- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

صحافت اور سیاست

صحافت اور سیاست کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ دنیا بھر کے صحافیوں نے سیاسی حالات کی رپورٹنگ‘ تجزیہ نگاری اور کالم نگاری سے نام کمایا۔
کئی ممتاز صحافی اقتدار کا مزہ چکھنے کے لئے صحافت کو خدا حافظ کہہ کر حکومتوں میں عہدے قبول کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں کئی نامور صحافی سیاسی عہدوں کی پیشکش کے سامنے ڈھیر ہوتے رہے اور فلور کراس کر کے اہل اقتدار سے جا ملے۔
ہمارے وطن عزیز کی تاریخ میں کئی ایسے صف اول کے صحافی ہیں جنہیں انتہائی منفعت بخش عہدوں کی پیشکش کی جاتی رہی لیکن انہوں نے صحافت کو نہ چھوڑا۔ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کو جنرل ضیاءالحق نے مجلس شوریٰ کا رکن بننے کی پیشکش کی جو انہوں نے قبول نہ کی اور صحافت کے ساتھ اپنی وابستگی اور کمٹمنٹ جاری رکھی۔
نوے کی دہائی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں جناب مجید نظامی کو پاکستان کی صدارت کا منصب پیش کیا گیا جو انہوں نے قبول کرنے سے معذرت کر لی۔
وزیراعظم جونیجو نے پنجاب کی گورنری پیش کی لیکن آپ نے بصد شکریہ معذرت کر دی۔ پاکستان میں ایک انگریزی روزنامہ کے ایڈیٹر الطاف حسین نے پچاس کی دہائی میں کابینہ میں عہدہ قبول کر کے صحافیوں کے لئے سیاسی اقتدار کا حصہ بننے کا دروازہ کھولا۔
اس کے بعد کئی صحافی حکومت اور سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔
بھٹو مرحوم کے دور میں انگریزی اخبار سے وابستہ ایک اور صحافی نسیم احمد وفاقی سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے اور اس منصب پر کام کرتے رہے۔
اسی دور میں مولانا کوثر نیازی مرحوم وزیر حج اور وزیر اطلاعات رہے۔ حنیف رامے کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ وہ صحافی تھے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی جوائن کی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے ۔
بے نظیر بھٹو کے دور میں اسلام آباد سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار کی ایڈیٹر ملیحہ لودھی نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے منصب قبول کر لیا۔
وہ جنرل مشرف کے دور میں بھی امریکہ میں پاکستان کی سفیر اور برطانیہ میں پاکستان کی ہائی کمشنر رہیں۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے سفارت کا عہدہ کوئی سیاسی عہدہ نہیں ہوتا بلکہ سفیر ایک ٹیکنوکریٹ ہوتا ہے لیکن سفیر بننے کے بعد صحافی صحافی نہیں رہتا وہ سرکار کے خزانے سے تنخواہ وصول کرتا ہے۔ مشاہد حسین سید جو پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرار تھے اور جنرل ضیاءنے انہیں ان کے ریڈیکل خیالات کے باعث پنجاب یونیورسٹی سے فارغ کیا تو وہ صحافت سے وابستہ ہو گئے اور اسلام آباد سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار دی مسلم کے ایڈیٹر رہے انہوں نے 1987ءمیں بھارتی صحافی کلدیپ نیئر کی ڈاکٹر اے کیو خان سے ملاقات کرائی اور ڈاکٹر صاحب سے انٹرویو کرانے کے بعد کھڑے ہونے والے تنازعہ کی زد میں آ کر دی مسلم کی ادارت سے الگ ہوئے تو انہوں نے فری لانس صحافی کے طور پر کام شروع کیا۔ وہ ”دی نیشن“ کے باقاعدہ کالم نگار رہے۔
1992ءمیں وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے اور وزیراعظم نوازشریف کے میڈیا کے خصوصی معاون مقرر ہوئے۔
نوازشریف کے دوسرے دور حکومت 1997-99 تک وہ وزیر اطلاعات و نشریات رہے۔ مشرف دور میں حراست سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے مسلم لیگ (ق) جوائن کر لی اور اب وہ (ق) لیگ کے سینیٹر اور سینیٹ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین بھی ہیں۔ حسین حقانی نے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور صحافی کیا تھا۔
وہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے پاکستان میں بیورو چیف تھے۔
جنرل ضیاءالحق کے مرنے کے بعد انہوں نے صحافت کو خیرباد کہہ دیا اور مسلم لیگ (ن) کے میڈیا ایڈوائزر بن گئے۔
وزیراعظم نواز شریف نے انہیں سری لنکا میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا۔ جب نواز شریف کی پہلی حکومت کو غلام اسحاق خان نے گھر بھیجا تو حسین حقانی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور انہوں نے پی پی پی جوائن کر لی۔
بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں وہ وفاقی سیکرٹری اطلاعات اور پھر چیئرمین ہا¶س بلڈنگ فنانس کارپوریشن تھے۔ جنرل مشرف نے جب ٹیک اوور کیا تو حسین حقانی ان کی حکومت میں شامل ہونے کے لئے لابنگ کرتے رہے مگر جب کام نہ بنا تو وہ امریکہ سدھار گئے اور جب پیپلز پارٹی کی 2008ءمیں حکومت بنی تو انہیں واشنگٹن میں پاکستانی سفیر بنا دیا گیا۔
کچھ دوسرے صحافی بھی سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ صدیق الفاروق ایک انگریزی خبر رساں ایجنسی سے وابستہ تھے۔ انہوں نے بھی 90ءکی دہائی میں مسلم لیگ (ن) سے وابستگی اختیار کر لی اور نواز شریف کی دوسری حکومت میں وہ ہا¶س بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے سربراہ رہے۔
بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں ایک نامور صحافی اظہر سہیل نے ڈائریکٹر جنرل اے پی پی کا عہدہ سنبھال لیا۔
شیری رحمن جو نیوز لائن میگزین کی ایڈیٹر تھیں 2008ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئیں اور پہلے وزیر اطلاعات بنیں اور پھر امریکہ میں سفیر مقرر ہوئیں۔
جب صدر فاروق خان لغاری نے بینظیر کی دوسری حکومت توڑی تو تین صحافیوں ارشاد احمد حقانی‘ نجم سیٹھی اور مصطفیٰ صادق نے حکومت میں شمولیت اختیار کر لی۔
نجم سیٹھی نے دوسری مرتبہ سیاسی عہدہ قبول کیا ہے وہ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ ہیں۔ کئی صحافی جو ایک مرتبہ اقتدار کا جھولا جھول لیتے ہیں انہیں وہ مزا چین نہیں لینے دیتا وہ پھر سیاسی عہدے قبول کر لیتے ہیں لیکن صحافت کے پیشہ سے کمٹمنٹ رکھنے والے صحافی سیاست کو صحافت سے کم تر سمجھ کر اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔

جاوید صدیق
نوائے وقت