Categories: شخصیات

علامہ شبلی بن حبیب اللہ بندولی نعمانی

محترم فاضل علامہ شبلی بن حبیب اللہ بندولی اپنے زمانہ کے یکتا اور بڑائی علم اور شان میں سب کے متفق علیہ تھے۔
سنہ ۱۲۷۴ھ میں اپنے دیہات بندولی جو اعظم گڑھ کا ایک دیہات تھا پیدا ہوئے۔ کچھ دن مولانا فاروق بن علی عباسی چریا کوٹی سے عربی کی کتابیں پڑھیں پھر فن منطق و حکمت کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان علوم کو بھی ان ہی سے حاصل کیا بلکہ ان میں دوسروں کے مقابلہ میں نام پیدا کیا اور ایک مدت تک ان کے پاس ہی رہے۔ پھر رام پور شہر کا سفر کیا اور وہاں علوم فقہ و اصول شیخ ارشاد حسین عمری رامپوری سے حاصل کئے۔ پھر لاہور تشریف لے گئے اور فنون ادبیہ شیخ فیض الحسن سہارنپوری سے جو حماسہ کے شارح ہیں حاصل کئے۔ پھر سہارنپور تشریف لے گئے، وہاں شیخ احمد علی بن لطف اللہ ماتریدی سہارنپوری سے علم حدیث حاصل کیا۔ یہاں تک کہ اپنے زمانہ کے تمام لوگوں سے فنون انشاء و شعر و ادب و تاریخ اور دوسرے بہت سے علوم و فنون میں بڑھ گئے۔
اس زمانہ میں مذہب میں یہ بہت سخت تھے ایک زمانہ تک اہل حدیث سے مباحثہ کرتے رہے اور ایک کتاب ’’اسکات المعتدی‘‘ کے نام کی تصنیف کی اور رسالہ فاتحہ خلف الامام بھی تصنیف کیا۔ پھر مدرسۃ العلوم علی گڑھ مین تدریس کے عہدہ پر سرفراز ہوئے اس طرح مغربی اساتذہ کے ساتھ رہے اور ان کے ساتھ مذاکرہ کی خوب مجلسیں قائم ہوئیں۔

اعزاز طبقہ رابعہ و شمس الاسلام
نیز سیداحمد بن متقی دہلوی اور ان کی جماعت کے ساتھ رہے۔ بالآخر آپ کو مباحثہ سے پوری نفرت ہوگئی اس لئے اب علوم تاریخ، سیر کی طرف مائل اور ایک سیرۃ النعمانی یعنی سیرۃ ابی حنیفہ میں ایک کتاب الجزیہ اور ایک حقوق الزمیین اور ایک کتاب تاریخ علوم اسلامیہ اور ان کی تعلیمات کے سلسلہ میں لکھے۔
ان میں سے ہر ایک کتاب لوگوں میں بہت زیادہ مقبول ہوئی، اور پورے ملک ہندوستان میں ان کی بڑی شہرت ہوگئی۔ پھر ملک روم، شام اور مصر کا سفر کیا اور بڑے بڑے علم و دولت والے لوگوں سے ملاقات کی اور سلطان عبدالحمید عثمانی نے انہیں ایک نشان طبقہ رابعہ کا عطا فرمایا اور جب یہ ملک ہندوستان واپس تشریف لائے تو انگریزی حکومت نے ان کو ’شمس الاسلام‘ کا لقب دیا۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک یہ مدرسۃ العلوم میں رہے۔ پھر اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور حیدرآباد تشریف لے گئے۔ سید علی بلگرامی نے ان کو مبارک باد کہا اور ان کی شاندار تعظیم کی اور علوم و فنون کا ذمہ دار بنادیا، اس کے لئے انہوں نے وہاں پانچ سال قیام کیا پھر ملازمت ترک کرکے صرف ایک سو ماہوار پر ہی قناعت اس شرط کے ساتھ کی کہ ان کو حیدرآباد ہی میں رہنے پر مجبور نہیں کیا جائیگا، اور پھر لکھنو تشریف لے آئے۔
بالآخر آپ ندوۃ العلماء کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ اس کے سرکردہ ممبروں میں سے ایک تھے جس کی آپ نے ۱۳۱۷ھ میں بنیاد رکھی تھی اور اسی دارالعلوم کے ممبروں نے آپ کو متولی بنادیا، اس طرح آپ نے اس مدرسہ کی نظامت سنبھالے ہوئے آٹھ برس کی مدت گذار دی۔

پاؤں سے معذوری
اتفاق ہے کہ آپ سنہ ۱۳۲۴ھ میں اعظم گڑھ کے اپنے گھر میں اپنی بندوق صاف کررہے تھے کہ غلطی سے وہ چل پڑی اور آپ کے بائیں پیر کے ہڈی کو توڑتے ہوئے نکل گئی جس کے فوراً بعد انگریز ڈاکٹر نے آپ کے اس پاؤں کو آپ کی پنڈلی سے ہی کاٹ دیا اس کے عوض چمڑے اور لکڑی سے ایک پاؤں بنا کر اسکے باندھنے کے لئے مضبوط رسیاں لگادیں جس کے خول میں آپ اپنا کٹا ہوا پیر ڈال کر انہیں رسیوں سے باندھ کر ویسے ہی چلتے جس طرح کوئی تندرست آدمی چلتا ہو۔

خداداد صلاحیتیں
آپ کا حافظہ بہت ہی قوی تھا بیک وقت آپ کسی عبارت کا ملاحظہ فرماسکتے تھے تقریباً اس کی چھپی ہوئی ضمیروں کو بھی صاف بیان کرتے اور چھپے ہوئے معانی کو ظاہر فرمادیتے، باریک باتوں کو دیکھتے اور دلیل کو قوی فرمادیتے، بہت جلد اپنے شرکائے مجلس پر حاوی ہوجاتے اس لئے کسی بھی موضوع میں کوئی شخص بحث نہیں کرسکتا تھا، مگر دلائل کے ساتھ۔ پھر بھی بسا اوقات اس کی دلیل خاموش نہیں کرسکتی تھی۔ تاریخ اسلام اور تمدن اسلامی سے بہت زیادہ واقف تھے، بہت سے ادب اور اشعار کو محفوظ رکھتے، مطالعہ بہت وسیع تھا۔ سارے مذہب و ملت کے اخلاق اور ان کے فلسفہ کی جہاں تک ممکن ہوسکتا کسی کو نہیں چھوڑتے بلکہ ساری کتابوں کا مطالعہ کرتے، اور ان کے مد مقابل کوئی ایسا نہ تھا جو حاضر جوابی میں آپ کی طرح جلد جواب دیتا۔
اجنبی اور نادر باتوں کا آپ کی طرح بدیہی جواب دینے والا کوئی اور نہ تھا۔ اسی طرح فارسی و اردو اشعار بھی بر محل پیش کرسکتے تھے اور ہر علم میں آپ مذاکرہ اور مباحثہ کے لئے کی توجہ پوری رغبت اور خوشی ہوتی۔ اسی طرح تصنیف اور خطبے دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتے، ان تمام خصوصیتوں کے وجہ سے اپنی ہی رائے کو سب سے بہتر قرار دیتے، کسی کی دلیل کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتے اگر چہ وہ دوسرا شخص دلیل کا پختہ ہوتا۔
آپ کے اندر کچھ رنگ بدلنے کی بھی عادت تھی اور آپ کی یہ بھی عادت تھی کہ آپ نے جب کبھی کسی مسئلہ میں بحث کرتے تو اس کی مختلف تعبیریں کرتے، اور اگر کبھی کوئی شعر کہتے تو دوسرے شعر اور ترجمہ سے ہی اس کی تشریح فرمادیتے، گویا کہ آپ کا مخاطب عجمی ہے اور آپ خود عربی ہیں یا یہ کہ آپ کا مخاطب عربی اور فارسی زبان بالکل نہیں جانتا ہے لیکن آپ خود مختلف زبانوں اور باریک معانی کے ماہر ہونے کی وجہ سے اسے سمھجانا چاہتے ہیں۔
آپ اصول میں معتزلی تھے اور اشاعرہ کے سخت مخالف تھے اس بحث میں آپ کی بہت ساری کتابیں اور رسالے بھی ہیں جیسے کہ آپ کی کتاب جو فن کلام اور تاریخ کلام میں ہے اور آپ کے بہت سے مقالے ہیں جو رسائل شبلی اور مقالات شبلی میں موجود ہیں۔

تصانیف
آپ کی تصانیف بھی ہیں جنہیں میں نے ابھی ذکر نہیں کیا ہے مثلاً: کتاب فی سیرۃ الغزالی، کتاب فی سیرۃ العارف الرومی، نقد شعر اور اس پر حکم، آپ کی ایک بسیط کتاب بھی ہے جو سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت پر ہے اور ایک کتاب وہ ہے جس میں مشہور و معروف ہندی شعراء، فن مرثیہ کے مشہور شہسوار انیس و دبیر کے درمیان موازنہ ہے اور ایک کتاب ازالۃ اللوم فی ذکر اعیان القوم وہ ہے جس میں قوم کے بڑے لوگوں کا ذکر کرکے ان کے ذمہ لگی ہوئی ملامت کو رد کرنا ہے۔
ایک کتاب شعر العجم ہے جو پانچ ضخیم جلدوں میں ہے اور یہی ان کی تمام تالیف شدہ کتابوں میں سب سے افضل ہے۔ اس علم کے جاننے والوں میں تمام لوگوں نے ان کی بہتری اور عمدگی کا اقرار کیا ہے، ایک کتاب جرجی زیدان کی عربی زبان کے مقولوں میں عیوب نکالے گئے ہیں اور ایک مقالہ ہے جو مکتبہ اسکندریہ کے بارے میں ہے، آپ کا ارادہ اصل میں یہ تھا کہ اس کو پانچ جلدوں میں تصنیف کریں لیکن یہ ارادہ پورا نہ کرسکے۔ آخر میں اسی دارالعلوم کے بعض طلبہ اس کی تدوین کے لئے تیار ہوئے اور اعظم گڑھ میں ان لوگوں نے اس کے لئے ایک بڑی بنیاد رکھی جس کا نام انہوں نے دارالمصنفین رکھا۔
بالآخر سنہ ۱۳۳۲ھ میں ماہ ذی الحجہ کے ایک دن باقی رہتے ہوئے بروز بدھ اعظم گڑھ میں انتقال فرمایا۔

مأخوذ: نزہۃ الخواطر آٹھویں جلد (اردو)

baloch

Recent Posts

دارالعلوم مکی زاہدان کے استاد کو رہا کر دیا گیا

مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سیکورٹی حملے کے ردعمل میں دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کا بیان

دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…

5 months ago

زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں درجنوں سنی طلبہ گرفتار

سنی‌آنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…

5 months ago

امریکہ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنا ایک “انسانیت سے دشمنی” ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…

5 months ago

حالیہ غبن ’’حیران کن‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…

5 months ago

دنیا کی موجودہ صورت حال ایک “نئی جہاں بینی” کی متقاضی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…

5 months ago