- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

توہین ِ رسالت کے قانون کیلئے پر امن جدوجہد کی ضرورت

اللہ کریم نے قرآن کریم میں رسول اکرم کو دو جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجنے کا اعلان فرمایا ہے اگر رسول اکرم کی آمد سے پہلے کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ نہ اس معاشرے میں کسی کمزور کے حقوق تھے اور نہ ہی کسی خاتون کو جینے کا حق، طاقتور اپنی طاقت کے زور پر جو چاہتا کر گزرتا اور کمزور اس کے سامنے سرنگوں ہوجاتا ۔
بیٹیوں کو ذلت اور پستی کا نام دے کر پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا علم سے ناآشنا یہ معاشرہ روزو شب اپنی تلواروں سے ایک دوسرے کا خون بہاتے اور بغیر کسی گناہ کے سینکڑوں لوگ ہر ہفتے اور ہر مہینے عزتوں اور شان و شوکت پر قربان ہو جاتے ۔
محسن انسانیت رسول اکرم(ص) کی آمد کے بعد جب اسلام کی تعلیمات کے ذریعے ان تمام رسومات اور انتقام کے سلسلوں کی نفی کی گئی تو تاریخ عالم نے قرآن کریم کی تصدیق کرتے ہوئے یہ لکھا کہ محمد عربی (ص) صرف اپنوں کے لئے ہی نہیں غیروں کے لیے بھی مجسم رحمت ہیں ۔
رسول اکرم (ص) نے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا جس کی نہ صرف اس وقت کے معاشرے کو ضرورت تھی بلکہ اسکے اثرات آئندہ آنے والی دنیا پر بھی مثبت انداز میں پھیل گئے ۔
آج میں یہ بات بڑے فخر اور اعزاز کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عورت کو جو مقام اسلام نے دیا ہے وہ کسی اور دین نے نہیں دیا ۔ بیٹی ، بہن اور بیوی کو جو عزت اسلامی تعلیمات نے دی ہے وہ کہیں اور ممکن نہیں ہے اور ماں باپ کے حقوق کی بات تو سب سے ہی علیحدہ ہے ۔
دکھ کرب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے ہادی عالم رحمت اللعالمین کی تعلیمات کو اس انداز میں عالم کفر تک نہیں پہنچایا جس کی ضرورت تھی ہم نے لوگوں کو یہ نہیں بتلایا کہ ہمارے نبی(ص) صرف محسن اسلام نہیں محسن انسانیت ہیں ۔
وہ تو انسانوں کے ساتھ ساتھ چرند پرند اور درختوں کے حقوق تک ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ ہمارے رویوں کو لوگوں نے اسلام سمجھنا شروع کردیا اور بعض مواقع پر ہمارے رویوں کی شدت نے نہ صرف ہمارے لئے مسائل پیدا کئے بلکہ اسلام کے نہ ماننے والوں میں موجود انتہا پسندوں نے ان رویوں کو اسلام سے جوڑ دیا ۔
حالانکہ ہمارے بعض رویوں کا اسلام سے دور دور تک واسطہ نہ تھا ۔کاش ہم محمد عربی(ص) کی سیرت طیبہ پر چلنے والے بن جاتے یا پھر یہ اعلان کر دیتے کہ ہمارے بعض رویے خلاف اسلام ہیں ان کی وجہ سے اسلام پر اور محسن انسانیت محمد عربی(ص) پر سنگ باری نہ کی جائے ۔ افسوس صد افسوس کہ وہ قوتیں جو انتہا پسندانہ سوچ کی حامل ہیں ۔
انہوں نے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے قرآن کریم کی توہین اور محمد عربی(ص) کی نعوذ باللہ سیرت طیبہ کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ کیونکہ ان کو یہ احساس تھا کہ مسلمان اپنے پیارے نبی محمد عربی(ص) سے کس قدر پیار کرتے ہیں وہ سمجھتے تھے اور ہیں کہ اگر دنیا میں مسلمان کے اندر کوئی چیز ہیجانی کیفیت پیدا کر سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف محمد عربی (ص) کی ذات پاک پر حملہ ہے اور یہ سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جار ی ہے ۔
حالیہ دنوں میں امریکہ میں بنائی جانے والی ایک فلم جس میں رحمت اللعالمین کی توہین کی گئی کے بعد جب اس کا ترجمہ عربی زبان میں کر کے مصر کے ایک ٹی وی نے اس کو نشر کیا تو پوری دنیا میں ایک قیامت کا منظر دیکھنے میں آیا ہر امن پسند انسان خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے تھا اس فلم پر دکھی نظر آیا ، افسو س کرتا ہوا نظر آیا ۔
سب سے پہلے لیبیا میں سفارت خانوں پر حملے ہوئے امریکی سفارت کار مارے گئے اس کے بعد دیگر ممالک میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوا اور 21 ستمبر کو پاکستان میں بھی یوم عشقِ رسول(ص) کے دن 29 سے زائد افراد پر تشدد مظاہروں کا نشانہ بن گئے ۔
اربوں روپے کی املاک تباہ کردی گئیں اور پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کو ایک دھچکا لگا کہ آخر ہم جس مقدس اور پاکیزہ رحمت والی ہستی کا دن منا رہے تھے اس دن کے ساتھ ہم نے کیا کیا ۔
مجھے حیرت ہے ان حضرات پر جو کہتے ہیں کہ ان 29 لاشوں کو اور اس دن لوٹے جانے والے املاک کو قصہ ماضی سمجھ لو میرا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ سیرت مصطفی(ص) کے مطابق کیا گیا ہرگز ہرگز نہیں پھر ہمارا رویہ ایسا کیوں ہے ۔
کیا ہمارے پیارے نبی(ص) نے ہمیں جو تعلیمات دی ہیں ان میں اس قسم کے واقعات کے لیے رہنمائی نہیں ہے میرے خیال میں رسول اکرم (ص) کا خطبہ حجة الوداع ہمارے لیے مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے جس میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا نہ صرف طاقتور بلکہ کمزور کے لیے بھی ضروری ہے ۔
ہمیں بائبل جلانے والوں، گرجا گھروں کو آگ لگانے والوں کی بھی مذمت کرنی ہے اور اسلام اور رسول رحمت محمد عربی(ص) کی توہین کرنے والوں کو بھی روکنا ہے ۔ اور اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تشدد کی بجائے پر امن جدوجہد کا راستہ اپنائیں ۔
ہمیشہ منزل مقصود ان لوگوں کو ملتی ہے جو اپنی جدوجہد کو پر امن انداز میں آگے لے کر چلتے ہیں موجودہ حالات میں اس منزل کا تعین کر لیا گیا ہے اوروہ ہے اقوام متحدہ کے اندر ایک ایسا عالمی قانون جس سے تمام انبیاء اور تمام آسمانی کتابوں کا تحفظ ہو اور ان مقدسات کی توہین کرنے والے بدترین سزاوٴں کے مرتکب قرار دئیے جائیں ۔
یہاں پر میں یہ بھی عرض کردوں کہ اس جدوجہد میں بہت ساری مشکلات آئیں گی لیکن ہمیں اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہے میرے خیال میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں اس منزل کو واضح کر دیا ہے ۔
ہمیں تمام تر اختلافات اور تعصبات سے بالا تر ہو کر اقوام متحدہ سے ایک عالمی قانون بنوانے کے لیے نہ صرف اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی زندگیوں میں بھی سیرت مصطفی ﷺ کو لانا ہے تاکہ کوئی ہمارے کردار اور ہمارے رویے کی وجہ سے ہمارے پیارے نبی(ص) اور ہمارے دین کو برا نہ کہے۔ اور اگر ہم نے یہ انداز اپنا لیا تو انشا ء اللہ آئندہ دنیا میں کسی کو محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی (ص) اور اسلام کی توہین کرنے کی جرأت نہ ہوگی۔

حافظ محمد طاہر محمود اشرفی
روزنامہ جنگ