Categories: تراشے

“ٹیکسی ڈرائیور اور مقبولِ عام مولانا طارق جمیل”

کچھ دیر قبل والد گرامی کو ڈائیوو اڈے چھوڑنے جارہا تھا، ٹیکسی لی، بیٹھتے ہی کچھ دیر بعد ڈرائیور نے بات چیت شروع کی، والد صاحب مزاجاً کم گو ہیں اس لئے ڈارئیور کے کچھ سوالات کے جوابات مجھے دینے پڑے۔۔۔۔۔۔ کچھ مقامات پر بابا جی مختصر سا جواب دیتے رہے، ڈائیور نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے تو بابا جی نے ایبٹ آباد جانے کا بتایا، کہنے لگا کہ میں بھی ایبٹ آباد کے نواحی علاقے علی آباد سے ہوں۔
میں اور بابا نے اپنی زبان میں کوئی بات چیت کی تو ڈرائیور نے فوراً کان کھڑے کرلئے اور کہنے لگا کہ آپ گلگتی زبان تو نہیں بول رہے، میں نے کہا آپ درست سمجھے ہیں، کہنے لگا کہ دس بارہ سال سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کئی گلگتی ملے، اس لئے زبان کا اندازہ ہوا،
میں نے بتایا کہ مادری زبان گلگتی ہے، اور عمر ایبٹ آباد بتائی ہے، اور میں نے یہ بھی کہا کہ علی آباد گیا ہوا ہوں، ڈرائیور بہت خوش ہوا، دراصل علی آباد ایبٹ آباد شہر سے میلوں دور کشمیر اور ایبٹ آباد کو ملانے والے کوہالہ پل کے پاس واقع لگ بھگ دو ہزار فٹ بلند پہاڑی پر واقع خوبصورت ترین اور ٹھنڈا علاقہ ہے، 2015 میں تبلیغی چلے کے دوران ہماری ابتدائی تشکیل علی آباد ہوئی تھی،
ڈرائیور نے علی آباد جانے کی وجہ اور وقت پوچھا تھا تو بتادیا کہ گزشتہ سال تبلیغ کے سلسلے میں جانا ہوا، یہیں سے ڈرائیور نے کھل کر بات چیت شروع کی، اور کہنے لگا کہ میں پکا بریلوی المسلک ہوں، اور ایک عمر تک تبلیغیوں، دیوبندیوں اور وہابیوں سے بلا کی نفرت کرتا تھا، اپنی مجالس میں ان کیخلاف تقاریر سن سن کر نفرت میں اضافہ ہوتا رہا۔
والد محترم خاموش تھے، پھر تھوڑی دیر اسے سمجھایا کہ مسلمانوں میں بین المسالک فرقہ بندیوں کی حقیقت کیا ہے، اور مسلمانوں کے فرقوں میں فروعی اختلافات ہیں، جبکہ بنیادی عقائد پر سب کا اتفاق ہے۔
ڈرائیور بڑے انہماک سے سن رہا تھا، کہنے لگا کہ میں سوچ بچار، غور و فکر کرنے والا اور بنیادی دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہوں، مگر فرقہ واریت سے اب متنفر ہوچکا ہوں، جس کا سب سے بڑا سہرا مولانا طارق جمیل کو جاتا ہے، کہنے لگا کہ دو سال سے مولانا طارق جمیل کو سن رہا ہوں، ایک مقام پر بھی اس شخص نے نفرت نہیں سکھائی، میں اپنے پیر و مرشد کی طرح طارق جمیل صاحب کا بھی شیدائی ہوں۔
اس نے بتایا کہ میرا بڑا بھائی دیوبندی ہے، میں بریلوی ہوں، ایک گھر میں رہتے ہیں، وہ ختم پڑھنے اور گیارہویں چالیسویں کا قائل نہیں، مگر ہم نے کبھی مسلکی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کو کبھی معیوب گمان سے بھی نہ سوچا، مگر یہ فرقہ بندی کی نفرت اس قدر شدید ہے کہ مجھ سا درمیانی سطح کا مسلمان انہی وجوہات کی بنیاد پر دین اور دینداروں سے بیزاری کی جانب گامزن ہوتے ہیں، یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا۔
