- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

قرآن مجید کے حقوق اور ہمارا طرزِ عمل

ہدایت کے دو پہلو
ہدایت کا ایک پہلو نظری، فکری اور علمی ہدایت ہے، جبکہ ہدایت کا دوسرا پہلو عملی، اخلاقی اور زندگی کے معمولات کے ضمن میں ہدایت ہے، یعنی انسان میں حق و باطل کی تمیز پیدا ہوجانا۔

پہلا پہلو
کو کچھ نظر آرہا ہے یہ حقیقت نہیں، بلکہ جو کچھ اس کے پیچھے ہے وہ حقیقت ہے۔ کائنات میں جو کچھ نظر آرہا ہے یہ حقیقت نہیں، بلکہ حقیقت اس کے پیچھے ہے۔ ایک ہمارا یہ ظاہری وجود ہے، جس میں درد محسوس ہوتا ہے، لیکن یہ حقیقت نہیں، حقیقی وجود روحانی وجود ہے جو نظر نہیں آتا۔
اسی طرح یہ کارخانہ دنیا ہے، یہاں کی رنگینیاں ہیں، ساز و سامان ہے، لیکن حقیقت اس کے پیچھے ہے یعنی آخرت۔ یہ جو ظواہر ہیں ان کے بجائے حقائق پر توجہ ہوتو یہ نظری ہدایت ہے، یعنی ظاہر و باطن اور حق و باطل کا فرق معلوم ہوجانا یہ ہدایت ہے۔ تین حقائق یعنی ذات باری تعالیٰ، روح انسانی اور حیات اخروی پر جب تین ظواہر یعنی کائنات، جسم انسانی اور حیات دنیوی کا پردہ پڑ جائے تو یہی دجل اور دجالیت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بہت ہی پیاری دعا اسی باری میں ہے:
’’اللّهم أرِنِی حَقِیقَةَ الأشیَاءِ کَمَا ہِیَ‘‘۔
’’اے اللہ! مجھے تمام چیزوں کی حقیقت اسی طرح دکھادے جس طرح وہ ہیں‘‘۔

دوسرا پہلو
دوسری ہدایت عملی ہے اور اس کے بھی دو درجے ہیں:
۱:۔۔۔ انفرادی سطح پر ہدایت۔
۲: ۔۔۔ اجتماعی سطح پر ہدایت۔
انفرادی ہدایت یہ ہے کہ: انسان کو یہ سمجھ آجائے کہ مَیں کیا کروں، کیا نہ کروں؟ کیا خیر ہے اور کیا شر ہے؟ کیا اچھی بات ہے اور کیا بری بات ہے؟ یہ انفرادی ہدایت اللہ نے ہر انسان کے دل میں ودیعت کی ہے، جیسا کہ ارشادِ باری ہے:
«وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا * فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا»(الشمس: ۷،۸)
یہی وجہ ہے اس انفرادی معاملے پر قرآن مجید میں اتنا زیادہ زور نہیں دیا گیا، ان باتوں کو معروف اور منکر کہا گیا ہے، معروف یعنی جانی پہچانی جس سے خود ہی انسان واقف ہے، اور منکر یعنی جس سے خود ہی انسانی نفس نفرت کرتا ہے، دنیا کے کس انسان کو معلوم نہیں کہ سچ بولنا اچھی اور جھوٹ بولنا بری بات ہے۔

اجتماعی سطح پر ہدایت
انسان کی اصل احتیاج اجتماعی زندگی کی ہدایت ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آ کر انسان افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔ دنیا میں تین بڑے اجتماعی مسائل ہیں:
۱: ۔۔۔ مرد و عورت کے حقوق میں توازن۔
۲: ۔۔۔ ریاست اور شہری کے حقوق میں توازن، یعنی شہری کو کتنی آزادی ہے اور کتنا پابند ہے اور ریاست کو کتنی آزادی ہے اور کتنی پابند ہے۔
۳: ۔۔۔ سرمایہ اور محنت، سرمایہ دار اور مزدور کے حقوق کا توازن۔ یہاں آ کر انسان ہدایت کا محتاج ہوجا تا ہے اور وہ ہدایت قرآن مجید سے ملتی ہے:
« الرَّحْمَنُ ﴿۱﴾ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ﴿۲﴾ خَلَقَ الْإِنْسَانَ ﴿۳﴾ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴿۴﴾»(الرحمن)
رحمن اللہ کے ناموں میں سے چوٹی کا نام ہے اور قرآن تمام کتابوں میں سے چوٹی کی کتاب ہے اور انسان تمام مخلوقات میں سے چوٹی کی مخلوق ہے اور بیان انسان کی تمام صلاحیتوں میں سے چوٹی کی صلاحیت ہے۔
ان آیات میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی کہ رحمن کی چوٹی کی مخلوق انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی چوٹی کی صلاحیت یعنی بیان کو اللہ کی چوٹی کی کتاب قرآن کو بیان کرنے پر صرف کرے۔ اس ساری گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوت کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی سطح پر رجوع الی القرآن کی زبردست تحریک چلنی چاہیے، تا کہ سب مسلمان قرآن کے ساتھ جڑ جائیں، قرآن کو سیکھیں اور سکھائیں، سمجھیں اور سمجھائیں، عمل کریں اور عمل کروائیں، اسی سے ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
آج قرآن ہماری زندگیوں سے نکل گیا ہے، ہم اگر چہ کئی کام انفرادی سطح کے کرتے ہیں، لیکن اجتماعی سطح پر پہلا قدم رکھتے ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ہم رواجی پردہ تو کرتے ہیں، لیکن شرعی پردہ نہیں کرتے، رواجی پردہ یہ ہے کہ اجنبی سے پردہ کرو اور جاننے والے یا رشتہ دار سے نہیں، جبکہ شرعی پردہ یہ ہے کہ غیرمحرم سے پردہ کرو، چاہے وہ رشتہ دار یا جاننے والا ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح دیگر اجتماعی مسائل میں ہماری یہی حالت ہے کہ ہم دین پر عمل نہیں کرتے۔

قرآن مجید کے پانچ حقوق
آج دنیا میں حقوق کی جنگیں لڑی جارہی ہیں، کہیں خواتین کے حقوق کی بات ہو رہی ہے اور کہیں جانوروں کے حقوق کی، لیکن آج کے مسلمان کو یہ نہیں معلوم کہ اس پر قرآن مجید کے کتنے حقوق ہیں۔ جاننا چاہیے کہ ہر مسلمان پر قرآن مجید کے پانچ حقوق ہیں:
۱: ایمان و تعظیم۔ ۲: تلاوت و ترتیل۔ ۳: تذکر و تدبر۔ ۴۔ حکم و اقامت۔ ۵۔ تبلیغ و تبیین۔

پہلا حق:۔۔۔ ایمان و تعظیم
ایمان کے دو حصے ہیں: ایک اقرار اور دوسرا تصدیق۔ ہم اقرار تو کرتے ہیں، لیکن یقین اور تصدیق کی ہمارے اندر کمی ہے، لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں کہ آیا ہم قرآن کو متوارث مذہبی عقیدے کی بنا پر ایک آسمانی مقدس کتاب سمجھتے ہیں، جس کا زندگی اور اس کے جملہ معاملات سے تعلق نہ ہو یا یقین ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس لیے نازل ہوا کہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور اسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنائیں؟۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمی کیسے پوری ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان و یقین کے حصول کا سب سے آسان ذریعہ اصحاب ایمان و یقین کی صحبت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عظیم ایمان بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا نتیجہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے لیے بھی اصحاب یقین کی صحبت ضروری ہے اور خود ایسے خواص کے لیے نور ایمان کا منبع قرآن ہے، پھر اس کے بعد سیرت رسول و اصحاب رسول کا مطالعہ کرنے سے معنوی صحبت میسر آجاتی ہے۔
ایمان کوئی ٹھوس چیز نہیں جسے باہر سے ٹھونس کر اندر داخل کیا جائے، بلکہ ایمان کی چنگاری ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے، لیکن اعمالِ بدنے اُسے دھندلا کیا ہوتا ہے، اس چنگاری کو شعلہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إنَّ هذِه القُلُوبَ تَصدَأُ الحَدِیدُ إذَا أصَابَهُ المَاءُ، قِیلَ یَارَسُولَ اللهِ! مَا جِلاءُها؟ قال کَثرَةُ ذِکرِ المَوتِ وَ تِلاوَةُ القُرآنِ» (رواہ البیہقی)
’’بے شک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہے کو پانی لگنے سے زنگ لگ جاتا ہے، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول ! اس کی صفائی کس طرح ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وقت موت کا دھیان رکھنا اور قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنا‘‘۔

دوسرا حق: ۔۔۔تلاوت
قرآن مجید کا دوسرا حق اس کی قراء ت اور تلاوت ہے۔ قراء ت کا لفظ ہر کتاب کے لیے بولا جاتا ہے، جبکہ تلاوت کا لفظ صرف قرآن کے لیے خاص ہے۔ پہلے زمانے میں قاری قرآن کو عالم کہا جاتا تھا، لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا جو قرآن کو مخارج اور صفات کا لحاظ رکھتے ہوئے اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت بار بار کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح جسم انسانی بار بار کھانے کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح روح انسانی بھی غذا کی محتاج ہے اور روح کی سب سے عمدہ غذا تلاوت قرآن کریم ہے۔ پھر اس تلاوت کے بھی کچھ حقوق ہیں:
* تلاوت کا پہلا حق یہ ہے کہ قرآن کریم کو تجوید کے قواعد کا لحاظ کرکے تلاوت کیا جائے، یعنی مخارج، صفات اور رموز و اوقاف کا علم ہونا چاہیے، تا کہ قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا ہوسکے۔
* تلاوت کا دوسرا حق یہ ہے کہ روزانہ کا معمول ہونا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ تلاوت کا نصاب دس پارے روزانہ ہے اور کم سے کم نصاب ایک پارہ روزانہ ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک نصاب ہے، جس پر اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا معمول تھا، وہ ایک ہفتے میں ختم قرآن کا ہے۔ قرآن مجید میں سات منزلوں کی تقسیم اسی وجہ سے ہے کہ ایک منزل روزانہ تلاوت کرلی جائے اور ایک منزل کو تلاوت کرنے میں تقریباً دو گھنٹے صَرف ہوتے ہیں۔
* تلاوت کا تیسرا حق خوش الحانی ہے، فرمایا:
’’زَیِّنُوا القُرانَ بأَصوَاتِکُم‘‘ (سنن ابی داؤد، ج:۱، ص:۵۴۸، دارالکتاب العربی، بیروت)
ترجمہ: ’’قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرکے پڑھو‘‘۔
اور ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ:
’’لیسَ مِنَّا مَن لَّم یَتَغَنَّ بِالقُرآن‘‘۔ (سنن ابی داؤد، ج:۱، ص: ۵۴۸، دارالکتاب العربی، بیروت)
ترجمہ: ’’جو قرآن کو خوبصورت نہیں پڑھتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
* تلاوت کا چوتھا حق یہ ہے کہ آدابِ ظاہری و باطنی کا خیال رکھا جائے، یعنی باضو ہوکر قبلہ رخ بیٹھ کر تعوذ و تسمیہ پڑھ کر حضوریِ قلب، اور مسلسل تذکر و تدبر اور تفہم و تفکر کرکے تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے خود ساختہ خیالات و نظریات کی سند قرآن میں نہ ڈھونڈی جائے، بلکہ قرآن سے ہدایت لینے کے لیے اُسے پڑھا جائے۔
* تلاوت کا پانچواں حق ترتیل ہے، یعنی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کی جائے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وَ رَتِّلِ القُرآنَ تَرْتِیلاً‘‘ ۔ ’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘۔ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا تثبیت قلبی کا ذریعہ بھی ہے، اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا:
«كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا»(الفرقان:۳۲)
ترجمہ: ’’اور اسی طرح (اتارا) تا کہ ہم اس کے ذریعے تمہارے دل کو ثبات عطا کریں، چنانچہ پڑھ سنایا ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر‘‘۔
چنانچہ ترتیل کے ساتھ پڑھنے سے زیادہ فیض حاصل ہوتا ہے۔ ایک روایت میں فرمایا: ’’قرآن کی تلاوت کرو اور روؤ‘‘۔
* تلاوتِ قرآن کا چھٹا حق یہ ہے کہ اس کو حفظ بھی کیا جائے۔ حفظ میں یہ ضروری نہیں کہ پورا ہی حفظ کیا جائے، بلکہ حسب توفیق زیادہ سے زیادہ حفظ کیا جائے۔

تیسرا حق: ۔۔۔ تذکر و تدبر
یعنی قرآن کو سمجھنا۔ بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کو جواز ان لوگوں کے لیے ہے جو پڑھنے لکھنے سے محروم رہ گئے ہیں اور اب ان کی عمر اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ ان کے لیے سیکھنا ناممکن ہو چکا ہے، ایسے لوگ اگر ٹوٹی پھوٹی تلاوت کریں یا تلاوت نہ کرسکیں محض عقیدت کی بنا پر سطروں پر اپنی انگلیاں ہی پھیریں تو بھی ان کو ثواب ملے گا۔ لیکن پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے دنیا کے مختلف علوم و فنون حاصل کرنے میں زندگیاں صرف کیں، اپنی تو کیا غیرملکی زبانیں بھی سیکھیں، ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کا فہم حاصل کریں۔

فہم کے مدارج
فہم قرآن کے دو درجے ہیں:
۱: تذکر بالقرآن۔
۲: تدبر فی القرآن۔
۱: تذکر بالقرآن یہ ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا، اس اعتبار سے قرآن مجید بہت ہی آسان کتاب ہے، ارشاد ربانی ہے:
«وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ»(القمر:۱۷)
’’ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنایا ہے، ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘
قرآن کو نازل کرکے اللہ تعالی نے ہر انسان پر حجت قائم کردی ہے، خواہ وہ کتنی ہی کم استعداد کا مالک ہو، اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا ہر انسان کے لیے آسان ہے، ہر انسان قرآن سے تذکر حاصل کرسکتا ہے۔
۲: تدبر فی القرآن یہ ہے کہ قرآن میں غور و خوض کیا جائے، قرآن مجید وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا کسی کو اندازہ نہیں ہوسکا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تدبر و تفکر میں کئی کئی سال لگاتے تھے۔ وہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سات دن میں قرآن کریم ختم کرنے کا حکم فرمایا تھا، وہ صرف سورہ بقرہ میں تدبر پر آٹھ سال لگادیتے ہیں، حالانکہ آیات کا شان نزول، عربی زبان اور دیگر قواعد سب جانتے تھے، ان کو سیکھنے کی کوئی حاجت ہی نہیں تھی۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے ایک عارف کے بارے میں لکھا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: میں قرآن مجید کا ایک ختم ہر جمعہ کو کرتا ہوں اور ایک ختم ہر مہینے کرتا ہوں اور ایک ختم ہر سال کرتا ہوں اور ایک ختم ایسا بھی ہے جس میں تیس سال ہوگئے ہیں، ابھی جاری ہے۔
قرآن مجید کو بطریق تدبر پڑھنے کی کچھ شرائط ہیں، اس کام کے لیے اولاً عربی زبان کے قواعد کا گہرا اور پختہ علم ضروری ہے، پھر اس کے ادب کا ایک ستھرا ذوق اور فصاحت و بلاغت کا عمیق فہم لازمی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ جس زبان میں قرآن نازل ہوا، اس کا صحیح فہم اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ادب جاہلی کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور دور جاہلی کے شعرا اور خطبا کا کلام بھی پڑھا جائے، پھر اسی پر بس نہیں، قرآن کی اپنی بھی وضع کردہ اصطلاحات ہیں، جن سے واقفیت ایک طویل مدت تک قرآن کو پڑھتے رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر قرآن کے نظم کو سمجھنا، اس کی ترتیب نزولی اور آیتوں و سورتوں کا باہمی ربط جاننا، یہ سب چیزیں بہت ضروری ہیں۔ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں مفسرین نے چودہ علوم کا جاننا کہا ہے، اور یہ چودہ علوم والی بات تو پرانی ہے، اب تو اور کئی علوم بھی متعارف ہوگئے ہیں، اب تو سولہ یا اٹھارہ علوم کی قید لگائی جاسکتی ہے۔

چوتھا حق:۔۔۔ حکم، اقامت اور عمل
قرآن مجید کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن مجید نہ تو جادو منتر کی کتاب ہے کہ محض اس کا پڑھنا دفع بلیات کے لیے کافی ہے اور نہ ہی یہ محض حصول برکت اور ثواب کی کتاب ہے کہ دکان و مکان میں برکت یا مردے بخشوانے کے لیے اس کی تلاوت کی جائے، بلکہ یہ ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ ہے، اس کامقصد نزول اس ہدایت کو حاصل کرنا ہے اور اُسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بناناہے۔
ایک شخص تو وہ ہے جو تلاشِ حق میں لگا ہوا ہے، اس کو قرآن کے حق ہونے یا نہ ہونے کا یقین نہیں ہے، لیکن وہ لوگ جو اسے حق سمجھتے ہیں، اس پر ایمان رکھتے ہیں، ان کے لیے تو ضروری ہے کہ ہو قرآن کریم کو اپنی زندگی پر عملاً نافذ کریں، وہ قرآن کریم کی انگلی پکڑ کر چلنے کی کوشش کریں۔

عمل کے دو پہلو
پھر اس عمل کے بھی دو پہلو ہیں: ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی، ایسے احکام جن کا تعلق انفرادی زندگی سے ہے، ان کا تو انسان فی الفور مکلف ہے، البتہ ایسے احکام جن کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے ان کا فی الفور مکلف تو نہیں، لیکن ان کو درست کرنے کی کوشش کرنا یہ ضروری ہے۔

پانچواں حق: ۔۔۔ تبلیغ و تبیین
قرآن مجید کا پانچواں حق اُسے دوسروں تک پہنچانا ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بَلِّغُوا عَنِّی وَ لَو أٰیَۃً‘‘۔ (سنن الترمذی، ج:۴، ص:۳۳۷، ط، دارالغرب الاسلامی، بیروت)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ تبلیغ کی ذمہ داری سے کوئی بھی بری نہیں، اگر چہ ایک ہی آیت آتی ہو۔ اصلاً تو یہ فریضہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ اور مفہوم کو اقوامِ عالم تک پہنچایا جائے، لیکن بدقسمتی سے جس جس کی یہ ذمہ داری تھی وہ خود محتاج ہے کہ اس تک پہنچایا جائے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم و تعلم قرآن کی ایک ایسی رَوچل پڑے کہ تمام مسلمان قرآن کریم کو سیکھنے سکھانے میں لگ جائیں۔
قرآن مجید کے یہ پانچ حقوق ہیں، لیکن عام طور پر جو حقوق سمجھے جاتے ہیں، وہ یہ ہیں: ریشمی جز دان میں رکھا جائے۔ جہیز میں دیا جائے۔ نزع کے وقت سرہانے کے قریب یا نئی دکان و مکان میں اس کی تلاوت کی جائے۔ عدالتوں میں قسم اٹھاتے وقت سر پر رکھا جائے۔ پریشانی کے وقت فال نکالا جائے۔ نعوذ باللہ من ذٰلک۔

قرآن کے ساتھ ہمارا طرزِ عمل
حضرت عبیدہ ملیکی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یا أھل القرآن! لا تتوسدوا القرآن اتلوہ حق تلاوته من أٰناء اللیل و النھار و افشوہ و تغنوہ و تدبروا فیه لعلکم تفلحون‘‘۔ (رواہ البیہقی)
ترجمہ: ’’اے اہل قرآن! اس قرآن کو پس پشت نہ ڈالو، اور اس کی تلاوت کرو جیسا اس کا حق ہے صبح اور شام، اور اس کو پھیلاؤ، اور اسے خوبصورت آوازوں سے پڑھو، اور اس میں تدبر کرو تا کہ تم فلاح پاؤ‘‘۔
’لا تتوسدوا‘ یعنی پس پشت نہ ڈالو، سہارانہ بناؤ۔ ہم نے برکت کی کتاب سمجھ کر طاق میں رکھ دیا، اپنی قسموں کے لیے تختہ مشق بنادیا، مرتے ہوئے شخص کے پاس سورہ یٰسین پڑھ لیتے ہیں، بیٹی کو ٹی وی کے ساتھ جہیز میں قرآن بھی دے دیتے ہیں۔ ہمارے حال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صادق آتا ہے: ’’ان اللہ یرفع بھذا الکتاب أقواما و یضع به آخرین‘‘۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: ’’بلاشبہ اللہ تعالی اس کتاب (قرآن) کے ذریعہ بہت سی قوموں کو بلند کرتا ہے اور اس کے ذریعہ بہت سوں کو گراتا ہے‘‘۔
یعنی دنیا میں بحیثیت قوم ہماری تقدیر اس کتاب سے جڑی ہوئی ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’و قد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم به: کتاب اللہ‘‘۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: ’’میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ کر جارہا ہوں کہ جب تک اس کے ساتھ چمٹے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ اللہ کی کتاب (قرآن) ہے‘‘۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے:
«عن علی رضی الله عنه قال: إنی سمعت رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول: إنَّها سَتَکُونُ فِتنةٌ، قُلتُ: ما المخرج یا رسول الله صلی الله علیه وسلم؟ قال: کتاب الله، فیه نَبَأُ ما قَبلَکم و خبرُ ما بَعدَکم و حُکمُ ما بینکم، هو الفصلُ لیس بالهزل، من ترکه من جَبَّارٍ قَصَمَه اللهُ و مَنِ ابتغی الهُدی فی غیره أضلَّهُ اللهُ و هو حَبلُ اللهِ المَتینُ، و هو الذکرُ الحکیم، و هو الصراط المستقیمُ.» (سنن الترمذی، ج:۵، ص:۱۷۲، ط:دار احیاء التراث العربی، بیروت)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب فتنہ ظاہر ہوگا، میں نے پوچھا اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ (اگر آج کا مسلمان ہوتا تو فوراً پوچھتا کب ہوگا؟ کہاں ہوگا؟ کیا ہوگا؟ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنی ایسی فکر لگی ہوتی تھی کہ فوراً اس سے خلاصی کا طریقہ پوچھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے خلاصی اللہ کے کتاب قرآن ہے، اس میں تم سے پہلے اور بعد کی خبریں ہیں اور اس میں تمہارے درمیان فیصلے ہیں، وہ قول فیصل ہے، فضول بات نہیں ہے، جو جابر سرکش اس کو چھوڑے گا اللہ اس کو توڑ کر رکھ دے گا، اور جو اس کے علاوہ ہدایت تلاش کرے گا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، قرآن ہی حبل اللہ ہے، اور محکم نصیحت نامہ ہے، اور صراط مستقیم ہے‘‘۔

قرآن حبل اللہ ہے
سورہ حج میں فرمایا: ’’وَاعتَصِمُوا باللہ‘‘۔ لیکن بات واضح نہیں تھی، پھر اس کی شرح سورہ آل عمران میں بیان فرمائی: ’’وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللہِ‘‘ اب بھی بات واضح نہیں تھی تو احادیث میں اس کی تشریح فرمائی:
۱: ترمذی شریف کی حدیث میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ھو حبل اللہ المتین‘‘ یہی قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے۔ ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے، دیکھا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم قرآن کا مذاکرہ کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
۲: «ألیس تشهدون أن لا إله إلا الله وحده لا شریک له و أنی رسول الله و أن القرآن جاء من عندالله؟ قلنا بلی. قال فأبشروا فإن هذا القرأن طرفه بیدالله و طرفه بأیدیکم فتمسکوا به فإنکم لن تهلکوا و لن تضلوا بعده أبداً»(طبرانی کبیر)
ترجمہ: ’’کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے فرمایا: کیوں نہیں؟! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوشخبری حاصل کرو، یہ قرآن اس کی ایک طرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف تمہارے ہاتھ میں ہے، لہذا اس کو مضبوطی سے تھام لو، اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے‘‘۔
اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت میں ہے:
’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم: کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء إلی الأرض‘‘۔
ترجمہ: ’’اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی ہے‘‘۔

اکابرین امت کی نظر میں تمام مسائل کا حل قرآن مجید میں

حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ
اگر ایک شخص مسلمانوں کی تمام موجودہ تباہ حالیوں اور بدبختیوں کی علت حقیقی دریافت کرنا چاہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگادے کہ صرف ایک ہی علت اصلی ایسی بیان کی جائے جو تمام علل و اسباب پر حاوی اور جامع ہو تو اس کو بتایا جاسکتا ہے کہ علماء حق و مرشدین صادقین کا فقدان اور علماء سوء و مفسدین دجالین کی کثرت:
’’رَبنا انا اطعنا سادتنا و کبراء نا فاضلونا السبیلا‘‘۔
اور پھر اگر وہ پوچھے کہ ایک ہی جملہ میں اس کا علاج کیا ہے؟ تو اس کو امام مالک رحمہ اللہ کے الفاظ میں جواب ملنا چاہیے کہ:
’’لایصلح آخر ھذہ الامة الا بما صلح به اولھا‘‘۔
یعنی امت مرحومہ کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہوسکے گی تو وقتیکہ وہی طریق اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی تھی، اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قرآن حکیم کے اصلی و حقیقی معارف کی تبلیغ کرنے والے مرشدین صادقین پیدا کیے جائیں۔ (البلاغ، جلد اول، شمارہ اول، مورخہ بارہ نومبر ۱۹۱۵ء)

حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ
مفتی محمد شفیع مرحوم و مغفور فرماتے ہیں کہ: ’’میں حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک دن نماز فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت غمزدہ بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا: ’’مزاج کیسا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ: ہاں! ٹھیک ہے، میاں! مزاج کیا پوچھتے ہو؟ عمر ضائع کردی۔ میں نے عرض کیا: حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گزری ہے، ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں، آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟ تو حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: ’’میں تمہیں صحیح کہتا ہوں کہ اپنی عمر ضائع کردی‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت! اصل بات کیا ہے؟ فرمایا: ’’ہمارے عمروں کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کوششوں کا، خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفی مسلک کی ترجیح قائم کردیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں، یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔ اب غور کرتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی! پھر فرمایا: ’’ارے میاں! اس بات کا کہ کون سا مسلک صحیح تھا اور کون سا خطاء پر؟ اس کا راز تو کہیں حشر میں بھی نہیں کھلے گا اور نہ دنیا میں اس کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی قبر میں منکر نکیر پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا؟ (نماز میں) آمین زور سے کہنا حق تھا یا آہستہ کہنا حق تھا؟ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا، روز محشر اللہ تعالی نہ امام شافعی رحمہ اللہ کو رسوا کرے گا، نہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو، نہ امام مالک رحمہ اللہ کو، اور نہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو۔۔۔ اور نہ میدان حشر میں کھڑا کرکے یہ معلوم کرے گا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے صحیح کہا تھا یا امام شافعی رحمہ اللہ نے غلط کہا تھا، ایسا نہیں ہوگا۔ تو جس چیز کا نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے، نہ برزخ میں، نہ محشر میں، اس کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی، جو سب کے نزدیک مجمع علیہ اور وہ وسائل جو سبھی کے نزدیک متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام علیہم السلام لے کر آئے تھے، جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا ، وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی، آج اس کی دعوت ہی نہیں دی جارہی، یہ ضروریاتِ دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے اور اغیار سبھی دین کے چہرے کو مسخ کررہے ہیں اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہیے تھا وہ پھیل رہے ہیں، گمراہی پھیل رہی ہے، الحاد آرہا ہے، شرک و بت پرستی چلی آرہی ہے، حرام و حلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے، لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فرعی و فروعی بحثوں میں، اس لیے غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کررہا ہوں کہ عمر ضائع کردی‘‘۔ (وحدت امت ص: ۱۳، مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ)
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: حضرت مولانا سید محمدانور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اجتہادی مسائل اور ان کے اختلاف جن میں ہم اور عام اہل علم الجھتے رہتے ہیں اور علم کا پورا زور اس پر خرچ کرتے ہیں، ان میں صحیح و غلط کا فیصلہ دنیا میں تو کیا ہوتا میرا گمان تو یہ ہے کہ محشر میں بھی اس کا اعلان نہیں ہوگا، کیونکہ رب کریم نے جب دنیا میں کسی امام مجتہد کو باوجود خطا ہونے کے ایک اجر و ثواب سے نوازا ہے اور ان کی خطا پر پردہ ڈالا ہے تو اس کریم الکرماء کی رحمت سے بہت بعید ہے کہ وہ محشر میں اپنے ان مقبولانِ بارگاہ میں سے کسی کی خطا کا اعلان کرکے اس کو رسوا کریں۔

دو عظیم شخصیات
کالجوں یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں میں چوٹی کی شخصیت علامہ اقبال رحمہ اللہ ہیں، اور مدارس و دارالعلوموں سے نکلنے والے لوگوں میں سے چوٹی کی شخصیت شیخ الہند رحمہ اللہ ہیں۔

شیخ الہند رحمہ اللہ
مولانا مرحوم جمعیت علماء ہند کے صدر تھے، اس میں بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث تمام علماء شامل تھے۔ آپ نے تحریک ریشمی رومال چلائی تھی، آپ رحمہ اللہ کو حجاز سے انگریزوں نے گرفتار کرکے جزیرہ مالٹا میں قید کیا تھا، چار سال قید کے بعد جب ٹی بی کا مرض تیسری سٹیج پر پہنچا تو انگریزوں نے رہا کردیا۔ آپ جب رہا ہو کر بمبئی کے ساحل پر پہنچے تو آپ کا استقبال کرنے مہاتما گاندھی بھی آیا تھا۔ رہائی کے بعد ایک مرتبہ دارالعلوم دیوبند میں علما کے ایک مجمع میں آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں‘‘۔ یہ الفاظ سُن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہوگیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اسّی سال علماء کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟ فرمایا کہ:
’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے: ایک ان کا قرآن کریم کو چھوٹ دینا، دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔‘‘
مفتی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نبّاضِ امت نے ملت مرحومہ کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی، باقی ایّام زندگی میں ضعف و علالت اور ہجوم مشاغل کے باوجود اس کے لیے سعی پیہم فرمائی‘‘۔ (وحدتِ امت)

علامہ اقبال رحمہ اللہ:
علامہ اقبال رحمہ اللہ نے جو حل تجویز فرمایا، وہ ہے:

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

علامہ رحمہ اللہ اپنی فارسی کی شاعری میں اسی بات کو ایک اور انداز سے بیان فرماتے ہیں:

خوار از مہجوریِ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی

اے چوں شبنم بر زمیں افتندہ
در بغل داری کتابِ زندہ

’’ہم کو چھوڑ کر خوار ہو رہے ہیں اور شکوہ زمانے کا کر رہے ہیں، اے وہ شخص جو شبنم کی طرح زمین پر گرا پڑا ہے، تیری بغل میں ایک زندہ کتاب ہے (اس سے استفادہ کر)‘‘۔
در اصل یہ سورہ فرقان کی اس آیت کا مفہوم ہے، جس میں اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فریاد استغاثہ کو ذکر فرمایا:
«وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا »(الفرقان:۳۰)
’’اور کہے گا رسول، اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کردیا تھا‘‘۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن

’’اگر تو مسلمان زندہ رہنا چاہتا ہے تو یہ قرآن کے بغیر ممکن نہیں ہے‘‘۔
اپنی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں، آپ کو واضح طور پر نظر آئے گا کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن مضبوطی سے تھامے رکھا، اسی کو حقیقی معنوں میں اپنا ہادی و راہنما سمجھا، اپنے عمل، اخلاق اور معاملات کو اسی کے مطابق استوار رکھا تو انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر ان کا رعب اور دبدبہ قائم رہا، دنیا میں وہ سربلند اور غالب رہے اور اسلام کا جھنڈا چہار دانگ عالم میں لہراتا رہا، لیکن جیسے جیسے وہ کتاب اللہ سے بے پروا اور نور و حکمت کے اس خزینہ سے بے تعلق ہوتے چلے گئے، ویسے ویسے ان پر زوال کے سائے گہرے ہوتے گئے اور وہ بتدریج فساد اور انحطاط میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور نتیجتاً مغلوب ہوگئے۔ چنانچہ سب سے پہلے ان کے عقائد خراب ہوئے، پھر اعمال بگڑے، پھر سنت کی جگہ بدعت نے لے لی، پھر ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا، وہ بیشمار فرقوں اور قومی و نسلی و جغرافیائی تعصبات میں تقسیم ہوگئے۔

بقلم: مولانا سید عبدالوہاب شیرازی
ماہنامہ بینات، رمضان و شوال ۱۴۳۵ھ