- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

زاہدان: ایرانی جامعات کے سنی طلبہ کاسالانہ اجتماع

ایرانی اہل سنت کے سب سے بڑے دینی ادارہ ’دارالعلوم زاہدان‘ کی انتظامیہ کی دعوت پر ایران کے مختلف جامعات کے سنی طلبہ اور بعض اساتذہ سات مارچ 2013ء کو زاہدان میں اکٹھے ہوگئےجہاں ’عصرِحاضر؛ اسلامی بیداری، انسانی حرمت، حریت اورمعاشرتی انصاف کادور‘ کے موٹو میں ان کاقومی اجتماع منعقد ہوگیا۔

اس روحانی اور علمی اجتماع کاباقاعدہ آغاز جمعرات سات مارچ کو ہوا، لیکن اس سے قبل بدھ کی شام طلبہ نے اپنی ایک محفل میں شرکت کی جہاں بعض یونیورسٹیز کے طلبہ نے اپنے مقالے پیش کیے۔

اس میٹنگ کا آغاز ’زابل یونیورسٹی‘ کے طالب علم’عزیزالرحمن صحت‘ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد’یونس ناروئی‘ نے اپنا مضمون پیش کیا ۔ ان کے مضمون کا عنوان ’محمدﷺ؛ انسانیت کے ناجی‘ تھا۔ انہوں نے لکھا: ایک ارب سے زائد مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت پر گواہی دیتے ہیں، ان کے علاوہ متعدد غیرمسلم دانشور آپﷺ کی عظمت کے معترف ہیں۔ لہذا پوری دنیا کو چاہیے اس ذات اقدس کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرے؛ آپﷺ انسانیت کے دشمن نہیں تھے جیسا کہ اسلام دشمن پروپیگنڈا کررہے ہیں بلکہ آپ انسانیت کو نجات دینے کیلیے مبعوث ہوئے تھے۔ آپ کا دین مصالحت اور مکالمے پر یقین رکھتاہے۔

مولوی بہزاد فقہی کاخطاب
محمدیونس کے مقالے کے بعد صوبہ خراسان سے تعلق رکھنے والے عالم دین “مولوی بہزادفقہی” نے حاضرین سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا: اگرہم مسلمان اپنے عہدرفتہ اور ماضی کی عزت وکرامت چاہتے ہیں تو اس کی واحد راہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے رستے میں محنت اور مجاہدہ کریں۔ دورحاضرمیں دشمن کی کوشش ہے مسلمانوں میں مایوسی پھیلادے اور انہیں ان کے روشن ماضی اورعظیم تاریخ سے بیگانہ کردے؛ ان کا پروپیگنڈا ہے اسلام اور مسلمان آزادی وانصاف کے دشمن ہیں حالانکہ اسلام ہی نے انسانیت کو آزادی وحریت کا سبق سکھایا۔

انہوں نے مزیدکہا: سوال یہ ہے کہ کیا اس دور میں ہم صنعتی وسائنسی ترقی حاصل کرسکتے ہیں جب اس میدان کی بھاگ دوڑ مغرب ومشرق کے ہاتھوں میں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حکم الہی کے مطابق ہم محنت وکوشش کرنے پر مامور ہیں۔ محنت کے نتیجے میں بند دروازے کھل جاتے ہیں۔ جس ذات پاک نے کشتی نوح کو ساحل نجات تک پہنچایا وہ ہمیں بھی نجات دلاسکتی ہے۔ دشمن کے مکروحیلے ارشادخداوندی کے مطابق مکڑی کے جال کی طرح سست بنیاد ہیں۔ اگر ہم اصحاب کہف کی طرح قربانی دینے تیار ہوجائیں اور دنیا کی نازونعمت چھوڑکر آخرت کیلیے توشہ تیار کرنے میں لگ جائیں تو تکوینی نظام تک ہمارے لیے بدل سکتاہے جس طرح سورج کا نظام اصحاب کہف کی خاطر بدل گیا۔

خراسان کے نوجوان عالم دین نے اپنا خطاب علامہ اقبال لاہوری کے ایک جملے سے ختم کیا۔ انہوں نے کہا: علامہ اقبال نے دنیا کی چوٹی کی یونیورسٹیز دیکھا تھا، مغرب کا فسلفہ پڑھ کر ان کی خامیوں کو قریب سے مشاہدہ کیا۔ان کا خیال ہے مسلم امہ کی کامیابی کاراز  آرام اور تن آسانی چھوڑنے میں ہے۔ جب کسی معاشرے میں لوگ غفلت اور سستی کا شکار ہوجائیں تو وہاں کوئی دانشورظاہر نہیں ہوگا اوراس معاشرے کا انجام تباہی وہلاکت ہے۔

ایرانی جامعات کے سنی طلبہ قومی اجتماع کی پہلی نشست میں
ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے سنی طلبہ کے کنونشن کا باقاعدہ آغاز جمعرات کی صبح دارالعلوم زاہدان کے احاطے میں واقع جامع مسجدمکی میں ہوا جس میں متعدد علمائے کرام اور دینی وسماجی شخصیات شریک تھیں۔
دارالعلوم زاہدان کے تجویدوقراء ات کے استاذ قاری ابومصطفی سالارزہی کی خوبصورت آواز میں تلاوت سے محفل کی ابتدا ہوئی۔ ان کے بعد چابہارانٹرنیشنل یونیورسٹی کے طالب علم ’عبدالوحید بارانی‘ اسٹیج پر براجماں ہوئے جنہوں نے ’ثقافتی شعور، اسلامی بیداری کی کلید‘ کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا۔

اپنے مقالے کے ایک حصے میں اسلام میں انصاف کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا: انصاف انسانی فطرت اور حیات کے عین مطابق ہے جس پر اسلام میں بہت تاکیدآئی ہے؛ جتنی تاکید اسلام میں انصاف پر آئی ہے کسی بھی دین میں اس قدر زور نہیں دیاگیاہے۔

دارالعلوم زاہدان میں شریک دورہ حدیث کے طالب علم ’ذبیح اللہ براہوئی‘ نے بھی اس اجتماع میں اپنا مضمون پیش کیا جس کا عنوان ’حالیہ انقلابات پردینی اسباب کا اثر‘ تھا۔ انہوں نے “پاک فطرت”، “اسلام اور اسلام پسندی”، “اسلامی شعائر کی گستاخی”، “نبی کریمﷺ کی توہین”، “فلسطین اور مسلمانوں کے قبلہ اول پر صہیونی قبضہ” ، “حکام کاامتیازی سلوک ورویہ” اور “دینی وفکری شخصیات” کے وجود کو حالیہ انقلابی تحریکوں پر براہ راست اثر دکھانے والی وجوہ قرار دیا۔

اس مقالے کے بعد دارالعلوم زاہدان کے بعض طلبہ نے ایک خوبصورت نظم پیش کرتے ہوئے حاضرین کی داد حاصل کی۔

“دارالعلوم زاہدان دانشوروں کی نظر میں”
سیستان بلوچستان یونیورسٹی کے ایک طالب علم ’محمود براہوئی نژاد‘ نے ایک تجزیاتی مضمون ’دارالعلوم زاہدان کا کردارومقام اکیڈمک شخصیات کی نظر میں ‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ انہوں نے لکھا تھا: ایران میں ہمیشہ دینی رجال نے اسلامی روح کو تروتازہ رکھنے کیلیے محنت کیاہے؛ دارالعلوم زاہدان کی تاسیس اور حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی انتھک محنتوں کی بدولت اس جامعہ کی دن دگنی رات چوگنی ترقی اس دعوے کی ایک دلیل ہے۔

براہوئی نژاد نے مزیدکہا: دارالعلوم زاہدان اور اس کے مہتمم شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید بلاتفریق مسلک وزبان سب کے خیرخواہ ہیں۔ کچھ انتہاپسند عناصر کے میڈیا ذرائع مسلسل سے آپ کی کردارکشی کی کوشش کرتے ہیں، حکومت اور شیعہ حضرات کے سنجیدہ حلقوں کو چاہیے ایسے عناصر کو لگام لگادیں جو اپنی حرکتوں کی وجہ سے قومی یکجہتی اور دینی اتحاد کو نشانہ بنارہے ہیں۔

