- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

ملکی سلامتی کیلئے جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت!

وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ امریکہ سے اب پہلے جیسا تعلق نہیں رہے گا۔ ہم امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیں گے۔
ایک غیرملکی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے مہمندایجنسی میں پاک فوج کی سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے ہیلی کاپٹروں کی کارروائی اور ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے یکطرفہ آپریشن کو پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاملات انتہا تک پہنچ چکے ہیں اور ہمارے پاس ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کے حوالے سے عوامی خواہشات کے احترام کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔
ادھر پاک فوج کے ترجمان نے بھی متنبہ کیا ہے کہ نیٹو کی حالیہ کارروائی کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ غیرملکی نشریاتی اداروں کے نمائندوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے میجر جنرل اطہر عباس نے کہاکہ نیٹو کی جانب سے پاکستانی فوجیوں کی شہادت پر محض افسوس کا اظہار کافی نہیں، ہم اسے اس لئے بھی تسلیم نہیں کرتے کہ ایسا سب کچھ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔
دریں اثنا نیٹو حملے کے خلاف ملک بھر میں پیر کو بھی مذہبی، سیاسی، وکلاء اور طلبا تنظیموں کے مظاہرے جاری رہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی نیٹو فورسز کے حملے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ چین، روس اور اسلامی ممالک کی تنظیم اوآئی سی نے بھی اسے پاکستان کی خودمختاری پر حملہ قراردیا ہے۔
وزیراعظم گیلانی نے ایبٹ آباد آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے اسے پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی سے تعبیر کیا ہے۔ کاش یہ بات ایبٹ آباد آپریشن کے وقت کہتے تو شاید آج مہمند ایجنسی کا المناک واقعہ پیش نہ آتا۔
2مئی کو حکومت پاکستان کے کمزور ردعمل کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے کہ انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس اور پارلیمنٹ کی قراردادوں کے باوجود ہماری فضائی اور زمینی سرحدیں پامال کرتے ہوئے بے گناہ قبائلیوں اور فوجی چوکیوں پر حملوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ ان قراردادوں میں کہاگیا تھا کہ قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے بند نہ کئے گئے تو پاکستان نیٹو فورسز کی سپلائی لائن کاٹ دے گا مگر ڈرون حملے بند ہوئے نہ سپلائی لائن کاٹی گئی۔
مہمند ایجنسی کے سانحے کے بعد وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی نے نیٹوفورسز کے لئے سامان رسد لے جانے والے کنٹینروں کو روکنے اور بلوچستان میں شمسی ایئربیس 15روز کے اندرخالی کرنے کا پیغام دیا۔ کنٹینرز تو روک دیئے گئے ہیں مگر امریکہ شمسی ایئربیس خالی کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔تاہم صدر آصف زرداری نے ایئربیس خالی کرانے کی ڈیڈلائن بڑھانے سے انکار کر دیاہے، اللہ کرے صدر اپنے اس موٴقف پر قائم رہیں کیونکہ یہ قوم کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ یہ اڈہ افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائیوں کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حملوں کے کام بھی آتا رہا ہے۔ امریکہ اس مقصد کے لئے جیکب آباد کا شہباز ایئربیس بھی استعمال کر رہا تھا۔ ان اڈوں کے عوض اس نے جو پیسے دیئے تھے ان کا حساب تو حکمرانوں کے پاس ہوگا مگر قوم کو دہشت گردی اور بدامنی کا جو تحفہ ملا وہ سب کے علم میں ہے۔
امریکی حکام اور سینیٹر مہمندایجنسی کے سانحے کے خلاف پاکستان کی حکومت اور عوام کا ردعمل دیکھ کر یاد دلا رہے ہیں کہ ”پاکستان مت بھولے ہماری امداد اس کے تعاون سے مشروط ہے“۔ مگر وہ خود اس بات کو بھول رہے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلط کی ہوئی جنگ میں ان سے کہیں بڑھ کر قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے 5ہزارسے زائد فوجی جوان اور افسر اور 35ہزار سے زائد بے گناہ شہری اس جنگ میں شہید ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ سوارب ڈالر کا مالی نقصان الگ جو ملکی بجٹ کے مجموعی حجم سے بھی زیادہ ہے۔ اتنا جانی اور مالی نقصان تو امریکہ اور اس کے سارے اتحادیوں نے مل کر بھی نہیں اٹھایا۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے چندارب ڈالروں کے عوض پاکستان کی خودمختاری خرید لی ہے توایسا نہیں ہے، پاکستان کے 18کروڑعوام کسی قیمت پر اپنے ملک کی خودمختاری کا سودا نہیں کریں گے۔
پاکستانی قوم نے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے مفادات کے خلاف پہلے کچھ کیا ہے نہ آئندہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس نے اپنی بساط سے بڑھ کر امریکہ کی چھڑی ہوئی جنگ میں نقصانات اٹھائے لیکن امریکہ اور نیٹو جو کچھ کر رہے ہیں اس سے پاکستان کے بارے میں ان کے منفی عزائم کا صاف پتہ چلتا ہے۔ پاکستان نے اپنے بہادر فوجیوں کی شہادت کے خلاف احتجاج اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے علامتی طور پر چنداقدامات کرنے کے اشارے دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں متعلقہ حکام سے کہہ دیا گیاہے کہ وہ نیٹو کے لئے سامان لانے والے کسی بحری جہاز کو پاکستانی بندرگاہوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوجی وفودکے پہلے سے طے شدہ امریکہ کے دورے منسوخ کر دیئے گئے ہیں اورامریکی فوجی وفود کا خیرمقدم نہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ افغانستان کے مسئلے پر ہونے والی بون کانفرنس کا پاکستان بائیکاٹ کرے گا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے حالیہ حملے کے بعد اب مزید روایتی باتیں نہیں ہوں گی اورقوم کو مطمئن کرنے کے لئے بڑے بڑے اقدامات کرنے ہوں گے۔نیز صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے جلد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا۔
عوام اس وقت حکومت سے ملک کی سلامتی اورخودمختاری کے تحفظ کے لئے جرأت مندانہ فیصلوں کی توقع کر رہے ہیں۔ ہم کسی سے لڑائی نہیں چاہتے لیکن اپنے ملک کو ہر قیمت پر محفوظ و مامون دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب یہ سیاسی اور عسکری قیادت پر ہے کہ وہ کس طرح قوم کی امنگوں پر پورا اترتی ہے۔
وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے میں دیر نہ کریں۔ اپوزیشن لیڈروں نے بھی اس کی پرزور حمایت کی ہے۔ عوام کے منتخب لیڈر پارلیمنٹ میں ملک کے دفاع اور دوسرے قومی امور پر اپنی تجاویز پیش کریں گے تو متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے میںآ سانی ہوگی۔
ہمارے لیڈروں سے ماضی میں اگر کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں تو اب ان کے ازالے کا وقت آگیا ہے۔ اب ہمیں صرف اپنے ملک کے مفاد کو دیکھنا ہے، اس کے مطابق فیصلے کرنے ہیں اور ان پر تمام مصلحتوں سے بالاتر ہوکر عملدرآمد کرنا ہے۔ ملک اس وقت بیرونی دباؤ کے علاوہ بے شمار اندرونی مسائل سے دوچارہے، جن پر قابو پانے کے لئے دانشمندانہ قیادت اور جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔

(بہ شکریہ اداریہ جنگ نیوز)