میرے والد محترم کٹر قسم کے بنیاد پرست دیوبندی عالم ہونے کے باوجود فروعی اختلافات کی بنیاد پر فرقہ بندی کو پسند نہیں کرتے، ڈرائیور کو بتایا کہ ایک ایک مسلک میں چھ چھ فرقے ہونا صرف اور صرف چند مولوی نما فسادیوں کے پیٹ کا مسئلہ ہے، اور لیڈری و رہبری کا شوق چند علمائے سوء کو لے ڈوبا ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی آپسی نفرت میں پھیلاؤ زیادہ آیا ہے۔
بس کچھ دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا کہ آپ دعا کریں اللہ مجھے بھی ان تبلیغ والوں کی طرح نرم دل، خدمت گزار اور دین کی دعوت دینے والا بنائے، اور زیر لب کہنے لگا کہ انہیں جتنی بھی گالم گلوچ کرو اتنی ہی محبت سے دین کی دعوت دیتے ہیں، یہی چیز مجھے گھائل کرتی ہے۔
پھر افسردہ ہو کر کہنے لگا کہ ہمارے گاؤں میں بھی اس فرقہ وارانہ نفرت نے بھائیوں کو بھائیوں سے جدا کردیا ہے۔۔۔۔ اس کا یہ جملہ کہنا تھا کہ مجھے علی آباد سے پہلے واقع علاقے (جس کے محلے کام نام اب ٹھیک سے یاد نہیں، یہ علاقہ کوہالہ پل، مولیا سے سنگین پہاڑی رستے سے گزر کر آتا ہے) کا وہ منظر یاد آیا جہاں آبادی پانچ سو سے بھی کم مگر مساجد کی تعداد نصف درجن تھی، ایک بستی میں تین بھائی اور ایک چچازاد رہتے تھے اور مساجد دو تھیں، ایک بریلوی، ایک دیوبندی۔۔۔۔ اس خوبصورت ترین علاقے کے محنت کش لوگ خونی رشتہ داری ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو خونی نگاہوں سے دیکھتے تھے،
ہماری دوسری تشکیل ایک بریلویوں کی مسجد میں تھی، ہم نے ظہر ادا کرنے سے پہلے وضو کیا، اتنے میں مسجد کا مولوی پہنچ آیا، کھاجانے والی نظروں سے دیکھا اور بڑبڑایا، ۔۔۔۔ نماز شروع ہونے کو تھی، تکبیر ہوئی تو ہم جماعت کے ساتھی صف میں کھڑے ہوئے، مولوی نے پیچھے مڑ کر کہا یہ یہ پلید وہابی مسجد میں گھس آئے ہیں، مسجد ناپاک ہوگئی ہے، اور نماز نہیں ہوگی۔۔۔۔ مسجد میں نمازی بھی ہمیں نفرت بھری نظروں سے گھور رہے تھے، دیکھتے دیکھتے چار پانچ ہٹے کٹے جوان موٹے موٹے ڈنڈے لیکر پہنچے، اس سے پہلے کے ہمارا “اکرام” ہوتا، چند نمازیوں نے بسترے پھینک دئیے، برتن باہر نکالے، ہمارے امیر صاحب مسجد سے باہر ساتھیوں کو زمین پر بٹھا کر گڑگڑا کر ان احباب کیلئے دعائیں کرواتے رہے، اور وہیں نماز ادا کرکے دعا کروائی اور چل دئیے،
اس کے بعد ہماری تشکیل جنوبی پنجاب میں بھی ہوئی، اللہ اکبر کس قدر نفرت کی آگ تھی اکثر علاقوں میں مساجد سے نکالا گیا، مگر اہلِ پنجاب نے جو ضیافت کی اس سخاوت کو بھلایا بھی نہ جاسکے گا، بلا کے مہمان نواز اور محنت کش لوگ ہیں، مگر تعلیم کی کمی کی بدولت نہایت ذہنی محدودیت کا شکار ہیں۔