انہوں نے کہا: دارالعلوم زاہدان سنی نوجوانوں کو عصری تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتاہے۔ اس کنونشن کا انعقاد اور جامعات کے طلبہ کی براہ راست یا بالواسطہ حمایت اس بات کا ثبوت ہے۔ آج اگرچہ معروضی حالات کی وجہ سے اہل سنت کے گریجویٹس کو امتیازی رویہ کا سامنا ہے اور انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے، لیکن ہمارا مستقبل روشن ہے۔ اگلی نسلیں زیادہ شعور حاصل کریں گی اور انہیں ان کے حقوق مل ہی جائیں گے۔ جس قدر عوام کے شعور میں اضافہ ہوگا اتنا ہی ان کے تعصب میں کمی واقع ہوگی۔ ہمیں ایک ایسے مستقبل کی تیاری کرنی چاہیے جب پوری دنیا میں ہمارے علوم اور تخصص کے محتاج ہوگی۔

اس اجتماع میں شریک کردستان کے عالم دین ’ماموستا شریفی‘ کے خطاب کے بعد کردی زبان میں ایک نظم پیش کی گئی۔ اس نشست کے آخری خطیب صدردارالافتاء دارالعلوم زاہدان مولانا مفتی محمدقاسم قاسمی تھے۔

مفتی محمدقاسم قاسمی کاخطاب
مفتی قاسمی نے ایرانی جامعات کے طلبہ کو ان کی آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا: ایسی محافل کے انعقاد کا مقصد صرف خیرخواہی ہے اور یہاں ہمارے عزیز طلبہ اپنے علمائے کرام سے ملاقات کرتے ہیں، ا ن کی باتیں سنتے ہیں اور اپنے مسائل ان کے گوش گزار بھی کرتے ہیں۔

اسلام مختلف بحرانوں کے سامنے کیسے ڈٹ کر باقی رہا؟ اس حوالے سے استاذ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: علامہ ابوالحسن علی الندوی رحمہ اللہ کے مطابق اسلام کی ذاتی طاقت اور مخلص وخیرخواہ شخصیات کے وجود کی وجہ سے اسلام نے سخت سے سخت بحرانوں اور مشکلات کا مقابلہ کیا۔ نیک لوگوں کی وجہ سے اسلام اور اسلامی تعلیمات ہمیشہ محفوظ رہے، مجدد جیسے ناموں سے ظہورپذیر ہونے والی شخصیات نے نوجوانوں کی حمایت پر اس مہم کو بخوبی سرانجام دیاہے۔ صدراسلام میں ابوبکرالصدیق، عمرفاروق اور مصعب بن عمیر جیسے نوجوانوں نے دین کی نصرت کی اور بعد میں محمدبن قاسم، سلطان محمدفاتح اور قتیبہ باہلی جیسے نوجوانوں نے اسلام کی حمایت میں ملحدوں کا مقابلہ کیا۔

’نداے اسلام‘ میگزین کے مدیراعلی نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: نوجوان طلبہ کو معلوم ہونا چاہیے ان کی عزت ومقام میں اضافہ تبلیغ دین کی صورت میں ہوگا۔ ایک طالب علم خود کو اللہ کا مامور سمجھ لے اور دوسروں کی بھی اصلاح کی کوشش کرے۔ یہی چیز انسان کی زندگی کو معنی دیتی ہے۔ زندگی کو بامقصد بنانا چاہیے، جو خود غافل ہو وہ دوسروں کو کیسے آگاہ کرسکتاہے، کوئی جاہل کسی کو عالم نہیں بناسکتا۔ جو کسی کی لالچ یا دھمکی کی پرواہ نہ کرے وہ اصحاب کہف کے نوجوانوں کی مانند ہوسکتاہے۔ مقصدیت سے عاری طالب علم ایک خشک پتے کی طرح ہے جو درخت سے الگ ہوچکاہے۔

