- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

اب بس کریں!

کیا یہ محض ایک اتفاق ہے؟ 13دسمبر کو ا فغان طالبان نے قندھار ایئر پورٹ پر غیر ملکی افواج کی ایئر فیلڈ کو ایک بارود بھری کار کے ذریعہ نشانہ بنایا۔
صرف دو دن کے بعد 15دسمبر کی شب پشاور ایئرپورٹ پر پاکستان ایئر فورس کی ایئر فیلڈ پر ایک بارود بھری کار کے ذریعہ حملہ ہوا اور تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔
افغان طالبان کا نشانہ قابض غیر ملکی افواج ہیں جبکہ پاکستانی طالبان کا نشانہ اپنی فوج اور ادارے ہیں جو ان کے خیال میں غیرملکی طاقتوں کے اتحادی ہیں۔
پچھلے دس سال سے پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر غیر ملکی طاقتوں کی مدد کررہا ہے لیکن پاکستان میں دہشتگردی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔
ایک طرف غیر ملکی طاقتیں پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام لگاتی ہیں دوسری طرف ہم پاکستان میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹرپل گیم کھیل رہے ہیں۔
حملہ قندھار میں ہوتا ہے جواب پشاور میں دیا جاتا ہے۔ حملہ کابل میں ہوتا ہے جواب کوئٹہ اور کراچی میں دیا جاتا ہے۔
ناں تو افغان طالبان مانتے ہیں کہ انہیں پاکستان سے کوئی خفیہ مدد مل رہی ہے ناں ہی تحریک طالبان پاکستان مانتی ہے کہ اسے افغانستان کے راستے سے کوئی غیر ملکی امداد مل رہی ہے۔ افغان حکومت کئی سال سے دعویٰ کررہی ہے کہ ملا محمد عمر کوئٹہ میں روپوش ہیں لیکن آج تک ثبوت نہیں دیا گیا۔
ہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک کئی مرتبہ افغانستان کے راستے سے پاکستان میں کراس بارڈ ٹیرر ازم کا الزام لگاچکے ہیں لیکن انہوں نے بھی کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔
اس مرتبہ تو انہیں بہت سخت پیغام ملا۔ جس وقت پشاور ایئرپورٹ پر حملہ ہوا وہ بھارت میں امن کے گیت گارہے تھے اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کا ایک وفددہلی کے راستے سے لاہور پہنچ چکا تھا۔
انتخابات قریب ہیں۔
پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت انتخابات سے پہلے بھارت کے ساتھ کوئی بریک تھرو کرنا چاہتی ہے۔
ابھی تک بریک تھرو صرف اتنا ہے کہ پاکستان نے بھارت کو تجارت کے لئے پسندیدہ ملک قرار دینے کا وعدہ کر رکھا ہے جس کے عوض پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بھارت میں کچھ کرکٹ میچ کھیلنے کی سعادت بخشی جارہی ہے۔
اس صورتحال میں حریت کانفرنس کے ایک وفد کو پاکستان بلانے کامقصد صرف یہ نظر آتا ہے کہ حکومت عوام کو یہ تاثر دے سکے کہ وہ کشمیر پرکوئی سودے بازی نہیں کررہی اور کشمیری قیادت کو اعتماد میں لے کر بھارت کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھارہی ہے۔
پاکستان کے دورے پر آنے والے حریت کانفرنس کے وفد میں میر واعظ عمر فاروق اور دیگر اہم رہنما شامل ہیں جن کی نیت پر شک نہیں کیا جانا چاہئے لیکن اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جائے کہ سید علی گیلانی اور ان کا کوئی نمائندہ اس وفد میں شامل نہیں۔
یاسین ملک کا بھی یہ خیال ہے کہ حریت کانفرنس کے وفد کو پاکستان کے عام انتخابات سے صرف چند ماہ پہلے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس سے یہ تاثر ملے کہ حریت کانفرنس مسئلہ کشمیر کے حل کی کسی کوشش میں شامل نہیں بلکہ ایک سیاسی حکومت کے انتخابی عزائم کے لئے استعمال ہورہی ہے۔
محب وطن پاکستانیوں کی بڑی اکثریت کے لئے یہ امر نہایت تکلیف کا باعث ہے کہ پچھلے دس سال کے دوران پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی بجائے غیر ملکی طاقتوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی۔
جنرل پرویز مشرف نے2002ء میں کشمیریوں پر ایک ایسا فارمولا مسلط کرنے کی ٹھان لی جو1931ء سے جاری کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ غداری کے مترادف تھا اور اس مقصد کے لئے جنرل پرویز مشرف نے حریت کانفرنس کو تقسیم کردیا۔
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے بھارت نواز لیڈروں کو اسلام آباد بلا کر زبردستی حریت کانفرنس کی قیادت کے ساتھ بٹھایا گیا تاکہ لائن آف کنٹرول کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا اعلان کردیا جائے۔
