کوئی مانے یہ نہ مانے یہ ایک اٹل حقیقت ہے، کائناتی سچ ہے اور پتھر پر کھینچی ہوئی ان مٹ لکیر ہے کہ پاکستانی معاشرے میں جو افراتفری، دنگافساد، بدامنی اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے، اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ ہمارا تمام تر نظام معیشت سودی لین دین پر مبنی ہے، اسی کی نحوست اور نجاست نے ہمارے سماج کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ سود کے بچھونے اپنا زہر پورے معاشرے میں گھول رکھا ہے۔ مال ودولت کی سوسائٹی میں وہی حیثیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں خون کی … اگر خون گندہ ہو جائے اور اس میں زہریلے جراثیم پیدا ہو جائیں تو انسان ایک زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے، اسی طرح اگر معیشت میں سود جیسی حرام شے داخل ہو جائے تو سماج رذائل اخلاق کا گڑھ بن جاتا ہے۔ حرص وہوس اور لالچ وطمع اس میں گندے خون کی طرح گردش کرنے لگتی ہے، سید مہر الدین افضل نے کیا خوب تحریر فرمایا ہے کہ :

”سود دراصل خود غرضی، بخل، تنگ نظری اور سنگ دلی جیسی صفات کی پیداوار ہے اور وہ اپنی خصوصیات کو انسانوں میں پیدا کرتا اور ترقی دیتا ہے، اس کے برعکس صدقات نتیجہ ہیں، فیاضی، ہم دردی، فراخ دلی اور اعلیٰ ظرفی جیسی صفات کا … اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں ، کون ہے جو اخلاقی صفات کے دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموعے کو بدترین اور دوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو؟ “ اس اقتباس کو انفرادی سطح سے بالاتر کرکے اجتماعی معاشرت پر رکھ دیں، صاف پتہ چل جائے گا کہ ہمارے سماج میں بگاڑ کیوں پیدا ہوا ہے ؟ اور دن بدن سماجی انحطاط میں اضافہ کیوں ہوتا جارہا ہے؟ سودی لین دین نے دولت کی ہوس کو حسد، حقارت اور تکبر میں بدل دیا ہے اور ایک ایسی ”Rat Race“ شروع ہوچکی ہے، جس کا انجام دونوں جہانوں میں ذلت، رسوائی او رناکامی ہے۔ کئی لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ساری ہی دنیا میں سودی نظام معیشت چل رہا ہے تو پھر ناداری اور خواری صرف ہم پر کیوں گر رہی ہے؟ اس کا جواب بڑا سیدھا ساد ھا او رمختصر ہے: ” ہم نے پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم یہاں خدا تعالیٰ اور اس کے حبیب پاک کا قانون نافذ کریں گے، اس کے برعکس ہم نے سودی لیں دین کو جاری وساری کرکے خدا پاک اور سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے اعلان جنگ کا جواب دینا شروع کر دیا، نتیجہ بالکل ظاہر وباہر ہے، تمام شعبہ ہائے حیات سودی بچھو کے زہر سے بھر گئے۔“ روزنامہ امت میں، میں نے سود کی لعنت کے ضمن میں کئی کالم لکھے، جنوری2013ء میں اس حوالے سے میرا کالم” چالوکھاتہ“ شائع ہوا۔ م۔ف۔ کی دردناک کہانی پر مشتمل اس کالم میں، میں نے عرض کیا تھا کہ انٹرنیشنل سطح کے ادارے ہوں، یا پھر قومی اور مقامی بینکاری کا نظام یا پھر گلی گلی گھوم کرا ور دکانوں کو سودی اڈا بنا کر سودی قرضے دینے والے افراد ہوں، سب کا طریقہ واردات ایک جیسا ہے، یعنی سود کی متعین کردہ شرح پر مخصوص رقم کا قرضہ دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس کی مالیت کی کوئی شے گروی رکھ لی جاتی ہے۔ ”چالو کھاتہ“ شروع ہو جاتا ہے ، ہر ماہ طے شدہ رقم کی قسط سود خوار ادارے یا ملعون شخص کو ادا کی جاتی ہے، اگر درمیان میں قسط ادا نہ کی جائے تو رقم مرکب سودی قسط کی شکل اختیار کرکے بڑھ جاتی ہے۔ اصل رقم پوری لوٹانے او رمرکب سود واپس کرنے پر گروی شدہ شے کی واپسی ممکن ہوتی ہے ، مگر اس دوران سود پر قرضہ لینے والا اتنا کنگال اور بے حال ہوچکا ہوتا ہے گویا شیطان نے اسے چھو کر باؤلا کر دیا ہو یا تو وہ خود کشی کر لیتا ہے یا منظر عام سے غائب ہونے کی راہ فرار اختیار کر لیتا ہے۔ م۔ف کی الم ناک کہانی اس کا سچا ثبوت ہے۔ سودی مال گھر میں گھستا ہے تو اس کی نحوست سے پورا گھرانہ آپس میں بے برکتی ہونے کے سبب لڑ پڑتا ہے ، یہاں تک کہ روزہ مرہ کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ آپ سود کی نجاست کو م۔ف کے کنبے سے اٹھا کر پورے ملک پر منطبق کرکے مشاہدہ کر لیں، ایک سی صورت حال ملے گی۔ سودی قرض خواہوں کاخوف، معاشرتی بے برکتی اور آپس میں زبردست مار کٹائی، سود کیسی بڑی لعنت ہے! اس کی مذمت کس شدت سے کی گئی ہے اور اس کی سزا کیسی بھیانک ہے! اس ضمن میں قرآن اور حدیث ہماری راہ نمائی کرتے ہیں او رعلمائے حق ہمیں اس حوالے سے صراط مستقیم پر چلاتے ہیں۔

