- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

’’سزا تو سزا ہوتی ہے‘‘

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا تھا کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے خواہ جعلی ہو یا اصلی۔30سیکنڈ کی مختصر سزاسننے کے بعد ایک لمحے کے لیے تو یہ ایک منفرد اور مختلف سا لطیفہ لگا لیکن بعد میں احساس ہوا کہ یہ لطیفہ نہیں بلکہ سزا ہے ۔ اور ’’سزاسزا ہوتی ہے‘‘۔سزا بھی وہ جو ملک کے سب سے معتبر ادارے یعنی عدالت عظمیٰ کی طرف سے دی جائے اور سزا پانے والا شخص کوئی عام فرد نہیں بلکہ ملک کا چیف ایگزیکیٹو ہو عدالت عظمیٰ کے 7رکنی بینچ نے وزیر اعظم کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے تابر خاست عدالت قید کی سزا سنائی وزیر اعظم آئین کی دفعہ 63جی 1کے تحت توہین عدالت کے مرتکب پائے گئے۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کے فیصلے کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف نیوز چینلز پر دکھایا گیا جو کہ کسی بھی لحاظ سے ایک باشعور اور ذمہ دار قوم کے لیے باعث فخر نہیں تھا۔ قوم کا ایک بڑا طبقہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی مایوس دکھائی دے رہا تھا کیونکہ آئین میں اتنی مرتبہ ترامیم ہوچکی ہیں کہ ملک میں آنے والی ہر حکومت آئین کی من پسند شقوں میں ترامیم کرکے اسی آئین میں کسی بھی جرم کے ارتکاب پر اپنی بچت کے لیے محفوظ راستہ نکال لیتی ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سزا سزا ہوتی ہے لیکن اس ملک وقوم کے اربوں روپے ہڑپنے کے بعد مجرم کے لیے سزا کا انتخاب انتا سہل اور خوبصورت ہو تو کون بے وقوف ہو گا جو اسے قبول کرنے سے انکار کرے گا )پتا نہیں گیلانی صاحب کیوں کررہے ہیں( عوام کا ایک طبقہ بھی سوچتا ہے کہ اگر ہماری عدالتوں کی طرف سے 30سیکنڈ جیسی نرم و نازک سزائوں کی روایت مستقل بنیادوں پر چل پڑی تو پھر مستقبل میں آنے والی حکومتوں کی طرف سے ملک و قوم کے کروڑوں، اربوں روپے ہڑپنے کے بعد ایسی سزائوں کے حصول کے لیے ہماری عدالتوں کے باہر ایک ایسی طویل قطار کھڑی ہوگی کہ جن کے کیس نمٹانے میں ہزارسال کا عرصہ بھی شاید کم پڑجائے۔
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے توہین عدالت کی سزا کو اپنے لیے باعث فخر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے کرپشن یا اخلاقی جرم میں نہیں بلکہ آئین کی پاسداری کی سزا دی گئی ہے پتا نہیں موصوف کس پاسداری کا حوالہ دیتے ہیں ۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جناب وزیر اعظم نے عدالت عظمیٰ سے سزا ملنے کے بعد جتنی مبارک باد وصول کی وزیر اعظم منتخب ہونے پر اس کا چوتھائی حصہ بھی وصول نہیں کی ہوگی جب مبارک باد دینے کا معیار یہ رہ جائے تو وہاں کوئی تبدیلی محض ایک خواب ہی رہتی ہے اور اپنے روشن مستقبل کے خواب دیکھنا پھر حماقت سے کم نہیں ہوتا۔
توہین عدالت کیس میں سزا کے بعد ملک میں سیاسی، آئینی اور عوامی حلقوں میں یہ بحث طول پکڑ گئی ہے کہ ایک سزا یافتہ وزیر اعظم کو اپنے عہدے پر برقرار رہنا چاہیے یا نہیں، انہیں آئین کی پاسداری کا اگر اتنا ہی خیال ہے تو عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اپنے عہدے سے خود اور فوری مستعفیٰ ہو جانا چاہیے تھا جبکہ وہ آج بھی اسی پر قائم ہیں کہ صدر کو آرٹیکل 248کے تحت استثنیٰ حاصل ہے اس لیے وہ سوئس حکام کو خط نہیں لکھیں گے۔ جب خود حکومت ہی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے ماننے سے انکار کرے تو پھر ایسے میں کسی بھی عام آدمی سے آئین و قانون کی پاسدار ی اور احترام کو توقع رکھنا بے معنی ہوگا اور پھر عوام کا سڑکوں پر آجانا لازماً یہ تاثر پیدا کرے گا کہ شاید انصاف کے حصول کے لیے بھی طاقت کا استعمال ضروری ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک میں مسائل کے انبار لگے ہوں اور گو مگو اور سیاسی بحران کی سی کیفیت ہو تو پھر اثرات ملک کے اندر ہی نہیںرہتے بلکہ سرحدوں کے پار بھی پڑتے ہیں اور ملک کے چیف ایگریکٹیو کی حیثیت متنازع ہوجانے کے بعد تو کوئی بھی حکومت تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے کسی بھی قسم کے معاہدوں کے لیے تیار نہیں ہوتی کسی بھی ملک کے نظام کو چلانے کے لیے کئی ادارے موجود ہوتے ہیں جن میں ایک ادارہ پارلیمنٹ بھی ہوتا ہے جہاں عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے من پسند نمائندوں کو منتخب کرکے بھیجتے ہیں ۔عوام کی حمایت سے کوئی بھی لیڈر منتخب ہو کر پارلیمنٹ کا ممبر اور پھر ملک کا چیف ایگز یکٹیو بن جاتا ہے اور پھر ملک کے بارے میں تمام ضروری فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کرلیتا ہے۔
اگر کسی اسمبلی میں کسی جماعت کی اکثریت ہوتو وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتی ہے ورنہ دوسری جماعتوں سے مل کر حکومت سازی کرنے والی جماعت اکثر اپنے فیصلوں میں دوسری جماعتوں کی محتاج دکھائی دیتی ہے واضح رہے کہ پارلیمنٹ کا کام صرف قانون سازی کرکے ان قوانین پر نظر ثانی کرنا اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوتا ہے کہ ملک کی انتظامیہ یا اعلیٰ قیادت آئینی حدود سے تجاوز تو نہیںکررہی ۔
ایک غور طلب بات یہ ہے کہ حتمی اختیار پھر بھی سپریم کورٹ کے پاس ہی ہوتا ہے۔ مشہور قول ہے کہ اختیارات انسان کو بدعنوان بناتے ہیں اور مکمل اختیارات مکمل بدعنوان بنادیتے ہیں ہمارے ملک میں دیگر ممالک کی طرح ادارے مضبوط نہیں ہیں بلکہ افراد مضبوط ہیں جبکہ دوسرے ممالک میں افراد کے بجائے ادارے مضبوط ہوتے ہیں اور یہی خرابی کی جڑ ہے۔ ہمارے ملک میں ہونے والے گزشتہ انتخابات جو 18فروری 2008ء کو ہوئے تھے اور ملک کے وزیر اعظم کا انتخاب مارچ کے مہینے میں جاکر ہوا جب تک کے عرصے میں نہ تو عوام کو یہ پتا تھا کہ ان کی اور اس ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے والا شخص کون ہوگا اور نہ ہی خود اس شخص کو جو اس کا ر خیر کے لیے منتخب ہونے والا تھا جی ہاں مارچ 2008ء میں ملک کے وزیر اعظم کا تقرر عوام نے نہیں بلکہ آصف علی زرداری نے صرف اپنی صوابدید پر کیا اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خود آصف علی زرداری کا بحیثیت صدر تقرر عوام نے نہیں کیا بلکہ اس کالے قانون N.R.O کا نتیجہ تھا جس سے عوام کا قطعی کوئی تعلق نہیں تھا واضح رہے کہ N.R.O کو سپریم کورٹ پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے۔ بات صدارتی یا پھر پارلیمانی نظام کی نہیں بلکہ قیادت کے انتخاب کی ہے جسے منتخب کرنے کا حق صرف عوام کو ہے ‘ضرورت نئی حکومت یا نئے وزیر اعظم کی نہیں بلکہ نظام کے بدلنے کی ہے جب تک اس ملک میں امیر، غریب، عوا م و حکمران، مراعات یافتہ اور مراعات سے محروم طبقے میں تفریق اور امتیازی سلوک جڑ سے ختم ہو کر عدل و انصاف قائم نہیں ہوجاتا قوم کی حالت نہیں سدھر سکتی قوموں کی کامیابی و ترقی کا راز صرف اور صرف عدل میں پوشیدہ نظر آئے گا ۔
خلیفہ دوم فاروق اعظم حضرت عمرؓ بن الخطاب کا فرمان عالیشان ہے کہ ایک لمحے کا عدل ساری زندگی کی عبادت سے افضل ہے ‘جی ہاں یہ اس عظیم المرتبت ہستی کا قول ہے جس کے عدل کا اس جہاں میں کوئی ثانی نہیں جن کے عدل کی گواہی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے باطل ادیاں بھی دیتے نہیں تھکتے جن کے بنائے ہوئے ضابطوں اور سنہری اصولوں کو معیار زندگی بنانے کے بعد انہیں صرف پڑھنے، وقت گزاری، اور محض بحث و تکرار تک ہی محدود نہیں رکھا گیا بلکہ اس پر عمل کرکے ان سنہری اصولوں کو اپنے اپنے ممالک میں فافذ کیا گیا اور پورا پورا نافذ کیا گیا ۔
اس جدید دور میں اگر ہمارے ملک کا موازنہ دیگر ترقی یافتہ ممالک سے کیا جائے تو کھلی کتاب کی طرح ایک ایک چیز کا فرق ہمارے سامنے عیاں ہوجائے گا، عدل و انصاف، قانون کی حکمرانی، کرپشن کا مکمل خاتمہ اور اس پر بروقت سزائیں خواہ مجرم کوئی ہو قطع نظر اس کے کہ وہ وزیر اعظم ہے یا ایک عام سا غریب انسان سزا کے معاملے میں تفریق اور امتیاز کا خاتمہ ہی ہمیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرسکتا ہے کیوں کہ’’سزا تو سزا ہوتی ہے‘‘۔

(بہ شکریہ اداریہ جسارت)