- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

پیکرِعلم وعمل علامہ مجاہد مولانا محمد ابراہیم دامنی رحمہ اللہ

ایرانی اہل سنت کے ممتاز عالم دین، مصنف و مترجم، داعی و خطیب، پیغام رساں حق اور باطل کی کمر توڑنے والے عظیم مجاہد مولانا محمد ابراہیم دامنی رحمہ اللہ تعالی کی پیدائش ایک دیندار گھرانے میں ہوئی جو کھیتی باڑی کرکے اپنے پسینے کی کمائی کھاتا تھا اور قوت ایمانی و صحیح عقیدے پر قائم تھا۔
دو بچوں کی پیدائش کے بعد جو اللہ کو پیارے ہوگئے تھے گویا اللہ تعالی نے ’’نعم البدل‘‘ عطا فرمایا اور ۱۹۵۰ء میں مولانا دامنی رحمہ اللہ کی پیدائش ہوئی۔ آپ کے والد نے آپ کا نام ابراہیم رکھا تا کہ آگے چل کر یہ بیٹا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح دین اور توحید کے دفاع کے لیے ’’آتش نمرودی‘‘ میں کھودنے کو بھی تیار رہے۔
بچپن ہی سے مولانا دامنی رحمہ اللہ نے دینی تعلیم کے حصول کا آغاز کیا، چنانچہ گاؤں کے مکتب قرآن میں داخل ہوکر آپ رحمہ اللہ نے ’’سید نجم الدین شاہ‘‘ سے قاعدہ بغدادی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ انتہائی ذہین تھے، اور اللہ کی مدد سے تیس دنوں کے اندر قرآن پاک کا ناظرہ مکمل کر لیا جب آپ کی عمر صرف چھ سال تھی۔

طلب علم کیلیے اسفار:
مولانا ابراہیم دامنی رحمہ اللہ نے اپنے علمی اسفار کا آغاز سندھ کے ’’جیمس آباد‘‘ شہر سے کیا۔
فارسی کی بعض کتابوں کے علاوہ ’’مالابدمنہ‘‘ کو پڑھ کر آپ مولانا محمد رحمہ اللہ کے پاس تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ ’’ٹنڈو اللہ یار‘‘ کے جامعہ دارالعلوم اشرف آباد میں داخل ہوئے جہاں آپ نے وقت کے مایہ ناز علماء و فقہاء سے کسب فیض کیا جن میں علامہ ظفراحمد عثمانی اور مولانا جمشید رحمہما اللہ کا نام قابل ذکر ہے۔
آپ رحمہ اللہ کے اساتذہ کا شمار اپنے دور کے چوٹی کے علماء و محدثین اور مفسرین قرآن میں ہوتا ہے۔
جامعہ اشرف آباد کے شیخ الحدیث و مدیر مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہما کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ علامہ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ نے مولانا ظفراحمد عثمانی جو کہ اپنی مایہ ناز کتاب ’’اعلاء السنن‘‘ کی وجہ سے اہل علم میں کافی مشہور ہیں، کے بارے میں فرماتے ہیں: «هو العلامة المحقق، الباحث المدقق، الثبت الحجة المفسر، المحدث الفقيه الأصولي البارع، المؤرخ الأديب، الورع الزاهد ظفر أحمد بن لطيف العثماني التهانوي».
مولانا دامنی رحمہ اللہ نے مشکوۃ المصابیح اور صحیح بخاری مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ سے پڑھیں اور ترمذی شریف مولانا محمد مالک کاندھلوی رحمہ اللہ سے پڑھی، یہ تمام حضرات فقہ و حدیث کے امام تھے۔
مولانا ابراہیم دامنی رحمہ اللہ کی تربیت ان عظیم ہستیوں کے دست مبارک پر ہوئی، آپ نے دینی و دعوتی مناھج و اسلوب انہی شخصیات سے حاصل کیا۔ بلاشبہ آپ رحمہ اللہ ان نامور علماء و محدثین کا عملی عکس تھے۔
آپ رحمہ اللہ نے علم تفسیر میں مہارت حاصل کرنے کیلیے جنوبی پنجاب کے شہر ’’رحیم یارخان‘‘ کا سفر کیا جہاں آپ نے علامہ عبدالغنی جاجروی رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ رکھا اور قرآن کا ترجمہ و تفسیر آپ رحمہ اللہ سے حاصل کیا۔ مولانا دامنی رحمہ اللہ ہمیشہ اپنی تقاریر و گفتگو میں قرآنی آیات سے استدلال فرماتے تھے اور حق کو واضح کرکے باطل کو شکست سے دوچار کرتے تھے۔
صرف اٹھارہ برس کی عمر میں آپ رحمہ اللہ نے تمام دینی علوم کے حصول سے فراغت حاصل کیا۔