آج سود کے بچھو کے زہر کی بابت مکُر ر خامہ فرسائی اس لیے کر رہاہوں کہ کئی دنوں سے یہ خبر میرے سامنے رکھی ہوئی ہے۔جس نے گویا جھیل کے پانی میں کنکر پھینک کر ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس خبر کو حرف بحرف آپ کے ساتھ شیئر کروں اور حرف آخر میں چند جملوں میں عرض کروں کہ پوری قوم سود کے ریشمی پھندے سے خود کو کس طرح آزاد کراسکتی ہے! خبر کا متین ملاحظہ فرمائیے۔” حکومت نے سود سے پاک نظام کے لیے کیا اقدامات کیے؟ شرعی عدالت کا استفسار۔ حکومتی وکیل پیش نہیں ہوا، قرآن حکیم میں سود کو حرام قرار دیا گیا، آج انسان اپنی عقل کی بلندی پر پہنچ کر اس نظام کو درست قرار دے رہا ہے۔ کیا حکومت نظام چلانے کے لیے اسٹیٹ بینک کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے؟ چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت ریاض احمد خان۔ سود سے متعلق شرعی حکم پر سب کا اتفاق ہے، تاہم ملکی معاش او رمعروضی حالات کو مدنظر رکھ کر مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ اسٹیٹ بینک کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل۔10 عدالتی معاونین کو نوٹس جاری۔ وفاقی شرعی عدالت نے حکومت سے ملک میں سود سے پاک معیشت کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ عدالت نے ملک میں نافذ سودی نظام کے حوالے سے عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی معاونین آئندہ سماعت پر عدالت میں موجودرہ کر فریقین وکلاء کے دلائل سنیں، تاکہ وہ عدالت کی معاونت کر سکیں۔ عدالت نے فریقین کے وکلا کے علاوہ دیگر ایسے علماء یا اسکالرز، جو عدالت کی مدد کرنا چاہتے ہیں، کو ہدایت کی ہے کہ وہ رجسٹرار کے پاس اپنی تعلیمی اسناد دکھا کر اپنا مؤقف تحریری طور پر جمع کرا دیں۔ تحریری مواد کا جائزہ لے کر عدالت فیصلہ کرے گی کہ مقدمے میں ان کے دلائل سنے جائیں یا نہ سنے جائیں۔ عدالت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے وکیل سلمان اکرم راجا کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر اپنے دلائل مکمل کریں او راپنی معروضات تحریری صورت میں بھی عدالت میں جمع کرائیں۔ عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دی ہے۔29 اکتوبر بروز جمعرات چیف جسٹس ظہور اور احمد شیوانی پر مشتمل 4 رکنی فاضل بینچ کے روبرو جٹس ڈاکٹر فدا حسین، جسٹس شیخ نجم الحسن اور جسٹس ظہور احمد شیوانی پر مشتمل 4 رکنی فاضل بینچ کے روبرو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے، تاہم اٹارنی جنرل سلمان بٹ عدالت عظمیٰ میں مصروفیت کے باعث حکومتی پالیسی بتانے کے لیے پیش نہ ہو سکے۔