مولانا قاسمی نے نوجوانوں کی بیداری اور شعور کو مشرق وسطی میں بپا ہونے والی بیداری کا اصل سبب قرار دیتے ہوئے کہا: خطے میں اٹھنے والی بیداری وآگاہی کی لہر نوجوان طبقے کی وجہ سے کامیابی تک جاپہنچی۔ ان نوجوانوں نے قرآن پاک کو اپنا قائد مان لیاہے اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کیلیے جان کی قربانی دینے کیلیے بھی تیار ہیں۔

مفتی محمدقاسم قاسمی نے اپنے خطاب کے آخر میں طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اللہ رب العزت سے اپنا تعلق مضبوط کیجیے اور سیرت نبویﷺ اور دیگر بزرگوں کے حالات کا مطالعہ کیاکریں۔

طلبہ کنونشن کی بعض جھلکیاں
نمازظہر اور کھانے کے بعد طلبہ نے مختلف ایٹمز اور شعبوں سے استفادہ کیا۔ دینی واصلاحی فائلز اپ لوڈ کرنے کیلیے مسجد کے ساتھ ایک ’بلوٹوتھ سٹیشن‘ قائم کیا گیا تھا۔ کتب میلہ میں چالیس فیصد ڈسکاؤنٹ سے طلبہ کو کتابیں خریدنے کا موقع بھی فراہم تھا۔ اس کے علاوہ داخلی مجلوں اور روزناموں کا میلہ بھی قائم تھا۔ ظہر سے مغرب تک دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے اخلاق، سیرت، تاریخ اور عقیدے کی کلاسیں قائم کیں جہاں طلبہ نے اپنے سوالات و شبہات کا جواب حاصل کیا۔

آخری نشست
ایرانی جامعات کے سنی طلبہ کے اجتماع کی آخری نشست جمعرات سات مارچ بعدنمازمغرب منعقد ہوگئی جو نمازعشاء تک جاری رہی۔ اس سیکشن کے خطیب حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید حفظہ اللہ تھے۔

’عصری ودینی علوم ایک دوسرے کے مکمل ہیں‘
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے اہم خطاب میں انسان کی کمزوریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج کا انسان مادیات اور سائنس میں ہوشربا ترقی اور کامیابیاں حاصل کرچکاہے۔ لیکن روحانی لحاظ سے انتہائی انحطاط وکمزوری کاشکارہے۔ اس کمزوری کا جبران مادی اشیاء سے نہیں ہوسکتا بلکہ معنوی غذاہی سے اس کمزوری کو دورکیاجاسکتاہے۔

مادی وروحانی شعبوں میں ترقی کو انسان کی کامیابی کے دوبازو قرار دیتے ہوئے انہوں نے مزیدکہا: جس طرح انسان کے مادی اور معنوی دونوں ابعاد ہیں، دونوں میں ترقی حاصل طلب ہے۔ سعادت وکامیابی کا راز  ان دونوں میں ہے۔ ان کاکام دوبازؤں جیسا ہے۔جب بندہ اخلاقیات کی چوٹیوں کو فتح کرکے اپنی اصلاح کراتاہے پھر وہ کامل انسان بن سکتاہے۔ افسوس کا مقام ہے آج کا انسان روحانی شعبہ سے غافل ہے اور فکرآخرت سے عاری؛ وہ یہ سمجھتاہے اس کی تخلیق دنیا اور دنیوی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کیلیے ہوئی، حالانکہ حقیقی استفادہ حتی کہ دنیامیں بھی روحانی ترقی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

قرآنی آیت: ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی‘‘ کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مادی اور روحانی نعمتوں کو ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث قرار دیا۔ انہوں نے کہا: اگرکوئی شخص محض مادی نعمتوں کے پیچھے پڑجائے اور روحانی نعمتوں سے کوئی حصہ حاصل نہ کرے تو ایسے فرد کے حق میں اللہ کی نعمتیں کامل نہیں ہیں۔ اسی لیے دینی اور عصری علوم اور سائنس کا حصول کسی بھی معاشرہ کیلیے ضروری ہے۔ ایک کامل اور مثالی معاشرے کو اسلامی شرعی علوم کے علاوہ عصری ودنیوی علوم کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشروں کو جیدعلمائے کرام کے ساتھ ساتھ ماہر ڈاکٹرز اور انجینئرز کی بھی ضرورت ہے۔