پرویز مشرف اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوئے لیکن افسوس کہ اب موجودہ حکومت کی کچھ شخصیات پرویز مشرف کے پرانے فارمولے کو کچھ نئے الفاظ کا جامہ پہنا کر دوبارہ پاکستانی اور کشمیری عوام کو بے وقوف بنانے کی تیاریوں میں ہیں۔
افسوس کہ پاکستان کے ارباب اختیار نے حریت کانفرنس کے وفد کو پاکستان بلانے سے پہلے سید علی گیلانی سمیت یاسین ملک اور شبیر شاہ کو اعتماد میں لینے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
میر واعظ عمر فاروق اور ان کے وفد میں شامل مہمان مظفر آباد پہنچے تو پاکستان میں موجود غلام محمد صفی، فاروق رحمانی، غلام نبی نوشہری، عبدالمجید میر، محمد حسین خطیب سمیت دیگر کئی کشمیری رہنما ان کے پاس نظر نہیں آئے جس سے یہ تاثر ملا کہ حریت کانفرنس کے وفد کو جلدی میں بلایا گیا یا پھر جان بوجھ کر کشمیری قیادت کی نااتفاقی کو دنیا کے سامنے اچھالا جارہا ہے۔
پاکستان کا حکمران طبقہ یاد رکھے کہ 1947ء سے آج تک کشمیریوں کے ساتھ بے وفائیوں اور دھوکوں کی داستان بہت طویل ہے۔
اکتوبر1947ء میں قائد اعظم کو بتائے بغیر کشمیر میں ایک قبائلی لشکر بھیجا گیا اور اس لشکر کی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں اپنی فوج بھیجنے کاموقع ملا۔ اس لشکر کے لئے جی ایچ کیو نے جو بندوقیں دیں ان پر پولیس نے قبضہ کرلیا اور یہ لشکر انتہائی ناقص بندوقوں کی مدد سے مار دھاڑ کرتا رہا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب بھارت نے پاکستان کو پیشکش کی کہ وہ حیدرآباد دکن پر دعوے سے دستبردار ہوجائے تو بھارت کشمیر سے نکل جائے گا لیکن لیاقت علی خان نے بڑی حقارت سے یہ پیشکش ٹھکرادی۔
پھر بھارت خود ہی یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا سیز فائر کرایالیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا۔ 1951ء میں پاکستان کے فوجی جرنیلوں نے لیاقت علی خان کو خوفزدہ کرنے کے لئے کشمیر کے نام پر راولپنڈی سازش کیس کا شوشہ کھڑا کیا جس کا اصل مقصد سیاسی حکومت کو کمزور کرنا تھا۔
1962ء میں بھارت اور چین میں جنگ شروع ہوئی تو وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ا یوب خان سے کہا کہ بھارتی فوج نے کشمیر خالی کردیا ہے ،یہ کشمیر آزاد کرانے کا بہترین موقع ہے لیکن ایوب کو واشنگٹن نے روک دیا۔
1965ء میں آپریشن جبرالڈ کے ذریعہ کشمیریوں کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔
1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔
بھارت نے 1984ء میں سیاچن پر قبضہ کرلیا۔1987ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی۔
پاکستان نے اس تحریک میں عسکریت کو داخل کیا لیکن اس عسکریت کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دیا جب عسکریت پسندوں نے احتجاج کیا تو آئی ایس آئی کے ایک ا فسر میجرجنرل افتخار حسین شاہ نے انہیں صاف کہا کہ ہم کشمیر کی آزادی نہیں چاہتے بلکہ صرف بھارت کو زخم لگانا چاہتے ہیں۔
کچھ سال کے بعد یہ صاحب مشرف دور میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر بنے تو موصوف نے قبائلی علاقوں میں وہ خوفناک کھیل شروع کیا جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
1999ء میں کارگل کے ایڈونچر سے لے کر2002ء میں حریت کانفرنس کا شیرازہ بکھیرنے تک پاکستان کے سیاسی و فوجی حکمرانوں کی اہل کشمیر کے ساتھ بے وفائیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔
ان حکمرانوں سے گزارش ہے کہ اب بس کریں آپ کشمیریوں کے ساتھ کوئی بھلا نہیں کرسکتے تو انہیں آپس میں لڑانا اور تقسیم کرنا تو بند کردیں، اگر آپ نے اپنی پالسی پر نظر ثانی نہ کی تو خدانخواستہ آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں بھی آپ کے خلاف وہ جذبات پیدا ہوسکتے ہیں جو آج پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہیں۔
کشمیری قیادت سے بھی ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ اپنے اختلافات ختم کریں اور دنیا کے سامنے اپنا مزید تماشہ نہ بنائیں۔
ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اپنی ڈبل اور ٹرپل گیم اب ختم کردینی چاہئے تاکہ ہم متحد ہو کر اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل بن سکیں۔
حامد میر
جنگ نیوز