بن) نے حضرت ام سلمہؓ کے حسن کو حفصہؓ کے کہنے کی وجہ سے میری آنکھوں سے گرادیا۔ یہ اعتراض نہ کریں کہ عائشہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہو کر کیوں جلی اور ان کو حسد کیوں ہوا؟ بات یہ ہے کہ عورت عورت ہی ہوتی ہے چاہے جتنے بھی اونچے مقام پر پہونچ جائے اور ایسی باتیں بشریت کے تقاضے سے دل میں آجایا ہی کرتی ہیں۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی عقلمندی کا ایک واقعہ
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بڑی سمجھدار اور عقلمند تھیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی الجھن پیش آئی تھی، جسے ام سلمہؓ نے سلجھایا۔ سنہ ۶ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوئے۔ مشرکین مکہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے مزاحمت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام حدیبیہ پر رکنا پڑا۔ جانثار صحابہ رضی اللہ عنہم چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے، اس لئے اس موقع پر بھی جنگ کے لئے آمادہ ہوگئے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائی کے بجائے صلح کرنا پسند کیا اور اس قدر عایت کے ساتھ صلح کرنا منظور کیا کہ مشرکین مکہ کی ہر شرط قبول فرمائی۔ جس میں بظاہر مشرکین کا نفع اور مسلمانوں کا صریح نقصان تھا، جب صلح نامہ مرتب ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ: اب عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ تو جانا نہیں ہے، لہذا اب تو واپسی ہی ہے؛ کیونکہ صلح کے شرائط میں یہ بھی منظور کرلیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ اس سال نہیں کریں گے، آئندہ سال عمرہ کے لئے تشریف لائیں گے۔ لہذا اٹھو، اپنا اپنا احرام کھول دو، قربانی کے جانور ذبح کردو، پھر سر منڈوالو۔ چونکہ صحابہ کرامؓ کو احرام کھولنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا اور مدینہ سے عمرہ ہی کے لئے آئے تھے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر کوئی بھی نہیں اٹھا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ حکم دیا، جب کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل نہیں کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہؓ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا کہ: لوگ کہنا نہیں مان رہے ہیں۔ حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا کہ: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ سب احرام کھول دیں؟ اگر واقعتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش ہے تو اس کی ترکیب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل کر کسی سے نہ بولیں اور اپنے جانور کو ذبح فرمادیں اور بال مونڈنے والے کو بلا کر اپنے بال مونڈ والیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہؓ کی رائے کے مطابق احرام کھول دیا۔ جب صحابۂ کرامؓ نے یہ ماجرا دیکھا تو سب کے سب احرام کھولنے پر راضی ہوگئے اور اپنے اپنے جانور ذبح کر ڈالے اور آپس میں ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے اور سب نے احرام کھول دیا۔
حضرت ام سلمہؓ کی اس رائے کے متعلق جس سے یہ مشکل مسئلہ حل ہوا۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ: حضرت ام سلمہؓ کے رائے دینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بڑی عقلمند اور ٹھیک رائے رکھنے والی تھیں۔
اللہ تعالی ہمیں بھی عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین