- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ

حمد و ستائش اس ذات کے لیے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبر پر جنھوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا
اس رمضان المبارک سے کچھ پہلے قافلۂ دارالعلوم دیوبند کے ایک عظیم رکن حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمہ اللہ کے حادثۂ وفات کی خبر نے اہلِ علم و دین کی صفوں میں رنج و غم کی لہر دوڑادی، اناللہ و انا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا رحمہ اللہ سے مجھ ناکارہ کو شرفِ ملاقات تو دو تین بار سے زیادہ حاصل نہیں ہوا؛ لیکن ان کی تحریروں، ان کے ترانۂ دارالعلوم اور ان کی دوسری خدمات کی بنا پر وہ دل سے ہمیشہ قریب رہے، جس سال انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہو کر تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا یعنی ۱۹۵۱ء، اسی سال میں نے اور میرے بڑے بھائی حضرت مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب نے دارالعلوم کراچی میں تعلیم شروع کی اور جس سال یعنی ۱۹۵۸ء میں وہ دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے، اس سے اگلے سال ہم نے دارالعلوم کراچی میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی، وہ حضرت مولانا فخرالدین صاحب رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے خصوصی شاگردوں میں سے تھے، انھوں نے ہی موصوف کے درسی افادات کو قلم بند کیا تھا اور ’’ایضاح البخاری‘‘ کے نام سے ان کو ترتیب دے رہے تھے، جس کی دس جلدیں شائع ہو کر مقبول ہوچکی ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کا ماہانہ رسالہ ’’دارالعلوم‘‘ بھی ایک عرصے تک آپ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا اور ۱۹۷۲ء سے آخری لمحات تک وہ دارالعلوم دیوبند کے قابل اور مقبول اساتذہ کرام میں شمار ہوتے تھے، جہاں آپ نے ابتدائی درجات سے لے کر تخصصات تک کی کتابیں کامیابی کے ساتھ پڑھائیں اور چند سال سے جامع ترمذی جلد اول شروع سے کتاب النکاح تک آپ ہی کے زیر تدریس تھی اور امسال بھی انھوں نے ترمذی شریف مذکورہ مقام تک پڑھائی۔
اللہ تبارک و تعالی نے انھیں علمی و ادبی ذوق کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا، ان کی اسی خصوصیت کی بنا پر انھیں ’’شیخ الہند اکیڈمی‘‘ کے نگراں کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور ان کے ادبی مقام کا شاہد صدق ان کا وہ ترانۂ دارالعلوم ہے جو انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے اجلاس صدسالہ سے پہلے کہا تھا، اجلاسِ صد سالہ پڑھے جانے کے بعد اس کے دلکش، پُر جوش اور دل سے نکلے ہوئے اشعار کی گونج پورے برصغیر میں پھیل گئی اور اب دینی مدارس کے جلسوں میں عموماً یہ ترانہ بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے اور اس مضمون کے آخر میں، میں اسے مکمل نقل کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔
میں ایک مرتبہ اپنے شیخ ثانی حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب قدس سرہ کی صحبت میں چند روز گزارنے کے لیے ہندوستان گیا تھا، اس موقع پر چند روز دیوبند میں بھی گزارنے کی نوبت آئی، اس موقع پر حضرت مولانا بجنوری رحمہ اللہ نے غایب محبت و شفقت سے بندہ کے اعزاز میں ’’شیخ الہند اکیڈمی‘‘ کی طرف سے ایک تقریب منعقد فرمائی جس میں علماء کرام کو بہ طور خاص مدعو کیا گیا تھا، اس موقع پر انھوں نے مجھ ناکارہ کی جس طرح ہمت افزائی فرمائی، وہ بندہ کے استحقاق سے بہت زیادہ تھی۔
ان کی طبیعت میں سادگی، تواضع اور بے تکلفی ایسے اوصاف تھے کہ بندہ کو ان سے خاص مناسبت معلوم ہوتی تھی۔
اب آخری بار جب دارالعلوم دیوبند میں میری مختصر حاضری ہوئی اور اہل دارالعلوم نے ’’جامع رشید‘‘ میں مجھ سے خطاب کی فرمائش کی، تو اس موقع پر تعارفی کلمات بھی حضرت مولانا ریاست علی صاحب رحمہ اللہ نے فرمائے اور ان کا یہ جملہ، جو ان کی انتہائی تواضع اور خوردنوازی کا مظہر ہے اور بندہ کے لیے ایک فال نیک، مجھے بھولتا نہیں ہے، انھوں نے فرمایا تھا: ’’جب دارالعلوم میں کوئی مہمان آتا ہے تو ہم اس کے سامنے دارالعلوم دیوبند کا تعارف پیش کرتے ہیں؛ لیکن آج ہمارے یہاں ایک ایسے مہمان آئے ہیں جن سے ہمیں پوچھنا ہے دارالعلوم دیوبند کیا ہے‘‘؟
بات تو میری حیثیت سے بہت اونچی تھی؛ لیکن ایک فال نیک کے طور پر بندہ کے ذہن میں محفوظ ہوگئی۔
مولانا رحمہ اللہ (۱) کی پیدائش ۹؍مارچ ۱۹۴۰ء کو ہوئی تھی اور ۱۹ و ۲۰؍ مئی ۲۰۱۷ء (۲۲، ۲۳ شعبان ۱۴۳۸ھ) کی درمیانی رات میں بہ عمر ۷۷ سال وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ اناللہ و اناالیہ راجعون، اللھم اکرم نزلہ و وسع مدخلہ و ابدلہ دارا خیرا من دارہ و أھلاً خیراً من أھلہ و نقّھہ من الخطایا کما یُنقّی الثوب الأبیض من الدنس۔
اللہ تعالی ان کو درجات عالیہ سے سرفراز فرما کر ان کے صاحبزادگان مولانا محمدسفیان، مولانا محمد عدنان اور مولانا محمد سعدان صاحب کو ان کا خلف صدق بنا کر ان کے مآثر کو زندہ رکھنے اور ان کے کام کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائیں! آمین !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) حضرت مولانا رحمہ اللہ کے بارے میں ان معلومات کے لیے بندہ حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب غزنوی زیدت مکارمہم، استاذِ حدیث جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن و خطیب جامع مسجد طوبی کا ممنون ہے جو حضرتؒ کے خصوصی شاگرد ہیں اور اپنے اساتذہ کی روایات کے امین ہیں، موصوف دارالعلوم دیوبند میں کئی سال تک استاذ رہے اور طالب علمی سے ہی وہاں کی مسجد قدیم کے امام بھی۔