- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

زاہدان یونیورسٹیزکے نئے سنی طلبا کا تعارفی جلسہ

گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی ایران کے مشرقی شہر زاہدان کی یونیورسٹیز کے نئے سنی طلبا دارالعلوم زاہدان میں اکٹھے ہوگئے جہاں آٹھ سو کے قریب طلبا و طالبات نے سالانہ تعارفی جلسے میں شرکت کی۔
’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتہ سولہ نومبر کی شام کو سینکڑوں سنی طلبہ و طالبات نے سالانہ تعارفی میٹنگ میں شرکت کی جس کے قیام کا مقصد عصری تعلیمی اداروں کے طلبا اور دینی مدارس کے طلبہ اور اہل علم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔ ایسے جلسوں کے نتیجے میں تعلیم یافتہ طبقہ آسانی سے اپنے علماء سے ملاقات کرکے اپنی مشکلات کا حل نکال سکتاہے اور دینی اداروں کی روحانی فضا سے فائدہ اٹھا کر اپنی صحیح تربیت کرسکتاہے۔

مذکورہ جلسے کا آغاز جمعہ کو نمازمغرب کے بعد ہوا۔ ایک یونیورسٹی سٹیوڈنٹ کی تلاوت قرآن پاک کے بعد دارالافتا دارالعلوم زاہدان کے سرپرست مفتی محمدقاسم قاسمی نے حاضرین سے خطاب کیا۔

مفتی قاسمی کی تقریر
معروف عالمی میگزین ’ندائے اسلام‘ کے مدیراعلی نے اپنے اسلام میں علم و دانش کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا: سب سے پہلی آیت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی علم کی اہمیت واضح کرتی ہے؛ ’’اقرا‘‘ پہلا لفظ ہے جو نازل ہوا۔ یہ نزول وحی ایک ایسے معاشرے میں ہوا جہاں صرف جنگ و جدل، تلوار اور کشت وخون کے حوالے گفتگو عام تھی۔ لیکن اللہ کی مشیت یہ تھی کہ اْس معاشرے کو علم کی روشنائی سے روشناس کروائے۔ علم و قلم اور پڑھو کے الفاظ نے یہ سبق ہمیں سکھایا کہ انسان سیکھ سکتاہے اور علم ہی کی بدولت اپنے خالق سے رابطہ کرسکتاہے بشرطیکہ تقوا سے ہمکنار ہو۔

استاذ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے سورت العلق میں دومرتبہ ’اقرا‘ کا لفظ لایا تاکہ اس کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ استمرار و دوام سے پڑھنے کی مہم پر تاکید فرمائے۔ قرآن پاک کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی زندگی پڑھنے اور لکھنے سے تابندہ ہوسکتی ہے اور جہالت کا اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’اْمی‘‘ ہونا ان کا معجزہ شمار ہوگا تاکہ کوئی یہ الزام عائد نہ کرسکے کہ قرآن پاک ان کی اپنی لکھی ہوئی کتاب ہے۔

مولانا قاسمی نے آیت مبارکہ ’’و علم الانسان مالم یعلم‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے گویاہوئے: اس آیت کی عمومیت سے ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو تمام علوم کا خزینہ سکھایا جس میں فزکس، کیمسٹری، صنعت و طب اور تمام دینی علوم شامل ہیں۔ اسی سے معلوم ہوتاہے اللہ رب العزت نے انسان کو علم حاصل کرنے کی صلاحیت اور ذرائع بھی عطا فرمایا۔

دارالعلوم زاہدان کے سینئر استاذ نے مزیدکہا: سائنس اور مختلف علوم و فنون کی پھیلاؤ کے باوجود دنیا معاشی، معاشرتی اور سیاسی بحرانوں سے دست وگریبان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس اور دانش سے اللہ کا نام و یاد الگ ہے اور تقوا نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ذاتی مقاصد اور اقتدار کے حصول کیلیے لوگ خطرناک ہتھیار تیار کرتے ہیں اور سائنس کا غلط استعمال کیا جاتاہے۔

انہوں نے سنی طلباء کو نصیحت کی صرف معاشرے کی صحیح خدمت کی نیت سے علم حاصل کریں اور اسلامی تعلیمات کا خیال رکھیں۔ ’دانش جو‘ کا مقصد ڈگری کا حصول نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے مہارت و سپیشلائزیشن حاصل کرنی کی خاطر محنت کرنی چاہیے۔

اپنے خطاب کے آخر میں مفتی محمدقاسم قاسمی نے عصری تعلیمی اداروں میں زیرِتعلیم طلبا کو نصیحت کی کہ پانچ امور کی سختی سے پابندی کریں:
1. محنت و کوشش؛ 2. دعا؛ 3. اپنی کمزوریوں کی شناخت اور ان کی اصلاح کی کوشش؛ 4. تاریخ میں گزرے بڑے لوگوں کے حالات کا مطالعہ؛ 5. روزانہ کاموں کیلیے منصوبہ بندی۔

علم اور تقویٰ رکھنے والے طلبا مستقبل میں کردار ادا کرسکتے ہیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے مختصر خطاب میں نئے سنی طلبا کے اجتماع سے بات کرتے ہوئے کہا: جب بھی ’روشن مستقبل‘ کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے تو اس کا مطلب صرف دنیوی زندگی کا مستقبل نہیں ہے بلکہ غرض دونوں جہانوں کا مستقبل ہے۔ جن لوگوں کے پاس علم اور تقوا وخداترسی ہو وہی لوگ مستقبل میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں اور اپنے اور معاشرے کیلیے کارآمد بن سکتے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: سمجھدار لوگ اپنی آخرت سنوارنے کی بھی فکر کرتے ہیں۔ جو لوگ صرف دنیوی زندگی کو مدنظر رکھتے ہیں اور آخرت کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں درحقیقت سطحی پسند اور کودن ہیں۔ قرآن پاک کے مطابق یہ لوگ فانی دنیا کو پسند کرتے ہیں اور آخرت کو چھوڑدیتے ہیں۔

شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: حضرت یوسف علیہ السلام ایک غلام کی حیثیت سے مصر میں بیچا گیا؛ لیکن آپؑ علم و دانش اور تقویٰ کی بدولت غلامی سے بادشاہت تک پہنچ گئے۔ ’والعاقبۃ للتقویٰ‘ کا یہی مطلب ہے کہ متقی لوگوں کی دنیا وآخرت آباد ہے۔

سنی طلبہ و طالبات کو نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: یونیورسٹی میں اسلامی احکام و آداب کا خیال رکھیں، وہاں اسلامی ماحول پیدا کریں۔ جماعت کے ساتھ پنج وقتہ نمازیں ادا کریں۔ باطل فرقوں اور غلط افکار وخیالات کے حوالے سے ہوشیار و چوکس رہیں۔ کہیں تقوی کا لباس آپ سے کوئی نہ چھین لے۔

آخر میں مولانا عبدالحمید اسماعیلزہی نے کہا: سچا مسلمان وہی ہے جو اللہ کے احکامات و دستورات کے سامنے سرِتسلیم خم کرتاہے۔ یونیورسٹی کے طلبہ کو دینی کتب کا مطالعہ کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہیے تا کہ کہیں مغرب کی خطرناک پروپیگنڈا مہم سے مرعوب ہوکر گمراہی کے مرداب میں گر نہ جائیں۔