علمی و تعلیمی خدمات کا آغاز:

درس نظامی کی تکمیل کے بعد آپ رحمہ اللہ اپنے آبائی علاقہ مکران (بلوچستان) واپس آئے۔ معروف ادیب و شاعر مولانا عبداللہ روانبد رحمہ اللہ نے آپ کی تشکیل ’’سرباز‘‘ شہر کی ایک بستی ’’چراغان‘‘ میں کی جہاں آپ ایک مسجد کے پیش امام مقرر ہوئے۔ مولانا ابراہیم دامنی رحمہ اللہ نے عوام کی ہر طرح خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، حتی کہ رفاہ عامہ کے امور میں آپ پیش پیش تھے جس کی وجہ سے مقامی لوگ آپ کی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔

دعوتی و اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز نو ’’ایرانشہر‘‘ میں:
وسطی بلوچستان کے شہر ’’ایرانشہر‘‘ کے معروف دینی مدرسہ ’’شمس العلوم‘‘ کے سابق مدیر مولانا قمر الدین ملازئی رحمہ اللہ کی دعوت پر آپ تدریس کے لیے ’’ایرانشہر‘‘ تشریف لے آئے جہاں آپ رحمہ اللہ سرکاری اسکولوں میں اسلامیات اور عربی زبان کی تدریس بھی کرتے رہے۔
مولانا ابراہیم دامنی رحمہ اللہ نے ایک ایسے دور میں اپنی اصلاحی سرگرمیوں کو تیز کردیا جب پورا خطہ اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازشوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ایک طرف سے ملک الحاد و دین بیزاری، کمیونیزم اور مارکسیزم جیسے خیالات کی لیپٹ میں تھا تو دوسری جانب بدعات و خرافات اور توحید و سنت سے بیزار عناصر سرگرم عمل تھے۔ مولانا دامنی رحمہ اللہ اپنے بیانات و خطبات اور اصلاحی سرگرمیوں کے ذریعے ان سب عناصر کے سامنے سینہ سپر ہوئے اور عوام کی رہ نمائی کرتے رہے۔ اس سلسلے میں آپ نے رسالے بھے لکھے اور قرآنی آیات سے مستدل خطبات بھی دیتے رہے، چنانچہ حق گوئی کی پاداش میں کئی مرتبہ آپ کو جیل بھی جانا پڑا اور آپ کو طرح طرح کی اذیتیں بھی دی گئیں۔

’’مسجد مکی‘‘ کی تاسیس:
ایک مرتبہ لوگوں کا ایک وفد مولانا دامنی کے پاس آکر انہیں اپنی مسجد میں قبلے کی سمیت تعین کرنے کے لیے بلایا۔ جب لوگوں نے آپ کا حسن اخلاق، علم و تقوی اور عظمت دیکھی تو منصب امامت قبول کرنے کی درخواست کرنے لگے، آپ رحمہ اللہ نے چند شرائط کے ساتھ ان کی یہ درخواست قبول کی۔ اسی دوران آپ شمس العلوم سے ’’مدرسہ حقانیہ‘‘ منتقل ہوئے جو خیر آباد کے علاقے میں ہے۔
مولانا دامنی رحمہ اللہ کے یومیہ معمولات طے تھے، آپ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک مسجد میں درس قرآن اور بعض دنوں میں درس عقیدہ دیا کرتے تھے۔ ناشتہ کرنے کے بعد مدرسہ حقانیہ تشریف لے جاتے اور دو پہر بارہ بجے تک تدریس میں مصروف ہوتے۔
ظہر کی نماز سے لیکر عصر کی نماز تک اسکول میں اسلامیات اور عربی پڑھاتے تھے۔ عصر و مغرب کے بعد بعض کتب کے ترجمے یا کمپوزنگ میں لگ جاتے۔ آپ رحمہ اللہ نے عشاء کے بعد ایک گھنٹہ عصری تعلیمی اداروں کے طلباء و اساتذہ کے لیے مختص فرمایا تھا جنہیں آپ ’’تیسیر الادب‘‘ پڑھاتے تھے۔ آپ ’جمعیت اتحادیہ اسلامی‘ کے رکن بھی تھے جس کے بانے مولانا محمدعمر سربازی رحمہ اللہ تھے۔ مولانا ابراہیم دامنی رحمہ اللہ اس جمعیت کے مجلے کے ذمہ دار تھے۔
مولانا کا پورا دن ایسی سرگرمیوں میں گزرتا تھا۔ آپ صرف چار گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت آرام فرماتے تھے مگر انہیں انتہائی خوشی تھی کہ امت کی رہ نمائی و اصلاح میں مصروف تھے۔