عدالت نے دوران سماعت سوال اٹھائے کہ بتایا جائے کہ حکومت نے ملک میں سود سے پاک معیشت کے نظام کے نفاذ کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ کیا سرمائے کی بنیاد پر کوئی شخص دوسرے سے منافع لے سکتا ہے؟ بتایا جائے کہ سرمایہ کیا ہوتا ہے؟ کیا پیسے خرچ کرنے والا شخص ( سرمایہ کار) صرف منافع کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ کیا حکومت نظام چلانے کے لیے اسٹیٹ بینک کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے؟ کیا سود اور ربا کے معنی ایک ہی ہیں؟ دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس ریاض احمد خان نے کہا کہ قرآن حکیم میں سود کو حرام قرار دیا گیا ہے اور آج انسان اپنی عقل کی بلندی پر پہنچ کر اس (نظام) کو درست قرار دے رہا ہے۔ دنیا کے کچھ ممالک میں سود کے بغیر نظام معیشت چل رہا ہے۔ یہ بتایا جائے کہ سود سے پاک نظام کے اطلاق کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں عدالت ضروری معاملات کے بارے میں جاننا چاہتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں عدالتی دائرہ اختیار کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ عدالت نے پوچھا کیا آئین میں ربا اور سود کی تعریف موجود ہے؟ تو سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ان کی تعریف آئین میں موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں موجودہ نظام کے بارے میں فیصلے میں دی گئی سفارشات اپنی جگہ پر موجود ہیں، تاہم یہ تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت دینی معاملے سے خائف ہے، کیوں کہ بعض حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ ملک میں دینی اور لادینی قوتوں میں اختلاف ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، ملک کے تمام افراد ”شرعی حکم“ کے معاملے میں ایک ہی نقطے پر متفق ہیں۔ تاہم ہمارے ملک کے معاشی معروضی حالات کو سامنے رکھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ شرعی عدالت اور عدالت عظمی کے شریعت بینچ کے فیصلوں میں دو نکات سامنے آئے ہیں، ایک نکتہ شرعی حکم کے حوالے سے ہے، جب کہ دوسرا شرعی احکامات کے اطلاق کے بارے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس معاملے میں سنجیدہ کام کیا ہے اور مقدمے کی سماعت کے دوران تمام معاملات عدالت اور عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیے جائیں گے۔ انہوں نے و فاقی شرعی عدالت کے 1992ء میں سودی نظام کے خاتمے کے حوالے سے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی متبادل نظام یا نعم البدل نہ ہو تو کچھ عرصے کے لیے اس قباحت کو قبول کر لیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس ریاض احمد خان نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موجودہ نظام کا کوئی متبادل نہیں اور یہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا اور اسٹیٹ بینک بھی اس نظریے کے تحت چلتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اس نظام میں کچھ معاملات کا حل تو موجود ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ملک میں افراط زر بڑھنے سے روکنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور ریاست نے پیسے کی سپلائی کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے، ملک میں ایک نظام موجود ہے اور ملک ایک بڑے مربوط عالمی نظام کا حصہ ہے اور اس نظام کے خلاف احکامات جاری کرتے وقت حقیقت کا ادراک نہیں کیا گیا۔ ہم پوری دنیا کے ساتھ روابط ختم نہیں کرسکتے، کیوں کہ ملکی معیشت کا تعلق پوری دنیا سے جڑا ہوا ہے، عدالت کو شخص او رمالی ترسیل کے معاملات دیکھنا ہوں گے، اگر سرمایہ کار کو تحفظ نہیں ملے گا تو فیکٹریاں دوسرے ممالک منتقل ہو جائیں گی۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مروجہ اسلامی قوانین کے مطابق سرمایہ کار منافع اور نقصان میں شراکت دار ہے اور اسلامی قانون کے مطابق دونوں افراد کی محنت کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینک سرمایہ پیدا کرتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ بینک کے سرمایہ پیدا کرنے کے نظریے سے اتفاق نہیں کرتے، کیوں کہ بینک تو ایک شخص کے جمع کرائے گئے پیسے آگے دوسرے افراد کو زائد منافع پر دیتا ہے اور اس شخص کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے، جس نے پیسہ رکھا ہوا ہے او رحکومت بھی اسٹیٹ بینک سے پیسہ لیتی ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ حکومت نفع بخش ادارہ نہیں ہے، اسے ملازمین کو تنخواہیں دینے اور حکومتی معاملات چلانے کے لیے پیسہ، ٹیکسوں سے حاصل کرنا ہوتا ہے یا پھر بینکوں سے قرض لے کر کام چلایا جاتا ہے۔ عدالتی استفسار پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کچھ آزاد اور کچھ حکومت کے کنٹرول میں ہے، کیوں کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹرنگ پالیسی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے، تاہم مالی پالیسی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ اسٹیٹ بینک حکومت کو قرض دینے سے انکار نہیں کر سکتا او رحکومت کو اسٹیٹ بینک یا کسی بھی بیرونی ادارے سے قرض کی صورت میں لی گئی رقم پر ”سود“ دینا پڑتا ہے او رکوئی عدالت حکومت کو ہدایت نہیں دے سکتی کہ وہ فلاں پالیسی اپنائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، اس لیے وہ اسٹیٹ بینک کو کنٹرول کرتی ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سودی نظام کے خاتمے کے حوالے سے ایک کمیشن بھی بنا تھا، اس کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی جائے گی۔“

کالم کے آخر میں ہر طبقے کے شہری سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کے کسی بھی حصہ میں رہتے ہوں، خدا را کبھی سود پر ایک ٹیڈی پیسہ بھی قرض نہ لیں۔ نہ تو کسی بینک کے سنہرے جال میں پھنسیں اور نہ ہی گلی گلی پھرنے والے سود خوروں کے شکنجے میں خود کو جکڑنے کا موقع دیں۔ یاد رکھیے گا!! سودی پیسہ ذلت، رسوائی، ناداری، خوف، اندیشوں اور وسوسوں کی تاریک وادی ہے، جس میں شرفاء اور سفید پوش گھرانوں کی بربادی چھپی ہوئی ہے۔ سودخور کا انجام درد ناک، آخرت میں بڑا بھیانک اور ہیبت ناک ہے اور سود پر قرضہ لینے والے کے لیے یہی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ م، ف کا گھرانہ کس اذیت سے دو چار ہے، میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ اس جیسے ہزاروں کنبے دکھ کی کیسی بھٹی میں جل رہے ہیں، اس کااندازہ مجھے ان خطوط، کالز، میلز اور بالمشافہ ملاقاتوں سے ہوتا ہے، جو میری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں۔

یا الہٰی! ہمیں سود خوری اور سودی کمائی کی نحوست اور ناپاکی سے بچا، آمین۔

یا الہٰی! ہمارے ملک میں سود سے پاک نظام کو جاری وساری فرما دے اور جو افراد اس حوالے سے کوششیں کررہے ہیں، انہیں اپنی شان کے مطابق اجر عظیم سے نواز دے۔ آمین! (بہ شکریہ روزنامہ اُمت)

پروفیسر طارق صدیق
ماہنامه الفاروق
جمادی الاول 1437ھ

baloch

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

6 months ago