انہوں نے قرآن وسنت کو نبی کریمﷺ کے دواہم تحفہ اور کارہائے نمایاں قرار دیتے ہوئے کہا: قرآن پاک ایک زندہ اور ابدی معجزہ ہے جو ہمیشہ کفار کو چیلنج کرتاہے۔ جو اسے اللہ کا کلام نہیں مانتے تو اس کی مانند ایک آیہ پیش کریں، پہلے کوئی ایسا کرسکا نہ آیندہ کوئی شخص ایسا کرسکے گا اگر چہ وہ کھربوں ڈالر خرچ کردیں۔قرآن پاک ایک عظیم سرمایہ اور نعمت ہے جو صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ لہذا سب کو چاہیے قرآنی تعلیمات اور نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ کی اتباع کریں؛ مسلمانوں کی کامیابی اور عہدرفتہ کی خوشیاں اور عزت اسی طریقے سے دوبارہ حاصل ہوسکتی ہیں۔

‘اہل سنت’ ایران میں مہاجر نہیں وارث ہیں
ممتاز سنی عالم دین نے مسلمانوں کے حالات پر نظر ڈالتے ہوئے کہا: متعد فرازونشیب کے بعد مسلمانوں کو سمجھ آگیا کہ اسلامی تہذیب کی جانب واپس آنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ مشرق و مغرب کے بیہودہ وعدوں سے انہیں کچھ ہاتھ نہیں آیا، الٹا ان کی کم بختی کی اصل وجہ یہی ہے۔ آج کا مسلمان پریشان وحیران ہے چونکہ عہدماضی کی تلخ یادوں کو بھول کر نئے دور میں داخل ہونے کی کوشش کررہاہے۔

جامع مسجدمکی میں اکٹھے ہونے والے سینکڑوں سنی طلبا و دانشوروں سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت نے کہا: نام نہاد عالمی برادری جو انسانی حقوق واقدار اور جمہوریت کی پاسداری کا دعویدار ہے خاموشی سے دیکھ رہی ہے کیسے دن دیہاڑے ہزاروں مسلمان مختلف ممالک میں قتل ہورہے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ جھوٹ کا پلندہ ہے؛ چونکہ وہ اپنی خاموشی سے انسانیت کے دشمن حکام کو اجازت دیتے ہیں کہ خونِ مسلم سے اپنے نامہ اعمال کو مزید سیاہ کردیں۔ یہ لوگ کیوں قتل ہورہے ہیں؟ ان کا قصور کیاہے؟ وہ صرف آزادی اور انسانی کرامت و عزت چاہتے ہیں۔ ان کی یہ تحریک ہرگز نہیں رکے گی۔ مشرق وسطی کے عوام کا قیام انصاف اور آزادی کیلیے ہے۔ سب سے زیادہ کامیاب اور خوش قسمت حکمران وہی ہے جو اپنے عوام کو ان کے حقوق دلوائے اور ان کی آزادی کا خیال رکھ کر برابری کا معاملہ کرے۔

طلبہ مایوس نہ ہوں، حالات ایک جیسے نہیں رہیں گے
سالانہ اجتماع میں شرکت کرنے والے یونیورسٹیوں کے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: اہل سنت کے طلبہ بعض حکام کے رویے سے ناامید نہ ہوجائیں، انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنی چاہیے۔ حالات ایک جیسے نہیں رہیں گے۔

انہوں نے مزیدکہا: ہماری راہ ’اعتدال‘ اور ’باہمی مکالمے‘ کی ہے؛ ہم تشدد اور کشت وخون پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر کوئی ہم سے بات چیت کرے ہم بھی ہاتھ بڑھائیں گے۔ ہم نے کئی مرتبہ تشدد کرنے والوں کیخلاف موقف اختیار کیاہے۔

ایرانی اہل سنت کے نامور عالم دین نے کہا: ہم نے کبھی بھی قانون سے بڑھ کر کوئی بات زبان پر نہیں لائی ہے۔ ہمارے تمام مطالبات آئین کے حدود میں ہیں۔ اگر ہم ایران میں اہل سنت کی عزت و کرامت کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ کوئی حق سے زیادہ کی بات نہیں ہے۔ انقلاب سے چونتیس برس گزرچکاہے؛ پھر بھی بعض حکام کہتے ہیں ہمیں مزید وقت درکارہے! کیا کسی برادری کے حقوق دینے کیلیے 34 سال کافی نہیں ہے؟ کتنی مہلت چاہیے؟ ہم عہدہ و اقتدار کے پیاسے نہیں ہیں لیکن اہل سنت کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے۔ روزگار کی تقسیم میں انہیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ہم حکومت کا تخت الٹ دینے کی کوشش نہیں کرتے؛ ہمارا خیال ہے اسلامی جمہوریہ ایک ’موقع‘ ہے بشرطیکہ تمام اقوام اور مسالک ومذاہب کے پیروکاروں پر مساوی توجہ دی جائے۔ اسلام اور ہمارے قومی آئین نے لوگوں کے سیاسی، معاشرتی اور دینی حقوق اور آزادی پر تاکید کی ہے۔ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ آئین کا پورا نفاذ ہونا چاہیے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: ایران کے سنی مسلمان یہاں مہاجر اور پناہ گزین نہیں ہیں، ہم اسی ملک کے وارث اور مالک ہیں۔ جب یہاں شاہ اور رضاشاہ کی فوجیں نہ تھیں ہمارے آباؤ اجداد نے اس ملک کی سرحدات کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کی۔ ہم ایران کے شاہوں اور حکومتوں سے قبل یہاں آباد تھے، یہ ملک ہمارا ہے اور ہمیں اپنے ملک کی تقدیر میں حصہ دار ہونا چاہیے۔ اگر کوئی حکومت مخصوص مسلکی منظر سے اپنے عوام میں تفریق لائے وہ ہرگز کامیاب حکومت نہیں ہوگی۔ کوئی مخصوص فرقہ، مذہب یا سیاسی ونگ بلاشرکت غیر ملک نہیں چلاسکتا۔ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔

‘حقوق‘ میڈیا کے شوروغل سے ناپید نہیں ہوتے
سرپرست شورائے ہم آہنگی مدارس اہل سنت نے مزیدکہا: بعض حکومت نواز انتہاپسند عناصر کی ویب سائٹس افواہوں اور جھوٹ کے سہارے ہماری کردارکشی کی باطل کوشش کرتے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی صحیح اور درست راہ کو چھوڑکر ان کی طرح انتہاپسندی کا مظاہرہ کریں۔ لیکن ہم اعتدال کے راستے سے نہیں ہٹیں گے، ہمارا خیال ہے رجیم کی خیر اسی میں ہے کہ تمام قومیتوں اور مسالک کے حقوق کی پاسداری کرے۔

انہوں نے مزیدکہا: ’حق‘ میڈیا کے شورمچانے سے ناپید نہیں ہوسکتا۔ میڈیا کا سہارا لینے والے جتنے شور مچائیں اس سے ہم اپنے حقوق کے مطالبہ سے پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔ ہم غدار نہیں ہیں، ہم اسلام اور اپنے وطن کے خادم ہیں، ہمیں جاہ ومقام نہیں بلکہ خدمت کا موقع دینا چاہیے۔ ہمارے تعلیم یافتہ اور متخصص و ماہر افراد سے کام لینا چاہیے۔

بعض یونیورسٹیوں کے طلبہ کو زاہدان آنے سے روک دینے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: اگر یونیورسٹیوں کے دروازے ہمارے لیے کھول دیے جاتے ہم خود اپنے فرزندوں کے پاس چلے جاتے اور ان سے ملاقات کرتے، لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ یہاں طلبہ دین کی بات سننے کیلیے اکٹھے ہوتے ہیں اور انہیں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ متعدد طلبہ کو زاہدان پہنچنے سے روک دیا گیاہے۔

اہل سنت والجماعت کے طلبہ کا قومی سالانہ اجتماع حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی خالصانہ وعاجزانہ دعا سے اپنے اختتام کو پہنچا۔

SunniOnline.us