اسلامی تربیت اور وعظ کے میدان کا شہسوار:
نئی نسل کی اسلامی تربیت مولانا ابراہیم دامنی رحمہ اللہ کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔ آپ پوری زندگی ایک مصلح مربی کی حیثیت سے گزارتے رہے۔ اس مہم کے لیے آپ رحمہ اللہ نے مخلص علماء کا ایک دستہ تیار کرکے ان کے دلوں کو درد امت سے پر نور فرمایا۔ اس کے علاوہ عام لوگوں سمیت نوجوان طبقے کی اسلامی تربیت کے لیے آپ نے متعدد تاریخی ومثالی تقریریں کیں جو اب بھی کیسٹوں میں دستیاب ہیں۔
مولانا ابراہیم دامنی رحمہ اللہ نے فرق باطلہ کے رد میں متعدد تحقیقی تقریریں کرکے قرآن و سنت سے استدلال کے بعد صحیح اسلامی عقائد و افکار کو بیان کرتے رہے۔

مولانا ابراہیم دامنی پسِ دیوار زنداں میں:
مولانا ابراہیم رحمہ اللہ آیت کریمہ: ’’ولایخافون فی اللہ لومۃ لائم‘‘ کی حقیقی تصویر تھے، حق گوئی آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ حکومت نے تین مرتبہ آپ رحمہ اللہ کو گرفتار کرکے جیل کی تنگ و تاریک کو ٹھڑیوں میں ڈال دیا۔ ان کا جرم صرف ناموس صحابہ رضی اللہ عنہم اور عقائد و مسلک اہل سنت کا دفاع تھا۔
پہلی دفعہ جب آپ رحمہ اللہ کو حراست میں لے لیا گیا آپ چھ مہینے تک قید میں رہے۔ دوسری گرفتاری میں آپ کو ایک برس نو مہینے تک تششد سہنے کے بعد رہائی ملی۔ جبکہ تیسری مرتبہ آپ کو گرفتار کرکے سولہ ۱۶ برس قید کی سزا سنائی گئی۔ جب انتہا پسند حکومتی عناصر مولانا کی پسپائی سے مایوس ہوئے اور انہیں یقین ہوا مولانا خاموشی پر ہرگز رضامند نہیں ہونگے، تو قریباً نو برس قید کے بعد آپ کو رہا کردیا گیا۔
قید و بند کے دوران آپ کو سخت اذیتیں دی گئیں؛ ایک مرتبہ ۱۹۹۱ء میں جب آپ رحمہ اللہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوئے تو خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے آپ کو گرفتار کرکے ایرانشہر سے زاہدان جیل منتقل کیا۔ آپ چھ مہینے تک زاہدان جیل میں اس حال میں رہے کہ آپ کے اہل خانہ سمیت کسی بھی شخص کو آپ کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ اس دوران آپ پر دباؤ ڈالا گیا، اذیتیں پہنچائی گئیں اور ٹارچرسیلوں کی نذر کردیا گیا مگر آپ اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ مجبور ہوکر تنگ نظر حکام نے آپ کو زاہدان جیل سے تہران جیل منتقل کردیا۔ تہران میں آپ کو قید تنہائی میں رکھ کر نت نئے تشدد کے طریقے آپ پر آزمائے گئے۔ کئی سالوں تک آپ رحمہ اللہ کو اہل خانہ سے ملنے یا فون پر رابطہ نہیں کرنے دیا گیا تا کہ شاید آپ اپنے بعض مواقف سے دستبردار ہوجائیں جیسا کہ سنی علاقوں میں شیعہ مشنری اور لوگوں کے مسلک بدلنے کی کوششوں کیخلاف آواز اٹھانا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع کے واقعات کی مذمت کرنا۔ مگر جیسے جیسے فرقہ پرست عناصر کا تشدد بڑھتارہا مولانا رحمہ اللہ کا عزم مزید راسخ ہوتا، یہ سب قرآن کی مصاحبت کی برکت سے تھا۔
کچھ عرصے کے بعد مولانا ابراہیم دامنی رحمہ اللہ کو مشہد کی سنٹرل جیل ’’وکیل آباد‘‘ منتقل کیا گیا۔
مشہد جیل میں علماء کی مخصوص سیل میں آپ کو لیجانے کے بجائے آپ کو عام قید خانہ میں رکھا گیا تا کہ مختصر سہولتوں سے بھی آپ کو محروم رکھا جائے۔ یہاں تک کہ ایران میں سابق صدر محمد خاتمی بر سر اقتدار آئے اور مذکورہ جیل کا سپر نٹڈنٹ تبدیل ہوا۔ چنانچہ نئے جیل سربراہ نے آپ رحمہ اللہ کو علماء کی مخصوص سیل میں منتقل کیا اور قید کے آخری دو سالوں میں آپ کو اعزہ و اقارب سے ملنے دیا گیا۔
جب حکام کو پختہ یقین ہوگیا یہ آدمی اپنے موقف اور سرگرمیوں سے باز آنے والا نہیں تو تقریبا دس برس قید کے بعد آپ کو رہا کردیا گیا۔ قید کے دوران آپ نے قرآن پاک مکمل طور پر حفظ کرلیا اور اسی دوران متعدد کتابیں بھی ترجمہ کیں۔

