- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

عمران خان اور وزیرستان۔ایک اور پہلو

ایک نشست میں عمران خان صاحب کے ساتھ سیاست دوراں پر گفتگو گرم تھی۔ چند روز قبل اپنے جوش خطابت میں عمران خان صاحب نے مولانا فضل الرحمان کے لئے منافق کا لفظ استعمال کیا تھا۔
اس کا تذکرہ کرتے ہوئے میں نے بصدادب واحترام عرض کیا کہ وہ اپنے مخالفین کے لئے یہ جو چور‘ کرپٹ‘ بے شرم ‘ منافق اور اسی نوع کے دیگر الفاظ استعمال کررہے ہیں ‘ وہ ایک قومی لیڈر کے شایان شان نہیں۔ عمران خان نے جذباتی انداز میں کہا کہ کیوں سلیم !میں منافق کو منافق اور چور کو چور نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟۔
میں نے عرض کیا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ دلوں کا حال اللہ جانتا ہے اوردوسری بات یہ ہے کہ ہر حقیقت اسٹیج پر بیان کرنے کے لئے نہیں ہوتی، ہر انسان کو علم ہے کہ بچہ کس طرح پیدا ہوتا ہے لیکن اگر کوئی اٹھ کر اس سارے عمل کو اسٹیج پر بیان کرنے لگ جائے ‘ تو اسے کیا بیہودگی نہیں کہا جائے گا؟
مزید عرض کیا کہ اگر مخالف سیاستدان ورغلائے بھی تو انہیں (عمران خان) ذاتیات کی طرف نہیں جانا چاہئے کیونکہ الیکشن کے دنوں میں جب مخالفین اس میدان میں حملہ آور ہوں گے تو خود وہ خسارے میں جاسکتے ہیں ۔ بہر حال عمران خان نے کہاں ہم جیسوں کی سننی تھی ۔
چنانچہ اپنے لوگوں کی انہوں نے ایسی تربیت کرلی کہ ان کے گرو اور ہمارے بڑے بھائی‘ جو دوست نوازی اور شائستگی کے لئے مشہور تھے‘ بھی ”بے غیرت بریگیڈ “ جیسے الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں ۔
کوئی ملاحظہ کرنا چاہے تو میرے ای میل کا ریکارڈ حاضر ہے کہ تحریک انصاف کے کسی ترجمان یا حامی نے میرے گزشتہ کالم میں اٹھائے گئے اعتراضات اور سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن گالیوں اور فتووں سے میری خوب تواضع کی گئی ہے۔
اب میرے بڑوں نے میری تربیت ایسی کی ہے اور مجھے اس پر فخر بھی ہے کہ میں گالی کا جواب گالی سے نہیں دے سکتا۔
جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہاں گولی کا جواب گولی سے تو دیا جاتا ہے لیکن گالی سے نہیں ۔ چنانچہ یہ لوگ کچھ بھی کریں میں کبھی انہیں ان کے لہجے میں جواب نہیں دوں گا لیکن ان کی خدمت میں اتنا عرض کرتاہوں کہ جو لوگ گولی کے لئے تیار رہتے ہیں ‘ انہیں گالی سے خاموش نہیں کیا جاسکتا ۔ ہاں البتہ انسان ہوں اور وہ بھی انتہائی گناہ گار ۔ اپنی بات کو درست کہتا ہوں لیکن اس میں غلطی کا امکان تسلیم کرتا ہوں ۔ دلیل کی بنیاد پر ماضی میں بھی اپنی کئی آراء سے رجوع کرچکا ہوں اور اب بھی کوئی دلیل سامنے لائے گا تو اپنی رائے سے رجوع کرنے میں دیر نہیں لگاؤں گا۔
جہاں تک لفافوں وغیرہ یا تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے ہاتھوں بک جانے کا معاملہ ہے تو اس پر صرف اتنا عرض کرسکتا ہوں کہ اس بندے پر اللہ کی لعنت ہو جس نے کسی ملکی یاغیرملکی ایجنسی‘ جماعت یا کسی فرد سے کوئی فائدہ اٹھایا ہو یا پھر جس نے ان میں سے کسی ایک کے اشارے پر سیاست یا صحافت کی ہو۔ آمین ثمہ آمین۔
مجھے یقین ہے کہ جہاں قارئین اور تحریک انصاف کے عام کارکن اس دعا پر میرے ساتھ آمین کہیں گے وہاں بادشاہ گروں کے منہ گنگ ہوں گے کیونکہ یہ لوگ جنہیں بادشاہ گری کا شوق ہوگیا ہے اور جو اس صورتحال کو انجوائے کرتے رہتے ہیں کہ لیڈر ان کی مٹھی میں بند رہتے ہیں اور ان کی جماعت میں آنے اور جانے والے لوگ ان کے دروں پر حاضر ہوتے رہتے ہیں ‘ کی اخلاقیات کا عالم یہ ہے کہ دنیا کے سامنے اپنا اصل تعارف بھی نہیں لاتے ۔
بھائی اگر کسی کے ترجمان یا گرو ہو تو پھر اخبار میں اپنے نام کے ساتھ بادشاہ گر یا ترجمان کا عہدہ بھی لکھ دیا کریں۔ یہ دونمبری نہیں تو اور کیا ہے کہ میں اندر سے تو بادشاہ گر ‘ گرو یا ترجمان ہوں اور دنیا کے سامنے اپنے آپ کو تجزیہ نگار کے طور پر متعارف کرتا پھروں۔
میدان صحافت میں میرے بعض استادوں کو شکوہ ہے اور ان کا شکوہ بالکل بجا ہے کہ میں بعض اوقات جذباتی ہوجاتا ہوں اور غصے میں لکھتا ہوں۔ میرے گزشتہ کالم کے بارے میں بھی ان کو یہ اعتراض تھا۔ لیکن میں ہمیشہ ان کے سامنے پشتو کا یہ شعر‘ جو میں نے ایک محفل میں پرویز مشرف صاحب کو بھی اس وقت سنایا تھا جب وہ پاکستان کے سیاہ سفید کے مالک تھے‘ عرض کئے دیتا ہوں کہ ؛
ما پہ گودر پورے د جوند گٹہ تاوان تڑلی
د جانان ھسے مشغولہ دہ مازیگر اڑوی
یعنی میں نے اپنی زندگی اور اس کا پورا نفع نقصان پنگھٹ سے وابستہ کررکھا ہے جبکہ میرا محبوب صرف عصر کا وقت گزارنے وہاں آتا ہے ۔قبائلی علاقے اور عسکریت پسندی کے موضوعات کسی کے لئے سیاست چمکانے کا ذریعہ ہیں‘ کسی کے لئے صحافت چمکانے کا وسیلہ ہیں ‘ کسی کے لئے یہ اس کے اسٹریٹجک منصوبوں کے مہرے ہیں لیکن میرے لئے یہ زندگی اور موت کے معاملات ہیں ۔ میری تعلیم اس کی وجہ سے ادھوری رہ گئی ۔
میرے باپ دادا کی زمین پر گزشتہ دس سالوں سے میرے ہم قبیلہ لوگوں کا خون بہہ رہا ہے ۔ میرے بھائیوں جیسے درجنوں دوست اس آگ کی نذر ہوگئے ۔ میری ماؤں اور بہنوں کی عزتیں خاک میں مل گئیں ۔جن لوگوں کی پگڑیوں کی عظمت آسمانوں کو چھورہی تھی‘ آج ایرے غیروں کے قدموں میں رل رہی ہے۔
اچھے بھلے کروڑ پتی بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ۔ جو اسکول اڑ رہا ہے وہ بھی میرے بچے کا ہے اور جو اس میں اڑ رہا ہے ‘ وہ بھی میرا بچہ ہے ۔
جو بم دھماکے میں اڑرہا ہے ‘ وہ بھی میرا خون ہے اور جو اپنے جسم سے بم باندھ رہا ہے ‘ وہ بھی میرا خون ہے ۔ میری معاشرت تباہ ہوگئی ۔ معیشت برباد ہوگئی ۔ ثقافت‘ اقدار اور روایات کا جنازہ نکل گیا۔
ڈرون حملوں میں مرنے والا بھی میرا بھائی ہے لیکن میرے بھائی صرف ڈرون میں نہیں مرتے ۔
جو جیٹ جہازوں کی بمباری اور گولہ باری سے مرتا ہے ‘ وہ بھی میرا بھائی ہے(واضح رہے کہ پچھلے ماہ کے دوران بھی اورکرزئی ایجنسی میں متعدد بار جیٹ جہازوں سے بمباری ہوئی ہے) بلوچستان کے مسنگ پرسنز بھی میرے اپنے ہیں لیکن ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے جبکہ قبائلی علاقوں اور پختونخوا کے مسنگ پرسنز ہزاروں میں ہیں ۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ابھی تک قبائلی علاقوں میں پندرہ ہزار کے قریب سویلین ‘42 ہزار مبینہ عسکریت پسند اور 4600 سیکورٹی اہلکار مرے ہیں ۔
مجھے بتایا جائے کہ کس سیاسی جماعت کے رہنما نے ان کے جنازوں کو کاندھا دیا ہے یا پھر ان کے لواحقین کی حالت پوچھی ہے ۔
اسی طرح سرکاری اعداد و شمار کے مطابق باجوڑ ایجنسی سے 70 ہزار‘ مہمند ایجنسی سے 34 ہزار‘ خیبر ایجنسی سے 80 ہزار‘ اورکزئی ایجنسی سے 60 ہزار، کرم ایجنسی سے 25 ہزاراور جنوبی وزیرستان سے 25 ہزاخاندان بے گھر ہوئے ۔ جنوبی وزیرستان کے سنگم 30 ہزار خاندان اب بھی ٹانک اور ڈی آئی خان میں مہاجر بنے ہوئے ہیں۔
ذرا ہمیں بتایا جائے کہ ان متاثرین اورمہاجرین کے لئے کسی جماعت نے کیا کیا ہے ؟ پچھلے دس سالوں کے دوران رزق حلال کے ساتھ اس کام کو میں نے اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا ہے کہ میں پاکستانی پالیسی سازوں اور سیاسی و صحافتی لیڈروں کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کرلوں ۔
اب اگر عمران خان یا کوئی اور اٹھ کر دنیا کو اس کی طرف متوجہ کرے گا تو میں خوش کیوں نہیں ہوں گا لیکن ان مسائل کے حل کو اپنی ترجیح بنانا الگ اور ان کی بنیاد پر سیاست کرنا الگ ہے ۔
عمران خان شاید اس میدان میں نئے ہوں لیکن ہم نے اس طرح کے تماشوں کو بہت دیکھا ہے ۔
میں اسکول میں تھا جب جماعت اسلامی نے ”کرش انڈیا “ مہم چلائی۔ کالج میں تھا جب ”امریکہ مردہ باد“ مہم زوروں پر تھی۔
جب ڈمہ ڈولہ پر ڈرون حملہ ہوا تو اسفندیار ولی خان کی قیادت میں چکدرہ سے باجوڑ ایجنسی تک احتجاجی مارچ کیا گیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اب وہ ڈرون حملوں کے خلاف لب بند کرچکے ہیں ۔
امریکہ کے خلاف اور فاٹا میں آپریشن کے خلاف سب سے بڑے جلوس ایم ایم اے کے لیڈروں نے نکالے تھے لیکن جب پرویز مشرف کے ساتھ درپردہ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سرحد اور بلوچستان کے حکمران بنے تو پھر افغانستان اور فاٹا کو بھول کر سترویں آئینی ترمیم کے ڈراموں میں مگن ہوگئے ۔
نیٹو سپلائی کے ٹرک ان کے زیرانتظام صوبوں سے ہوکر گزرتے تھے لیکن یہ لوگ خاموش رہے اور اب جب اقتدار سے باہر آگئے تو ایک بار پھر انہیں نیٹو سپلائی یاد آگئی۔
امریکہ کے خلاف حقیقی لڑائی ملا محمد عمر اور ان کے ساتھی لڑرہے ہیں ۔
جو امریکہ سے لڑنا چاہتے ہیں وہ کہساروں میں پہنچتے ہیں‘ اس طرح کے ڈراموں میں وقت ضائع نہیں کرتے۔
ان ڈراموں سے امریکہ کا کچھ بگڑتا ہے‘ ہندوستان کا اور نہ کسی اور کا۔
عمران خان اگر واقعی قبائلیوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ کریں ۔ سید منور حسن ‘ مولانا فضل الرحمان‘ مولانا سمیع الحق میاں نوازشریف اور طالبان کی صفوں میں عزت وتکریم کے حامل مولانا شیرعلی شاہ‘ مولانا فضل الرحمان خلیل‘ حافظ محمد سعید‘ مولانا لدھیانوی اور اسی نوع کی دیگر دینی شخصیات کو ساتھ لیں ۔
طالبان اور حکومت کے درمیان پل بن جائیں اور اس خطے سے اس گندے گیم کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں جن کی وجہ سے یہ علاقے جہنم بنے ہوئے ہیں ۔ یا پھر جو پیسہ امن مارچ پر خرچ کررہے ہیں ‘ وہ ٹانک اورڈی آئی خان میں جنوبی وزیرستان آپریشن کے متاثرین کو دے دیں۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا ‘ کوئی غمگسار ہوتا

سلیم صافی
بشکریہ “جنگ”