- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

پانچ چیزوں میں جلدی کرنے کا حکم

دینِ اسلام کا عمومی مزاج یہی ہے کہ جلدبازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے اور بردباری اللہ کی طرف سے۔ مگر پانچ باتوں میں جلدی کرنے کی تعلیم دی۔
’’ كَانَ يُقَالُ الْعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ إِلا فِي خَمْسٍ : إِطْعَامُ الطَّعَامِ إِذَا حَضَرَ الضَّيْفُ ، وَتَجْهِيزُ الْمَيِّتِ إِذَا مَاتَ , وَتَزْوِيجُ الْبِكْرِ إِذَا أَدْرَكَتْ , وَقَضَاءُ الدَّيْنِ إِذَا وَجَبَ , وَالتَّوْبَةُ مِنَ الذَّنْبِ إِذَا أَذْنَبَ ‘‘ (حلیۃ الأولیاء و طبقات الأصفیاء (۸؍۷۸)
پہلی چیز: مہمان کو کھانا کھلانے میں جلدی کرنا
پہلی چیز جس میں شریعت نے جلدی کرنے کا فرمایا وہ یہ ہے:
’’ إِطْعَامُ الطَّعَامِ إِذَا حَضَرَ الضَّيْفُ”
ترجمہ: جب مہمان آئیں تو ان کے سامنے کھانا پیش کرنے میں جلدی کیا کرو۔
آج کل تو ایک رواج ہی بن چکا ہے کہ کھانے مین خوب تاخیر کی جاتی ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی کھانا اُس وقت پیش کیا جاتا ہے کہ جب مہمان انتظار کر کر کے تھک چکا ہوتا ہے۔ یہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔

دوسری چیز: مُردے کو دفنانے میں جلدی کرنا
دوسری چیز جس میں شریعت نے جلدی کرنے کا فرمایا وہ یہ ہے:
’’ وَتَجْهِيزُ الْمَيِّتِ إِذَا مَاتَ ‘‘
ترجمہ: جب فوتگی ہوجائے تو مردے کو دفنانے میں جلدی کر لیا کرو۔
آج کل تو کئی کئی دن مردے کو رکھتے ہیں کہ فلاں رشتہ دار فلاں ملک سے آرہا ہے۔ شریعت نے اس تاخیر کو پسند نہیں کیا۔

تیسری چیز: قرض کی ادائیگی میں جلدی کرنا
تیسری چیز جس میں شریعت نے جلدی کرنے کا فرمایا ہے وہ یہ ہے:
“وَقَضَاءُ الدَّيْنِ إِذَا وَجَبَ ‘‘
ترجمہ: کہ اگر کسی سے قرض لیا ہے تو قرض کی ادائیگی میں جلدی کرلیا کرو۔ یعنی قرض کی ادائیگی کا وقت بھی آگیا ہو اور مال پیسہ بھی ہو تو پھر تاخیر نہیں کرنی چاہیئے۔

چوتھی: چیز: گناہ ہوجانے کے بعد توبہ میں جلدی کرنا
چوتھی چیز جس میں شریعت نے جلدی کرنے کا فرمایا، وہ ہے:
“وَالتَّوْبَةُ مِنَ الذَّنْبِ إِذَا أَذْنَبَ ‘‘
ترجمہ: گناہ سرزد ہوجانے کے بعد توبہ کرنے میں جلدی کرنا۔
توبہ دو چیزوں کا نام ہے، پہلی یہ ہے کہ انسان کو ندامت ہو کہ میں نے یہ غلطی، یہ گناہ کیوں کیا؟ اور دوسری یہ ہے کہ انسان یہ عہد کرے کہ اب یہ نہیں کرونگا۔ جب یہ دو چیزیں جمع ہوجائیں تو اس کو توبہ کہتے ہیں اور توبہ اللہ تعالی کو پسند ہے۔
قرآن پاک میں فرمایا:
’’ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ‘‘ (البقرۃ: ۲۲۲)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نماز پڑھنے والوں سے محبت ہوتی، پورا سال روزہ رکھنے والوں سے محبت ہوتی، دین پر خوب خرچ کرنے والوں سے محبت ہوتی، فرمایا نہیں توبہ کرنے والوں سے محبت ہے یعنی اس شخص سے جو گناہ کرتا ہے پھر گناہ کرنے کے بعد اس کو ندامت ہوئی اس نے توبہ کی اللہ تعالی سے آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کیا اللہ تعالی اس سے محبت کرتے ہیں۔ کوئی بھی انسان ایسا نہیں جو گناہ کرتا ہی نہ ہو ہر ایک گناہ گار ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ کُلُّ بَنی آدَم خطّاء و خیر الخطّائین التوابون ۔‘‘(سنن الترمذی: ۴؍۶۵۹، رقم: ۲۴۹۹)
ترجمہ: جتنی بھی آدم کی اولاد ہے وہ سب کی سب خطاکار ہے اور خطاکاروں میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔
اس لئے جیسے ہی گناہ ہوجائے بندہ توبہ کرلے اور اس میں دیر نہ کرے۔

اللہ تعالی قارون کی توبہ بھی قبول کرلیتے
حدیث پاک میں آتا ہے:
’’منہ أن قارون قال لامرأۃ ذات جمال و حسب ھل لک أن أشرکک فی أھلی و مالی اذا جئت فی ملأ بنی اسرائیل تقولین ان موسی أرادنی علی نفسی فلما وقفت۔۔۔‘‘ (فتح الباری لابن حجر [۶؍۴۴۸])
حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں قارون تھا جو اُس زمانے کا سب سے مالدار آدمی تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو زکوۃ دینے کا فرمایا تو قارون پر یہ سخت گراں گزرا کہ اس کی تو بہت ساری زکوۃ بنتی تھی۔ وہ مالدار تو بہت تھا مگر ساتھ کنجوس بھی بہت تھا۔ اس نے زکوۃ نہ دینے کا طریقہ یہ بنایا کہ ایک عورت کو تیار کیا کہ میں تجھے اتنا اتنا مال دونگا۔ تو بس بھری محفل میں جا کر یہ کہہ دینا کہ موسی علیہ السلام کے ساتھ تیرا غلط تعلق ہے۔ عورت مال کی لالچ میں آگئی اور حامی بھرلی۔ مال کی وجہ سے ہی انسان غلطیان کرتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ حُبُّ الدُّنْیا رَأْسُ کُلِّ خَطِیئَة۔‘‘ (جامع الأحادیث للسیوطی [۴۱؍۳۲۶])
ترجمہ: دنیا کی محبت ہر غلطی کی جڑ ہے۔
اس عورت نے کچھ مال کے لئے وقت کے نبی پر غلط الزام لگانے کا ارادہ کرلیا اور ان کی مجلس میں چلی گئی۔ حضرت موسی علیہ السلام وعظ فرما رہے تھے اس عورت نے کہا میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں کیا کہنا چاہتی ہو؟ وہ کھڑی تو ہوگئی لیکن جب اس کی نظر حضرت موسی علیہ السلام پر پڑی اور نورِ نبوت کا مشاہدہ کیا تو اس کی دل پلٹ گیا اور خوف آگیا۔ کچھ نہ کہہ سکی تو حضرت موسی علیہ السلام نے پھر پوچھا کہ کیا کہنا چاہتی ہو؟ اس عورت نے سب کچھ سچ سچ بتادیا کہ قارون نے مجھے کہا تھا کہ میں آپ پر غلط الزام لگاؤں تا کہ لوگ آپ کی نبوت ماننے سے انکار کردیں۔ حضرت موسی علیہ السلام نے جب یہ سنا کہ یہ قارون کے کہنے پر مجھ پر غلط الزام لگانے آئی تھی تو سخت جلال میں آگئے۔ ساتھ ہی دل میں سوچا کہ اللہ نے خود ہی اس عورت کے دل میں ڈال دیا کہ یہ غلط الزام نہ لگائے تو دل میں اللہ کی محبت نے جوش مارا اور سجدے میں چلے گئے۔ اللہ کی خوب تعریف بیان کی اور کافی دیر تک سجدے میں رہے حتی کہ اللہ تعالی نے فرمادیا کہ اے میرے پیارے موسی! ہم نے زمین کو حکم دے دیا ہے کہ آپ کی اطاعت کرے، آپ جو بھی کہیں گے وہ کرے گی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے سر اٹھایا اور زمین کو حکم دیا کہ اے زمین اس قاروں کو پکڑ لے تو زمین نے قارون کے پیر پکڑلئے۔ قارون کو اندازہ ہوگیا کہ میں نے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ جو معاملہ کیا یہ اس کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس نے فوراً حضرت موسی علیہ السلام سے معافی مانگنی شروع کردی کہ اے پیارے موسی مجھے معاف کردیجئے۔ حضرت موسی علیہ السلام جلال میں تھے آپ نے زمین کو حکم دیا کہ اس کو اور پکڑو۔ زمین نے اور پکڑا حتی کہ زمین اس کو نگل گئی۔ وہ معافیاں مانگتا اور چیختا رہ گیا۔ اللہ تعالی نے وحی بھیجی کہ اے میرے پیارے موسی! تو کتنے مضبوط دل کا ہے۔ یہ اتنی معافیاں مانگتا رہ گیا مگر تو نے اسے معاف نہ کیا۔ یہ ایسی ایک معافی ہم سے مانگ لیتا تو ہم اس کے سارے گناہوں کو معاف کردیتے۔ اللہ تعالی تو معافی کو پسند فرماتے ہیں۔ اس لئے مومن کو چاہئے کہ خوب توبہ کرے اور گناہ ہوجانے کے بعد توبہ میں تاخیر نہ کرے۔

پانچویں چیز: نکاح میں جلدی کرنا
پانچویں چیز جس میں شریعت نے جلدی کرنے کا فرمایا ہے وہ یہ ہے:
’’ وَتَزْوِيجُ الْبِكْرِ إِذَا أَدْرَكَتْ ‘‘
ترجمہ: اگر گھر میں جوان بچی موجود ہے اور اس کے لئے مناسب رشتہ بھی موجود ہو تو اس کے نکاح میں جلدی کرو اور اسے مؤخر نہیں کرو۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکماً فرمایا:
’’ يا علي! ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا أتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤا ‘‘(السنن الکبری للبیھقی۷؍۲۱۴، رقم: ۱۳۷۵۵)
ترجمہ: اے علی! تین کاموں میں تاخیر نہ کریں۔ ایک نماز جب اس کا وقت آجائے۔ دوسرا جنازہ جب کہ وہ تیار ہوجائے، تیسرا بن بیاہی عورت کا رشتہ جب کہ اس کا مناسب رشتہ مل جائے۔
جس طرح نماز کا وقت پر پڑھنا اور جب جنازہ تیار ہوجائے تو جلدی کرنا عبادت کا درجہ رکھتا ہے، اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح جلدی کرنا بھی عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ بلکہ اگر تاخیر کی گئی تو جوان بچہ یا بچی کا زنا میں ملوث ہونے کا امکان ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ۔‘‘ (سنن الترمذی، باب ما جاء اذا جاء کم من ترضون دینہ فزوجوہ، رقم: ۱۰۸۴)
ترجمہ: جب تمہارے پاس وہ شخص رشتہ بھیجے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو تم اس کے ساتھ لڑکی کا نکاح کردو، اگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیلے گا۔
ایسی کسی بھی صورتحال سے بچنے کے لئے شریعت نے حکم دیا کہ نکاح میں جلدی کی جائے۔