مذہب اور پسندیدگی
تعلیم نے نوجوانوں کو یہ شعور دیا کہ وہ اپنی زندگی کے معاملے میں خود مختار ہیں اور ہمارے مذہب اسلام نے بھی ہر شخص کی ذاتی زندگی کے حوالے سے اس کی پسند کو ترجیح دی ہے۔ اپنے حقوق کی آگہی سے نوجوان نسل کو والدین کے سامنے اپنے حقوق کی آزادی اور پسندیدگی کا احساس دلایا اور آج کے دور میں بہت حد تک والدین اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ شادی بے شک دو خاندانوں کا ملاپ ہے لیکن اس میں مرکزی کرداروں لڑکا اور لڑکی کی پسند کو ضرور اہمیت دینی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں کہ خاندان والوں کی ناچاقی کے باوجود لڑکا اور لڑکی کی پسند کے باعث شادی ہوجاتی ہے لیکن ایسی شادی بعض صورتوں میں تو کامیاب ہوجاتی ہیں لیکن بعض صورتوں میں خاندان والوں کی باہمی چپقلش اور دیگر منفی عناصر کی بدولت نتائج مثبت نہیں نکلتے۔
لومیرجز ناکام کیوں؟
والدین کی رضامندی‘ رشتہ داروں کی ناچاقی اور اس طرح کے درپیش دیگر رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد ہونے والی شادی بھی ناکام کیوں ہوجاتی ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب دونوں فریقین ایک دوسرے کو پسند کرنے کے بعد سوچ سمجھ کر شادی کا فیصلہ کرتے ہیں تو آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ پسند اور مرضی سے کی جانیوالی شادی بھی ناکام ہوجاتی ہے۔ محبت کے تحت کی جانے والی شادیوں میں سے 50 فیصد سے زائد شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اور ان میں سے اکثر کی مدت ایک سال یا چند ماہ سے بھی کم ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے بہت سی معروف شخصیات ایسی ہیں جن کی شادی کچھ عرصے بعد ہی ناکام ہوجاتی ہے اور پھر وہی فریقین جو ایک دوسرے کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آتے ہیں اور ایک دوسرے کی دل کھول کر برائیاں کی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کیلئے دلوں میں موجود محبت نفرت کا روپ اختیار کرلیتی ہے اور بعض اوقات میں تو دونوں فریقین کسی نہ کسی طرح زندگی کی گاڑی کو دھکیلتے رہتے ہیں لیکن بعض اوقات حالات بالکل برداشت سے باہر ہوجاتے ہیں اور اتنے ارمانوں اور خواہشات سے کی جانے والی شادی کا نتیجہ علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ ہوتا یہ ہے کہ جب دونوں فریقین ایک دوسرے کو پسند کرنے کے بعد شادی کے مضبوط بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو مرد حضرات ساری ذمہ داری عورت پر ڈال دیتے ہیں کہ تمہیں اپنی فرمانبرداری اور سلیقہ شعاری سے نہ صرف میرے والدین کا دل جیتنا ہے بلکہ ان کے ہر ظلم وستم کو خوش اخلاقی سے برداشت کرنا ہے اور دوسری طرف والدین اور دیگر اہل خانہ اس میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لڑکے نے والدین کی اور بہنوں کی پسند کو کوئی اہمیت نہیں دی اور شادی کے معاملے میں اپنی مرضی کی بلکہ وہ اکثر لڑکے کی بجائے آنیوالی بہو کو اس قسم کے طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان حالات میں اگر بیچار ی لڑکی شوہر سے شکوہ کرتی ہے تو الٹا اسے سمجھوتہ کرنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کا لیکچر دیا جاتا ہے جبکہ اس قسم کا سمجھوتہ دل سے نہیں حالات سے کیا جاتا ہے اور حالات کے تحت کیا ہوا سمجھوتہ زیادہ سے زیادہ ایک دوہفتے ہی چلتا ہے اور لڑائی کا کوئی نیا پہلو نکل آتا ہے اور بیچاری سمجھوتہ کرنے والی لڑکی کا ضبط بھی جواب دے جاتا ہے اور روز کی گھریلو ناچاقی سے نہ صرف پورے گھر کاماحول ٹینشن کا شکار رہتا ہے بلکہ اکثر حالات میں بات بڑھتے بڑھتے علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے۔اگر لڑکی مجبوراً ایسا کرتی ہے تو اکثر والدین اسے یہی سمجھاتے ہیں کہ وہ اپنا گھر خراب نہ کرے اور جس طرح ممکن ہو گزارا کرے جبکہ ایسی صورتحال میں مرد بھی کسی حد تک قصوروار ہوتا ہے کیونکہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ بیوی اور ماں میں سے کون صحیح ہے اور کون غلط جب ماں کی سنتا ہے تو اسے بیوی غلط لگتی ہے اور بیوی کی باتیں سنتا ہے تو اسے ماں غلط لگتی ہے اور قوت فیصلہ کی کمی ہوجاتی ہے۔
فوزیہ سلطانہ
(بہ شکریہ اداریہ ماہنامہ عبقری)
مولوی عبدالحکیم شہ بخش، دارالعلوم زاہدان کے استاد اور "سنی آن لائن" ویب سائٹ کے…
دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے زاہدان میں دو دینی مدارس پر سکیورٹی اور فوجی دستوں…
سنیآنلاین| سیکورٹی فورسز نے آج پیر کی صبح (11 دسمبر 2023ء) زاہدان میں دو سنی…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آج (8 دسمبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی…
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک دسمبر 2023ء کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب…