- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

منہ زور بیل اور بلوچستان

بلوچستان میں لگی آگ پر جتنا بھی پانی ڈالا جائے کم ہے لیکن کیا کہئے ہمارے آرمی چیف کو جنہوں نے پانی کے بجائے تیل اور زخموں پر نمک ہی چھڑک دیا جب انہوں نے یہ بیان دیا کہ؛
’بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے ہر اس سیاسی عمل کی حمایت کی جائے گی جو آئین کے دائرہ کار میں ہو گا‘

کیا بلوچستان میں جس طرح لوگوں کو لاپتا کیا جا رہا ہے وہ آئین کے مطابق ہے؟
بلوچستان میں ایف سی آئین کی کن شقوں کے تحت لوگوں کو غایب کرتی ہے؟
کیا سیاستدان بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی بھی قسم کا اقدام بڑے گھر (جی ایچ کیو) کی منظوری کے بغیر کر سکتے ہیں؟
آخر آرمی چیف کس آئین کا حوالہ دے رہے ہیں؟ کیا وہ اپنی کند ذہن قوم کو راہ دکھانا پسند کریں گے؟
بلوچستان کا مسئلہ ابھی کا نہیں بلکہ کافی پرانا ہے اور اس کے ڈانڈے جا کر وہیں ملتے ہیں جہاں مشرقی پاکستان کے ملتے تھے، یعنی فوج کا اپنی ہی قوم کے ایک حصے کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور اس کا نتیجہ ہم سب کو بخوبی معلوم ہے۔
کیا طاقت کے زور پر آپ مشرقی پاکستان کو اپنے ساتھ رکھ سکے؟ ہماری فوج اور کچھ سیاستدان بلوچستان کی روایات، سیاسیات اور اخلاقیات کو سمجھے بغیر اسی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس سے باقی قوم کی طبیعت صاف کی جاتی ہے۔
اور پارلیمنٹ کا بھی کیا ذکر کریں، بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے چند مردہ ردی قراردادوں، بانجھ کمیٹیوں اور جذباتی تقاریر کے علاوہ اس کے دامن میں کچھ نہیں۔
بلوچستان میں جس یتیم سیاسی قیادت کو تیار کر کے سامنے لایا گیا تھا وہ وہی کام کر رہی ہے جس کے وہ قابل تھی۔ یعنی نوچنے کھسوٹنے اور پیسے بٹورنے میں ماہر۔ اس قسم کی کٹھ پتلی قیادت کو سامنے لانے سے جتنے مسائل پیدا ہو سکتے تھے وہ سب کے سب بلوچستان میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
بلوچستان کی حالت اس مریض کی سی ہے جس کے کینسر کا علاج ڈسپرین سے کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ وہاں کے خراب حالات کا ذمہ دار تواتر کے ساتھ غیر ملکی ہاتھوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ جی ہاں، جب اپنے ہی دستانے پہن لیں تو لہو غیروں کے ہاتھ پر ہی تلاش کیا جاتا ہے۔
اس بات سے کوئی انکاری نہیں کہ بلوچستان میں غیر ملکی طاقتیں بھی اپنا کھیل کھیل رہی ہیں مگر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جس بھس میں پہلے ہی سے چنگاریاں مو جود ہوں تیل اسی میں آگ بھڑکاتا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان میں امن و امان کے مسئلے اور لا پتا افراد کے معاملے پر جب سے توجہ دی گئی ہے تو اس سے کچھ امید بندھی ہے اور جس طرح سے جناب اختر مینگل نے تین سال بعد پاکستان آکر اس ادارے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اس سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ شاید اس مسئلے کے حل کو تمام قوتوں نے در خوراعتناء سمجھ لیا ہے۔
اگرچہ بلوچستان امن و امان کیس میں جو فیصلہ سامنے آیا ہے اس کو ابھی تک گھاس نہیں ڈالی گئی اور لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران جس قسم کا تماشہ لگا کر سپریم کورٹ کو چکمہ دینے کی بھونڈی کوششیں کی جاتی ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے لیکن پھر بھی بلوچ قیادت کو کم از کم اس بات کا ادراک ضرور ہے کہ ملک میں ایک ایسا ادارہ ہے جہاں سے انہیں انصاف مل سکتا ہے۔
بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے جناب اختر مینگل کے پیش کردہ چھ نکات اس سلسلے کی پہلی کڑی ہو سکتے ہیں جن پر عمل کر کے اعتماد سازی کی کوششیں شروع کی جاسکتی ہیں لیکن کیا جو منہ زور بیل بلوچستان میں دندناتا بھر رہا ہے وہ نکیل پہننے پر راضی ہو گا؟
بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک کا توڑ بھی اختر مینگل کے چھ نکات ہی میں پوشیدہ ہے، جس کے ذریعے صوبے میں اعتماد کی فضا بحال اور ایسی سیاسی قیادت کے کام کرنے کے لیے ماحول پیدا ہو گا جو پاکستان کے اندر رہتے ہوئے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
ابھی تو ایسے سیاسی قائدین کے لیے عوام میں جانا مشکل ہو گا، کیونکہ ان کی تمام تاویلیں اور سمجھانے بجھانے کی کوششیں وہا ں کے مقامی لوگوں کو بلوچ نوجوانوں کے خون سے لتھڑی ہوئی ہی نظر آئیں گی۔بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پہلا قدم اسلام آ باد اور راولپنڈی کے مکینوں ہی کو اٹھانا ہو گااور یہ قدم خالی خولی معافیوں، ڈھونگے سیاسی پیکجز اور دوسروں کو آئین کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی حل کی حمایت کی ’فیاضانہ پیشکشوں‘ سے آگے کی چیز ہے۔
فوج مہربانی کرے اور بلوچستان کو سیاسی نمائندوں کے ہاتھ میں دے دے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں۔
یہ درخواست اس لیے بھی کی گئی ہے کہ ہمیں ابھی تک آپ کی وردیوں سے مشرقی پاکستان کے لہو کی بو آتی ہے اور اس بو میں بلوچستان کی مہک شامل نہیں ہونے دینا چاہتے۔
اب پارلیمنٹ کی جانب سے ایک متفقہ قرارداد بھی سامنے آچکی ہے جس کے تحت ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے ممبران پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی سیاسی جماعتوں سے لیے جائیں گے اور یہ کمیشن بلا تخصیص بلوچ رہنماؤں سے بات چیت کر کے اس مسئلے کے حل کے لیے کوششیں کرے گا۔
یہ شاید آخری موقع ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جا سکے اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کیا جا سکے کیونکہ شفاف انتخابات جس میں تمام بلوچ جماعتیں حصہ لیں اور سیاستدانوں کے تجویز کردہ اقدامات پر عمل ہی اس کا حل ہے۔
لیکن کیا ایسا ہونا ممکن بھی ہے؟ کیونکہ طاقت لینا آسان اور چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔


علی منیر
ڈان نیوز