- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

جزا و عذاب قبر کی قرآنی بنیادیں

موجودہ دور میں انکار و تخفیف سنت مختلف پیراؤں میں جلوہ گر ہوتی ہے جس کی ایک شکل یہ اصول اختیار کرنا ہے حدیث و سنت کی بنیاد پر کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا۔
چند روز قبل راقم کو اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب ہمارے ایک عزیز نے دوران گفتگو یہ سوال کردیا کہ جناب، یہ عذاب قبر کا جو تصور ہمارے ہاں رائج ہے، اس کی شرعی بنیاد کیا ہے؟ سوال فی البدیہہ تھا، لہذا راقم نے چند احادیث کا حوالہ پیش کردیا، لیکن چونکہ آج کل تخفیف حدیث کی وبا عام ہے، لہذا جھٹ سے کہنے لگے کہ ’قرآن میں کہاں ہے؟ جب ان صاحب کے استدلال کا تجزیہ کیا تو ان کی بنیادیں درج ذیل نظری مقدمات پر قائم تھیں:
* اس قسم کا کوئی تصور واضح طور پر قرآن مجید میں موجود نہیں۔
* قرآن کے مطابق جزا و سزا کا فیصلہ روز آخرت میں ہوگا، لہذا حساب و کتاب سے قبل قبر میں عذاب دینا نہ صرف یہ کہ خلاف عقل و عدل ہے بلکہ یہ ’پنجاب پولیس‘ سے متاثرہ شدہ تصور ہے جو عدالت کے فیصلے سے قبل ہی ملزم کو زد و کوب کرنے لگتی ہے۔
زیر بحث موضوع پر جب گفتگو کا دائرہ وسیع ہوا تو یہ بات واضح ہوئی کہ اس موضوع پر کوئی رائے قائم کرنے کے لیے تین سوالوں پر غور کرنا ضروری ہے:
۱) اللہ تعالی کے وضع کردہ جزا و سزا کے اصول کا دائرہ کار کیا ہے؟ کیا اس کا اطلاق صرف آخرت کے ساتھ مخصوص ہے؟
۲) کیا از روئے قرآن اس زندگی کی موت اور یوم آخرت کے درمیان (یعنی برزخ میں) کسی شعوری زندگی کا تصور موجود ہے؟
۳) کیا قرآن اس برزخ کی زندگی میں کسی قسم کی جزا و سزا کا تصور پیش کرتا ہے؟
اگر ان تینوں سوالات کا جواب اثبات میں ہو تو وہ تمام احادیث جن میں عذاب قبر کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، انہیں ماننے میں کوئی مانع (سوائے ہٹ دھرمی کے) باقی نہیں رہ جاتا۔ اہمیت موضوع کے سبب (کہ یہ معاملات ایمان میں سے ہے)، ذیل میں ان تینوں سوالات پر ہونے والی گفتگو کا خلاصہ قارئین کے پیش نظر ہے۔
۱) قرآن کے قانون جزا و سزا کا اطلاق
قرآن مجید کا محض سرسری مطالعہ ہی یہ بات واضح کردیتا ہے کہ اللہ تعالی کا وضع کردہ تصور جزا و سزا آخرت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس کا اطلاق عالم برزخ تو کیا اس دنیا میں بھی جاری و ساری ہے۔ چنانچہ قرآن اپنے قاری کے سامنے یہ تصور بارہا اجاگر کرتا ہے کہ اس دنیا میں آنے والی تمام تکالیف و مصیبتیں یا تو بطور آزمائش ہوتی ہیں اور یا پھر انسان کے اپنے کرتوتوں کا ثمر۔ اس مقدمے پر درج ذیل قرآنی آیت بطور مثال پیش کی جاسکتی ہے:
“وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ” (الشوریٰ: ۳۰)
’’جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب ہی پہنچتی ہے، جبکہ وہ (کریم رب) تمہارے بہت سے کرتوتوں سے درگزر فرمادیتا ہے‘‘۔
گویا اللہ تعالی اس دنیا میں انسانوں کو ان کی بد اعمالیوں کی سزا مصیبتوں کی صورت میں بھی چکھا دیتا ہے جبکہ اپنے لطف و کرم کی وجہ سے اکثر گناہوں سے درگزر سے بھی کام لیتا ہے۔
یہودیوں کے بارے میں قرآن یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان پر لعنت فرمائی، دنیا کی زندگی میں ان کے لیے ذلت مسلط کردی، ان کے دلوں کو سخت کردیا و غیرہ۔ ( یہ تمام تفصیلات سورۃ بقرۃ، آل عمران، نساء و مائدۃ میں تفصیل کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہیں)۔ ان تمام سزاؤں کی واحد وجہ قرآن نے ان بداعمالیوں کو قرار دیا ، یعنی:
“ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ” (البقرۃ: ۶۱)
’’یہ سب کچھ اس وجہ سے تھا کہ وہ نافرمان تھے اور (اللہ کی مقرر کردہ) حدوں سے تجاوز کیا کرتے تھے‘‘۔
یہود و نصاریٰ کی اس غلط فہمی کو کہ ’چونکہ وہ اللہ کی چہیتی مخلوق ہیں لہذا سزا سے بری ہیں‘ قرآن یوں رد فرماتا ہے:
“وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ ” (المائدۃ: ۱۸)
’’یہود اور نصاری نے کہا ہم اللہ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں، آپ فرمادیجئے: (اگر تمہارے بات سچ ہے) تو وہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟‘‘
یہ آیت واضح طور پر دنیا میں عذاب بسبب گناہ کا اثبات کررہی ہے۔ نیز قرآن میں بے شمار اقوام (مثلاً عاد، ثمود و غیرہم) پر ان کے گناہوں کے سبب دنیا میں ہی سزا کا کورا برسنے کا ذکر موجود ہے۔
قرآن یہ حقیقت بھی عیاں کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی نیز حق کے انکار کی سزا سلب توفیق اور دلوں پر زنگ لگ جانے کی صورت میں ملتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
“إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ* خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ” (البقرۃ: 7،۶)
’’بے شک جنہوں نے کفر (کی روش کو) اپنا لیا ہے ان کے لیے برابر ہے کہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (وہ اس لیے کہ) اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے‘‘۔
دلوں کا یوں زنگ آلود ہوجانا کہ حق اس پر اثر ہی نہ کرسکے بلاوجہ ہی نہیں بلکہ بداعمالیوں کے سبب ہوا کرتا ہے:
“بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ” (المطففین: ۱۴)
’’بات اصل میں یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان اعمال بدکا رنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کیا کرتے تھے‘‘۔
حق سے اغماض کی سزا درج ذیل صورتوں میں بھی نکلتی ہے:
“وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا” (طہ: ۱۲۴)
’’جس نے میرے ذکر سے منہ موڑا تو اس کے لیے دنیاوی معاش قلیل (scarce) کردیا جاتا ہے‘‘۔
“وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ” (الزخرف: ۳۶)
’’جو شخص رحمان کے ذکر سے صرف نظر کرلے تو ہم اس کے لیے ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے‘‘
قرآن مجید بداعمالیوں کے نتیجے میں یک طرفہ طور پر صرف سزا ہی نہیں بلکہ اس دنیا میں نیک اعمال کی مثبت جزا کا تصور بھی پیش کرتا ہے۔ مثلاً خوف و حزن کی کیفیت سے نجات یوم آخرت کی عظیم ترین احسانوں میں سے ایک ہے، لیکن سنیے، قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے:
“إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ * نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ” (فصلت: ۲۰۔۲۱)
’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر ڈٹ گئے تو ان پر فرشتے اترتے ہیں (جو ان سے کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو، اور تم (اس) جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی‘‘۔
یعنی اس احسان عظیم کی کیفیات محض آخرت میں نہیں بلکہ نیک ارواح اس دنیا میں بھی محسوس کرتے ہیں۔ راہ راست اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ کیسے خفیہ انتظامات کرتا ہے، اس آیت میں پڑھیے:
“وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا* وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ” (الطلاق: ۲،۳)
’’جو کوئی خدا خوفی (کی راہ پر چلتا) ہے تو اللہ اس کے لیے راستے کھول دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا‘‘۔
اسی طرح اللہ تعالی کا اہل ایمان سے یہ وعدہ ہے کہ اگر وہ ایمان کی راہوں پر گامزن رہیں گے تو نہ صرف یہ کہ اس دنیا میں انہیں خلافت ارضی عطا کی جائے گی (النور:۵۵) بلکہ وہی غالب بھی رہیں گے۔ (آل عمران ۱۳۹، نساء ۱۷۱)۔
یہ چند آیات بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں، ورنہ اس مقدمے (کہ جزا و سزا کا قانون اس دنیا میں بھی لاگو ہے) پر دیگر بہت سی آیات قرآن دال ہیں۔
اس موقع پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جزا و سزا کا قانون اس دنیا میں بھی لاگو ہے تو آخرت میں حساب و کتاب نیز جزا و سزا کا کیا مطلب؟ قرآن مجید نے آخرت میں ملنے والی جزا و سزا کے بارے میں یہ تصور پیش کیا ہے کہ اس دن ہر شخص کو ’پورا پورا‘ اجر مل جائے گا۔ چنانچہ اس دن کے اجر کے بارے میں سے قرآن نے لفظ ’و فی یوفی‘ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ’پورا پورا لینا یا دینا‘ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
“كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ” (آل عمران: ۱۸۵)
’’ہرجان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دیے جائیں گے‘‘
(لفظ ’انما‘ چونکہ حصر کا تقاضا کرتا ہے اسی لیے درج بالا آیت کے ترجمے میں اس کا خیال رکھا گیا ہے)۔ اسی طرح ارشاد ہوا:
“فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ” (آل عمران: ۲۵)
’’سو کیا حال ہوگا ان کا جب ہم انہیں جمع کریں گے اس دن جس (کے برپا ہونے) میں کوئی شک نہیں اور ہر شخص کو جو اس نے کمایا ہے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘۔
یہی تصور آل عمران: ۵۷ نیز نساء: ۱۷۳ میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ یعنی چونکہ اس عالم فانی میں کارفرما طبعی و اخلاقی قوانین کی محدودیت کی وجہ سے یہاں انسان کے اعمال کا پورا بدلہ دیان ممکن نہیں، لہذا اس کے لیے موت کے بعد ایک دوسری دنیا برپا کی جانے والی ہے (مثلاً جس شخص نے سو قتل کیے ہوں، اسے اس دنیا میں سو بار قتل کرنا ناممکن ہے) جہاں ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ مل سکے گا تا کہ کسی پر ظلم نہ ہوسکے۔
درج بالا بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالی مالک و مختار ہے، وہ جب اور جہاں چاہے اپنے بندے کو جزا یا سزا دے سکتا ہے۔ نیز اس کا قانون اجر آخرت کے ساتھ مخصوص نہیں۔ لہذا ہمارے ناقدین کا یہ اعتراض کہ ’عذاب قبر خلاف عدل اور پنجاب پولیس سے اخذ کردہ تصور ہے‘ اپنے آپ رد ہوجاتا ہے۔ اب آیئے دوسرے نکتے کی طرف۔

۲) عالم برزخ میں شعوری زندگی کا ثبوت
قرآن مجید میں کئی مقامات پر ایسے قطعی قرائن موجود ہیں جن سے عالم برزخ میں نہ صرف یہ کہ ’محض‘ انسانی زندگی بلکہ ’شعوری‘ زندگی کا تصور ثابت ہوتا ہے۔ عالم برزخ میں انسانی زندگی کا اشارہ اس آیت میں موجود ہے:
“كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ” (البقرۃ: ۲۸)
’’تم کیسے اللہ کا انکار (کرنے کی جسارت) کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے۔ اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں مارے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے‘‘۔
زیر مطالعہ آیت میں اس دنیاوی زندگی کی موت کے بعد جو حیات عطا ہوگی، وہ لوٹائے جانے سے قبل (یعنی عالم برزخ میں) ہوگی۔ نیز لفظ ثُمَّ کا استعمال بتارہا ہے کہ یہ ’’برزخی حیات‘‘ اور ’یوم آخرت کو اللہ کی طرف لوٹایا جانا‘ دو الگ الگ واقعے ہیں جن میں زمانی مغایرت ہے۔ عالم برزخ میں زندگی کا ثبوت آیت شہداء میں بھی موجود ہے:
“وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ ” (البقرۃ: ۱۵۴)
’’جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہا کرو، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم (ان کی زندگی کو) سمجھ نہیں سکتے‘‘۔
دوران بحث جب یہ آیت پیش کی گئی تو ہمارے عزیز نے عرض کیا کہ جناب یہاں حیات سے مراد معنوی حیات ہے، یعنی ’شہداء کی حیات کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہوتے ہیں یا یہ کہ اپنے نظریات و اعمال کی وجہ سے وہ معاشروں پر جوانمٹ اثرات چھوڑ جاتے ہیں، اسے حیات سے تعبیر کیا گیا ہے‘۔ مگر زیر مطالعہ آیت کے داخلی قرآئن کی رو سے اس میں بیان کردہ حیات کو معنوی حیات کہنا محل نظر ہے، کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ شہدا کی حیات ایسی ہے کہ ’تم اس کا شعور نہیں رکھتے‘، جبکہ اس معنوی حیات کا شعور تو ہم رکھتے ہیں! یعنی اللہ تو کہہ رہا ہے کہ ہم شہدا کو ایسی زندگی دیتے ہیں جس کا تمہیں شعور نہیں، جبکہ آیت کو معنوی حیات پر محمول کرنے سے اس زندگی کا شعور ہمیں حاصل ہوجاتا ہے تو اللہ کا یہ فرمانا کہ ’تم اس کا شعور نہیں رکھتے‘ ایک بے معنی بات بن کر رہ جاتی ہے۔
عالم برزخ میں زندگی کے وجود پر مزید شرح صدر زیربحث موضوع کے تیسرے نکتے سے بھی فراہم ہوگی۔

۳) عالم برزخ میں قانون جزا و سزا کا اطلاق
اب آئیے اصل قابل نزع موضوع کی طرف یعنی کیا قرآن عالم برزخ میں جزا و سزا کے اطلاق کا کوئی تصور پیش کرتا ہے۔ فرض کریں کہ قرآن کی کوئی ایک آیت بھی اس مقدمے پر روشنی نہیں ڈالتی، تب بھی درج بالا بحث کے بعد یہ ماننا مشکل نہیں رہتا کہ اگر اللہ تعالی اس دنیا کی زندگی میں انسانوں کو اعمال کا اجر دیتا ہے تو عالم برزخ میں ایسا کیوں نہیں کرسکتا؟ خصوصا کہ جب صحیح احادیث میں اس کا ثبوت بھی موجود ہو! اس قاعدے کے بعد اب آیئے قرآنی شواہد کی طرف۔ چنانچہ شہدا کے بارے میں ارشاد ہوا:
“وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ* فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ* يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ”( آل عمران: ۱۶۹۔۱۷۱)
’’جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں ہرگز مردہ خیال بھی مت کرنا، بلکہ وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں اور رزق پارہے ہیں۔ جو نعمتیں اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کررکھی ہیں، وہ ان پر شاداں ہیں، اور اپنے پچھلوں سے بھی جو (تاحال) ان سے نہیں مل سکے (انہیں راہ راست پر جان کر) خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی نہ خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے، وہ اللہ کی نعمت و فضل سے مسرور رہتے ہیں‘‘۔
اولاً ، اس آیت کریمہ سے نہ صرف یہ کہ عالم برزخ کی حیات بلکہ شعوری حیات کا اثبات ہوتا ہے کیونکہ یہاں ’استبشار‘ کے فاعل شہدا ہیں، یعنی جو خوش قسمت ان نعمتوں سے بہراور ہو رہے ہیں انہیں اس کا پورا شعور ہے کہ یہ نعمتیں ہمارے رب کی عنایتیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس آیت میں واضح طور پر عالم برزخ میں اجر ملنے کا تصور موجود ہے، کیونکہ یہ آیت حال کی خبر دے رہی ہے نہ کہ قیامت کے کسی واقعے کی۔
عالم برزخ میں اجر و ثواب کا اشارہ سورۃ یٰس میں بیان کردہ اس شخص کے ذخر سے بھی ملتا ہے جسے کہا گیا:
“قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ* بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ” (یس ۲۷۔۲۶)
’’اسے کہا گیا جا جنت میں داخل ہوجا، وہ بولا کاش میری قوم جان سکتی کہ میرے رب نے کس چیز کے سبب مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا‘‘۔
یہ تو ذکر ہوا عالم برزخ میں اجر و ثواب کا، اب آئیے ذکر عذاب کی طرف۔ پہلی اصولی و منطقی بات یہ کہ اگر عالم برزخ میں ثواب کا اجر ہوسکتا ہے تو عذاب ماننے میں کیا قباحت ہے؟ البتہ عذاب قوم فرعون کے بارے میں وارد ہونے والی آیت اس موضوع پر نص قطعی ہے:
“النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ” (غافر: ۴۶)
’’(دوزخ کی) آگ ہے جسے صبح و شام پر ان پیش کیا جاتا ہے، اور جب قیامت برپا ہوگی تو (حکم ہوگا) آل فرعون کو مزید سخت عذاب میں داخل کردو‘‘۔
یہاں دو قرینے لائق توجہ ہیں۔ پہلا یہ کہ یہاں یوم قیامت برپا ہونے سے ’قبل‘ آل فرعون پر عذاب کا ذکر ہے، دوسرا یہ کہ قیامت والے دن ’اشد‘ (مزید سخت) عذاب کی بات ہورہی ہے جو بذات خود ایک کمتر عذاب کا ثبوت ہے۔
الحمدللہ تینوں سوالات کا جواب آیات قرآنی سے اثبات میں ملا جس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ عذاب قبر کے ضمن میں مروی احادیث درج بالا قرآنی آیات کا بیان ہیں جنہیں رد کرنے یا مشکوک بنانے کے لیے کسی صاحب ایمان و عقل کے پاس کوئی حجت باقی نہیں رہ جاتی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں پر لگے قفل کھول ہے اور ہمیں حق سمجھنے اور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تحریر: محمد زاہد صدیق مغل
اشاعت: ماہنامہ الشریعہ جلد ۲۴۔ شمارہ ۲۔ فروری ۲۰۱۳ء