- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

بلوچستان میں خفیہ اداروں کی مداخلت

پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک عبوری حکم میں کہا ہے کہ بلوچستان میں خفیہ اداروں کی مداخلت ثابت ہوگئی ہے اور خفیہ ادارے لوگوں کو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور اسلحہ کی راہداریاں بھی دیتے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کوئٹہ میں پانچ روز تک بلوچستان کی امن و امان کی صورتحال سے متعلق کیس کی سماعت کے بعد اپنے عبوری حکم میں کہا ہے کہ بلوچستان میں خفیہ اداروں کی مداخلت ثابت ہو گئی ہے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ آئی ایس آئی، ایم آئی اور دیگر خفیہ ایجنسیاں آئندہ کوئی بھی راہداری جاری نہ کریں۔ اگر کسی بھی شخص کو ایسی راہداری جاری کی گئی تو حکومت ان لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرکے گرفتار کرے۔
لاپتہ افراد کا ذکر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ہر تیسرے لاپتہ فرد کے حوالے سے الزام فرنٹیئرکور پر آ رہاہے۔ بلوچستان سے نہ صرف مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں بلکہ فرقہ وارایت اور لسانیت کی بنیادپر لوگوں کو مارا گیا ہے لیکن نہ صرف ملزمان کی نشاندہی ہوئی بلکہ ان کے خلاف کارروائی میں بھی حکومت ناکام رہی ہے۔
بنچ نے کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ کے حکم پر لوگوں کو لاپتہ کرنے کے علاوہ دیگر جرائم کے واقعات کے مقدمات درج تو کیے گئے لیکن کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا۔
سپریم کورٹ نے صوبہ بلوچستان کی حکومت کو بھی آئین کے تحت لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام قرار دیا ہےاور کہا ہے کہ وفاقی حکومت شہریوں کے جان و مال کی تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
عدالت نے عبوری حکم میں کہا ہے کہ بلوچستان کی حکومت آئین کے تحت لوگوں کے بنیادی حقوق کی تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام ہوگئی ہے اور اس لیےحکمرانی کی اہلیت کھو بیٹی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اگرچہ وفاقی حکومت نے بلوچستان میں اندرونی گڑبڑکو روکنے کے لیے صوبائی حکومت کی مدد کی اور یہاں نیم فوجی دستے فرنٹیئر کور کو تعینات کیا لیکن عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ سال میں خود فرنٹیئر کور کے چار سو بتیس اہلکار ہلاک اور چھ سو چار زخمی ہوئے۔
سپریم کورٹ نے یہ آبزرویشن دی کہ یہاں کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ ہدایات دی تھیں کہ آئین کے تحت لوگوں کے جان مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے جس پر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کے حکام نے تحریری طور پر کمٹمنٹ کی لیکن انہوں نے اپنی اس کمٹمنٹ کو پورا نہیں کیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ صوبائی حکومت کو خاموش تماشائی بننے نہیں دیا جائیگا اس لیے وفاقی حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کے جان و مال کو تحفظ دینے کے لیے موثر اقدامات کرے اور تمام جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔
عدالت نے کہا کہ مسخ شدہ لاشوں کے بارے میں پہلے ہی عدالت نے یہ حکم دیا تھا کہ ان کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے اس لیے اب اس عمل کو تیز کیا جائے اور حکومت متاثرہ خاندانوں کی کفالت کے لیے ایک سکیم بنائے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ڈیرہ بگٹی اور دیگر علاقوں سے ایک لاکھ سے زائد بے گھر ہونےوالے افراد کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں اور وہاں سول ایڈمنسٹریشن (شہری انتظامیہ) کو بحال کرکے تمام سکول اور ہسپتال کھولے جائیں۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ بلوچستان میں صنعتیں اور دیگر معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں مل رہے جس کے باعث وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ عدالت نے حکومت کوحکم دیا کہ وہ بلوچستان میں احساس محرومی کے خاتمے کے لیے جتنا جلد سے جلد ممکن ہو اقدامات کرے۔
عدالت نے جبری گمشدگیوں ، ٹارگٹ کلنگ اور مسخ شدہ لاشوں کے بارے میں تفتیش پر مکمل عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کیسز کی تفتیش سی آئی ڈی پولیس کے حوالے کیا جائے ۔
عدالت نے کہا کہ بلوچستان میں جب بھی قتل یا بدامنی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو کوئی تنظیم اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہے جوشہریوں کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کرنے کا باعث بنتا ہے ۔
عدالت نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے پہلے ہی اس طرح کی خبروں کی نشر و اشاعت پر پابندی عائد کی ہے سپریم کورٹ اس کی توثیق کرتی ہے اس لئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اس کی پابندی کریں ۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت اکتیس اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے چیف سیکریٹری بلوچستان کو ہدایت کی کہ وہ عبوری حکم کی نقول تمام متعلقہ حکام کو ارسال کریں اور تمام فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے ہر پندرہ روز بعد سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کرے۔
بی بی سی اردو