پنجاب میں علی آباد جیسے کئی واقعات پیش آئے، مگر کیا کرتے، ہم اہل خیبر تو “کیوں؟؟” کا لفظ بھی کسی سے ذرا اونچا سنیں تو اس کا مطلب لڑائی سمجھتے ہیں۔۔۔۔ مگر دورانِ میں نہ صرف اونچا “کیوں” برداشت کیا بلکہ ڈنڈے برسائے گئے پنجاب میں، تب بھی امیر کی اطاعت میں برداشت کرتے رہے، ایک دن منڈی بہاؤالدین کی کسی مسجد میں چند “عاشقانِ رسولﷺ ” نے وہ حرکت کی کہ آج بھی سوچ کر گھن آتی ہے، جماعت کے ساتھیوں کو مسجد سے نکالا، بسترے اور برتن گلی میں بکھیر دئیے، ایک کالی پگڑی میں زلف بردار ہٹا کٹا “کامل عاشق” آیا جو ان کا امام تھا، اور میرا چشمہ اتار کر دور پھینک دیا، ہاتھ میں پکڑی فضائل اعمال چھین کر پھینکنے لگا کہ میں چمٹ کر کتاب سینے سے لگاکر چھیننے نہ دیا، اور میرے ہاتھ میں منزل دوہرانے کیلئے قرآن کریم بھی تھا، مگر کافی چھینا جھپٹی کے بعد بھی وہ چھین نہ سکا۔۔۔۔
پندرہ بیس پہلوان اکٹھے ہوئے، اور ہمیں ایک حجرے میں لے گئے، ٹھیک ٹھاک دھنائی بھی کی، مجھے غصے نے پاگل کردینے کے قریب کردیا تھا مگر راہِ خدا کا تقدس تھا، لیکن برداشت کی بھی حد تھی۔۔۔ ڈنڈے، لاتیں، گھونسے تو پڑ ہی رہے تھے، مگر ماں بہن کی ننگی گالیاں وہ بھی ٹھیٹھ پنجابی میں۔۔۔۔ خدایا طائف یاد آرہا تھا۔۔۔۔اور کڑوے گھونٹ پی کر مار کھائے جارہے تھے، امیر صاحب اور دیگر ساتھی رو رو کر گالیوں والوں کو دعائیں دیتے جارہے تھے، میں بھی ہونٹ چباتے ہوئے استقامت کا ورد کر رہا تھا، مگر اگلا مرحلہ نہایت اذیت ناک اور ذلالت کی انتہا تھی، حجرے میں بٹھایا گیا، اور کیمرے منگوا کر باقیوں سے ویڈیو بنانے کا کہا گیا۔۔۔۔
میں چونکہ ایسی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھ چکا تھا اسی لئے پہلے ہی بھانپ چکا تھا کہ یہ کوئی ایسی خباثت کی جائے گی، اس لئے عمامہ اتار کر سر پر رومال کی طرح اوڑھ لیا، اور چہرہ نیچے کرکے بیٹھا رہا، پھر کچھ دیر بعد اہاں سے اٹھنے لگا تو وہ زلف بردار مولوی کہنے لگا کہ “سرکار! تسی کتھے جارہے او؟ تہاڈے کولوں نعتاں سنن لگے ہاں ہن”۔۔۔۔۔ میں نے کہا “نعتاں جنیاں مرضی سن لو، لیکن گالاں کسے نوں نئیں کڈاناں میرے کولوں”۔
بہر کیف مجھے امیر کے حکم کی تعمیل میں بیٹھنا پڑا۔۔۔۔کچھ دیر بعد کیمرے آن کئے گئے اور شروع سے سب سے نام، والد کا نام، مسلک اور علاقہ پوچھا گیا،۔۔۔۔ سب کی ویڈیو بنائی جارہی تھی ۔۔۔۔میں سر جھکا کر کیمرے سے رخ چھپا بیٹھا۔۔۔۔اور شدتِ غم اور غصہ اس قدر تھا کہ خدا نخواستہ کچھ بھی ممکنہ ردعمل دینے کو دل چاہ رہا تھا، مگر صبر کیا، ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہی ذلالت شروع کی گئی کہ سب مل کر نعرہ رسالتﷺ، یارسول اللہﷺ، نعرہ حیدری یاعلی اور وہابیوں، تبلیغیوں، دیوبندیوں پہ لعنت کے نعرے لگاؤگے۔۔۔۔۔ غصہ نقطۂ انتہاء کو پہنچ چکا تھا، میں نے امیر صاحب کو غصیلی آنکھوں سے گھورا، انہوں نے پھر صبر کا اشارہ کیا۔۔۔۔
اتنے میں ایک دھوتی سنبھالتے بڑی بڑی مونچھوں والا چوہدری آیا اور کہا “اینہاں نوں کلمہ پڑھا کے سُنّی کرکے چھڈنا”۔۔۔۔۔ پھر وہی مولوی ”کلمہ” پڑھانے آیا۔۔۔۔اور کلمہ یہ پڑھایا کہ اشرف علی تھانویؒ، مولانا الیاس ؒ، مولانا شیخ زکریاؒ اور دیگر بزرگان دین کا نام لیکر ان پر معاذاللہ لعنت بھیجنی ہے، جس کی ویڈیو بنائی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔
یہاں میرا صبر جواب دے چکا تھا، مسلمانیت پر پٹھانیت غالب آچکی تھی، ۔۔۔۔بے ساختہ مولوی کا گریبان پکڑا، ایک گھونسا مارا، بڑے کیمرے کو لات ماردی اور پھر جس پہ جہاں ہاتھ لگا، جھڑ دیا، ناخن پہنچا تو نوچ لیا، کسی کا ہاتھ سامنے آیا تو دانتوں سے کاٹ دیا۔۔۔۔۔ میرے سر پر پتھروں کی مانند مکے برس رہے تھے، پیٹھ پر بانس کے ڈنڈے۔۔۔۔دیگر ساتھیوں کو بھی بری طرح پیٹا جارہا تھا۔۔۔۔ مگر سوائے میرے کسی ایک نے بھی دفاعی ہاتھ نہ اٹھایا۔۔۔۔ مگر افراتفری میں کئی موبائل، اور کیمرے چکنا چور ہوچکے تھے۔
میری دھنائی بھی “رج” کے ہوچکی تھی۔۔۔۔ فسادی مولوی کی کلائی پر میرے دانتوں کا گہرا گھاؤ اور ایک آنکھ میں ناخن مارنے سے خون نکل رہا تھا۔۔۔۔میرے بھی سر اور منہ پربھی خوب سوجن ہوچکی تھی ۔۔۔۔ بہرکیف انہوں نے بھرکس نکالی مگر ویڈیو کی ذلالت اور لعن طعن کروانے میں ناکام رہے،
لڑائی دھلائی کے بعد مجھے امیر صاحب نے بلا کر سخت تنبیہ کی، اور ہاتھ اٹھانے پر اتنہائی ناراضگی کا اظہار کیا۔۔۔۔ مگر میں نے بھی کہا کہ امیر صاحب! مکی دور کیساتھ مدنی روش بھی کبھی کبھار لازم ہوتی ہے۔۔۔ بہرکیف وہ رات ہم نے وہیں ایک کھیت میں گزاری، دوسرے دن تشکیل ہوئی۔۔۔
مجھے یہ سوچ کر آج بھی اس قدر دکھ ہورہا ہے کہ ہمیں فرقہ واریت نے کس قدر جہل اور حیوانیت میں ڈال رکھا ہے، حالانکہ یہ کھلا اعتراف ہے کہ اہل پنجاب کو اللہ نے کمال صلاحتیوں، سادگی اور مہمان نوازی بخشی ہے، مگر فرقہ وارانہ شدت پسندی ہر فرقے میں ہے، چاہے وہ دیوبندی ہو، وہابی ہو، بریلوی ہو یا کوئی اور۔۔۔۔۔ مگر کمی ہے تو محبتیں بانٹنے والے علماء کی۔۔۔۔۔اعتدال پسند مسلمانوں کی۔۔۔۔
کاش کہ ہر مسلک میں طارق جمیل اور تقی عثمانی جیسے دیوبندی، ثاقب رضا مصطفائی اور مفتی منیب الرحمٰن جیسے بریلوی اور علامہ احسان الہیٰ ظہیر شہید اور ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے اہلحدیث ہوں، جو فرقہ نہیں دین سکھاتے ہوں، نفرت نہیں محبت سکھاتے ہوں، انتہاء پسندی نہیں اعتدال سکھاتے ہوں تو ہر جانب کس قدر خوشیاں، محبتیں، پیار اور بھائی چارہ ہو۔
آخر میں عنوان کی وضاحت کرتا چلوں کہ “مقبولِ عام طارق جمیل” کیوں لکھا۔۔۔۔۔؟؟ وہ اس لئے کہ جہاں بھی گئے طارق جمیل کی محبتوں کے چرچے سنے، ان کے بیانات کے شیدائی ہر مسلک میں دیکھے، ہر مقام پر ان کی محبت میں ہر طبقے کے افراد کو گرفتار پایا، اگر چہ مولانا طارق جمیل کی بہت سی باتوں سے مجھے اور آپ کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے، مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک ایسا فرد ہے جو فنا فی اللہ اور فنا فی الدین ہے۔
اللہ تعالیٰ ایسے دین کے مبلغین اور علمائے کرام کو ہمیشہ سلامت رکھے، جو امت کی اصلاح چاہتے ہیں۔
محمد بلال خان

baloch

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago