- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

جماعت الدعوة اور جماعت اسلامی کی قیادت سے!

پاکستان کی قابل فخر بیٹی ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے خلاف قومی رہنماؤں اور زندگی کے دوسرے طبقوں کے نمایاں افراد کے بیانات اخباروں میں پڑھ لئے۔
بہت رقت آمیز تقریریں بھی سن لیں، پاکستان کے ہر گھر میں اس چودہ سالہ معصوم سی بیٹی کی صحتیابی کے لئے دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے اس بچی کا قصور صرف یہ ہے کہ سوات پر طالبان کی یلغار کے دوران بھی اس نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور غیر ملکی اخبارات میں قلمی نام سے ان ہولناک واقعات پر سے پردہ اٹھاتی رہی جن کا سامنا سوات کے امن پسند عوام کو کرنا پڑرہا تھا۔
ظالموں نے ملالہ کے سر پر گولی ماری جو حسن اتفاق سے نشانے سے ذرا پرے لگی تاہم ضرب کاری تھی اور وہ تادم تحریر بے ہوش ہے۔
آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی اس کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے ،یہ بہت اچھا اقدام تھا۔ اب اسے علاج کے لئے بیرون ملک بھیجا جارہا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کی اس قابل فخر بہادر بیٹی کو نئی زندگی اور اس کے ساتھ زندگی کی تمام خوشیاں عطاکرے۔
تاہم یہ کالم میں اپنی ایک چھوٹی سی خواہش کی ممکنہ تکمیل کے لئے لکھ رہا ہوں، اگرچہ سکولوں، کالجوں، گلیوں، محلوں، قصبوں اور شہروں میں اس سانحہ کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے تاہم ایک مسلک کے علمائے کرام کی طرف سے اس ہولناک واقعہ کی بھرپور مذمت میری نظروں سے نہیں گزری،ممکن ہے یہ مذمت کی بھی گئی ہو، تاہم میری خواہش یہ ہے کہ صرف دو دینی جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف سے اس ضمن میں اگر ایک احتجاجی بیان سامنے آجائے تو اسلامیان پاکستان ان کے انتہائی ممنون ہوں گے اور اس سے دینی طبقوں کے جذبات کی بھرپور ترجمانی ہوجائے گی۔
معافی چاہتا ہوں ،بیان نہیں، ان رہنماؤں کی زیر قیادت ایک چھوٹی سی ریلی کی ضرورت ہے جو ایک چودہ سالہ بے گناہ بچی پر قاتلانہ حملے کو خلاف اسلام قرار دیتے ہوئے پرامن مظاہرہ کرے۔
ان دو دینی رہنماؤں میں جماعت الدعوة کے حافظ محمد سعید صاحب اور جماعت اسلامی کے سید منور حسن صاحب شامل ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے پیروکار ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔
ملک میں ہونے والی دہشتگردی کے حوالے سے بعض حلقے کہتے ہیں کہ یہ دونوں جماعتیں دہشتگردوں کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہیں چنانچہ ان کے خلاف اگر کبھی بات بھی کریں تو اس میں بھی دہشتگردی کا جواز نظر آتا ہے۔
میں اس نقطہ نظر سے متفق نہیں ہوں کیونکہ یہ دونوں جماعتیں اور ان کے قابل احترام رہنما پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور پاکستان اور اسلام سے محبت کرنے والا کوئی شخص یا کوئی جماعت مسجدوں، مزاروں اور بازاروں میں بے گناہوں کا خون بہنے کی حمایت نہیں کرسکتا۔ میرے نزدیک ان جماعتوں کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ مخالفین کے اس الزام کا بھانڈا عین چوراہے میں اس طرح پھوڑیں کہ کسی چوراہے میں اپنے چند رفقاء کے ساتھ ایک بینر پکڑکر کھڑے ہوجائیں جس میں متذکرہ بہیمانہ اقدام کی غیر مشروط مذمت کی گئی ہو، یہ ان کے لئے بہت آسان اور بہت محفوظ طریقہ ہے کیونکہ یہ بچی نہ تو مغرب زدہ ہے ، نہ لال مسجد کے شہداء کے خون سے اس کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں اور نہ اس کا کوئی تعلق ان ڈرون حملوں سے ہے جس میں بے گناہ پاکستانی جن میں عورتیں، بچے، بوڑھے سبھی شامل ہیں نہایت بے دردی سے شہید کئے جارہے ہیں۔ ان دو رہنماؤں کے ساتھ اگر جنرل(ر) حمید گل بھی کھڑے ہوجائیں تو یہ سونے پر سہاگہ والی بات ہوگی۔ میرے نزدیک ان جماعتوں کی طرف سے پاکستانی عوام اور دنیا بھر کے انسانوں تک یہ پیغام جانا اشد ضروری ہے کہ رحمت اللعالمین محمد مصطفی کے ذریعے ہم تک پہنچا ہوا اسلام ،اس ”اسلام “ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا جس میں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنا جائز سمجھا جاتا ہو۔ کاش یہ رہنما اسلام ہی نہیں اپنی جماعتوں کی لاج رکھنے کے لئے بھی ایک چھوٹے سے مظاہرے کا اہتمام کرسکیں۔
ایک تجویز اس کے علاوہ بھی ہے اور وہ یہ کہ شکاگو میں یکم مئی کے دن چند مزدوروں پر گولی چلائی گئی تھی اور دنیا بھر میں یکم مئی کا دن مزدوروں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد محنت کشوں کے حقوق کی یاد دہانی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ اس دن کو پاکستان بھر میں”یوم فروغ تعلیم“ کے طور پر منائیں جس روز ایک چودہ سالہ بچی پر اس لئے گولی چلائی گئی کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی اور اسے بلکہ اس کے ساتھ ان لاکھوں بچیوں کو بھی ان کے اس حق سے جبراً محروم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی جو تعلیم حاصل کرکے پاکستان اور اسلام کی خدمت کرنا چاہتی تھیں ،اگر علمائے کرام اور خصوصاً متذکرہ دو جماعتوں کے قائدین اس تجویز سے اتفاق کریں تو یہ تحریک ان کی قیادت میں چلائی جائے اور اگر انہیں یہ امر”سوٹ“ نہ کرتا ہو تو پھر پاکستان کے سلیم الفطرت طبقات سامنے آئیں اور اس مقصد کو اپنی زندگی کا مشن بنالیں۔
اللہ کرے ایسا ہو، ورنہ مزید شرمندگیاں ہمارا مقدر بننے کے لئے تیار کھڑی نظر آتی ہیں اور ہاں ایک ”مودبآنہ“ بلکہ ہاتھ باندھ کر اور رکوع کے عالم میں امریکہ بہادر سے گزارش !آپ ازراہ کرم اپنی ہمدردیاں اپنے پاس رکھیں، یہ ہم لوگوں کا اندرونی معاملہ ہے، ہم اسے خود نمٹائیں گے۔
آپ ملالہ بیٹی کے زخموں پر کیا لفظوں کی مرہم رکھیں گے، آپ کے تو اپنے ہاتھ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، آپ نے اگر ہماری کسی بیٹی پر ترس کھانا ہے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر کھائیں لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ بہادر اور غیور بیٹی جو آپ کے جاہ و جلال کو پرکاہ کی وقعت نہیں دیتی وہ آپ کی مہربانیوں کو بھی آپ کے منہ پر دے مارے گی ، آپ اس عہد کے وہ جلاد ہیں جس نے لاکھوں اور اس سے پہلے ایٹم بم کے ذریعے کروڑوں انسانوں کو ہلاک کیا ہے یا عمر بھر کے لئے انہیں معذور بنادیا ہے۔
سو جلاد کی زبان سے ہمدردی کے الفاظ کچھ زیب نہیں دیتے تاہم آپ کے مگر مچھ کے آنسوؤں کا شکریہ۔

جنگ نیوز
عطاء الحق قاسمی