مولانا ابراہیم دامنی رحمہ اللہ متعدد کتابوں کے مصنف یا مترجم ہیں، جن میں بعض کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ آداب زندگی،
۲۔ استعمال و معاملہ مواد مخدر (منشیات کا استعمال اور کار و بار)،
۳۔ رباعیات دامنی،
۴۔ دستور آسان،
۵۔ آیات منتخبات (اسلامی عقائد قرآن کی روشنی میں)،
۶۔ تحول فرہنگ (ثقافت کی تبدیلی)،
۷۔ عقیدتی کتاب (بلوچی زبان میں)،
۸۔ نمازی کتاب (بلوچی زبان میں)،
۹۔ بچوں کے لیے رسالے،
۱۰۔ حضرت معاویہ و حقائق تاریخی (اردو سے فارسی میں ترجمہ)،
۱۱۔ رجال الفکر والدعوۃ ج۱، ۲، ۵، (عربی سے فارسی میں ترجمہ)،
۱۲۔ ازدواج اسلامی،
۱۳۔ حیات المسلمین (ترجمہ)،
۱۴۔ مناجات مقبول (ترجمہ)،
۱۵۔ ذکری ہا را بشناسیم،
۱۶۔ ھنگامی کہ نسیم ایمان وزید (ترجمہ)،
۱۷۔ ارشاد الرشید (ترجمہ)،
۱۸۔ برداشتی از سورہ کھف (ترجمہ)،
۱۹۔ تیسیر الادب (دوجلدوں میں)۔

سانحہ وفات:
پیکر علم وعمل، اخلاص و مجاہدت اور حق کی راہ میں جہد مسلسل اختیار کرنے والے علامہ محمد ابراہیم ایرانشہر۔ سرباز کے راستے میں ایک روڈ ایکسڈنٹ میں پر اسرار طور پر انتقال کر گئے۔ یہ جان سوز سانحہ ۲۲ جمادی الاولی ۱۴۲۲ ھ (۱۳ اگست ۲۰۰۱ء ) کو پیش آیا۔
آپ کے جنازے میں ہزاروں علماء و طلباء اور ان سے محبت رکھنے والے عوام شریک ہوئے۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ و اسکنہ فسیح جنانہ۔