- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

پاپائے روم کی عالم اسلام میں مداخلت

popeپاپائے روم کی اسکندریہ میں قبطی عیسائیوں کے کلیسا پر بم حملوں کی مذمت کو مصر کے صدر حسنی مبارک نے ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مصر میں ویٹی کن کے سفیر کو نکل جانے کا حکم دے دیا۔ یاد رہے کہ پاپائے روم بینی ڈکٹ نے 10 جنوری کو 119 ممالک کے سفراءسے خطاب کرتے ہوئے مصر میں عیسائیوں کے خلاف زیادتیوں پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت ِ مصر سے ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا، ساتھ ہی حکومت ِپاکستان سے قانونِ توہین ِ رسالت کی تنسیخ‘ آسیہ کی فوری رہائی اور مسیحی برادری پر مبینہ تشدد کے خاتمے پر زور دیا تھا جس سے پاکستان کے عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، تاہم پاکستان کے مغرب نواز حکمرانوں نے تادم تحریر نہ تو پاپائے روم کے اس گستاخانہ بیان کی مذمت کی نہ ہی اس کے سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا۔

کیا ہمارے حکمرانوں میں حسنی مبارک کی سی جرات بھی نہیں ہے کہ وہ بینی ڈکٹ کے اس شرانگیز بیان پر احتجاج کریں؟ 31 دسمبر کو جب شمع رسالت کے پروانوں نے تحفظ ِناموسِ رسول کے لیے پاکستان کے طول و عرض میں اپنے عزم اور مسلم امہ سے یکجہتی کا پُرامن مظاہرہ کیا تو صلیبی صہیونی ٹولے اور اس کے سرپرست امریکی استعمار پر اوس پڑگئی۔ اور یہ مرکز و محورِ اسلام پر پاپائے روم کے اوچھے وار کا جواب تھا۔ میری مراد پاکستان کے انسدادِ توہین رسالت قانون کے خلاف پاپائے روم بینی ڈکٹ کی جانب سے کی گئی شرانگیز مہم سے ہے جو ہمارے ملک کا اندرونی معاملہ تھا، لیکن اس میں پوپ نے مسیحی اقلیت کی بے جا حمایت کرکے یہ تاثر دیا کہ ہمارے رسول کی توہین کوئی اتنا سنگین مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے تدارک کے لیے اتنا سخت گیر قانون بنایا جائے۔
ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ جب بینی ڈکٹ نیا نیا پوپ بنا تھا تو اس کے چند ہی دن بعد عہد ِوسطیٰ کے کسی بازنطینی بادشاہ کا قول دوہراتے ہوئے اس نے کہا کہ (نعوذ باللہ) ”حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جنگجو اور دہشت گرد تھے۔“ کیتھولک فرقے کے مسیحی، پاپائے روم کو روئے ارض پر یسوع مسیح کا خلیفہ اور اس کی ویٹی کن ریاست کو حکومت ِالٰہیہ کا پایہ تخت سمجھتے ہیں اور اس کی تقلید کو اپنا دینی فرض تصور کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں پاپائے روم کو اپنے منصب کا بھرم رکھنے کے لیے اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہیے تھا، لیکن رواداری اور احتیاط کا دامن چھوڑ کر اس نے قصداً و عمداً پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسے توہین آمیز اور گستاخانہ کلمات کہے۔
کیا اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ اس کے پیرو مسیحی جو اس کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو یسوع مسیح کی آواز سمجھتے ہیں اور اسے یومِ آخرت اپنا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں، اُن پر اس کی ہرزہ سرائی کا کیا اثر ہوگا؟ کیا یہ مسیحیوں کو درپردہ سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ و شتم کا نشانہ بنانے کی شہ نہ تھی؟ اب تو پاپائے روم نے دیکھ لیا ہوگا کہ غیر ملکی رقوم سے چلنے والے غیر سرکاری ادارے‘ مسیحی برادری کے ووٹوں کی خواہاں سیاسی جماعتیں‘ خودساختہ روشن خیال دانشور‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات سے چلنے والے نشریاتی ادارے جنہوں نے قانون انسدادِ توہینِ رسالت کی تنسیخ کے لیے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا‘ وہ پاکستان کی قوم سے کتنے الگ تھلگ‘ کتنے کٹے ہوئے اور کتنے غیر مو ¿ثر ہیں۔ پاکستان کے کلمہ گو عوام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ انہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی والہانہ عقیدت ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ہر طبقے کے افراد اپنے دفاتر‘ اپنا کاروبار‘ اپنے روزمرہ کے معمولات بندکرکے سراپا احتجاج بن گئے اور نظم و ضبط کا یہ عالم کہ اس دن تشدد کی کوئی واردات سننے میں نہیں آئی۔ اگر ساری قوم ناموسِ رسول کے تحفظ پر متفق نہ ہوتی تو کیا 31 دسمبر کا احتجاج کامیاب ہوتا جسے حکومت ناکام بنانا چاہتی تھی مسیحی اقلیت اور اس سے بڑھ کر اپنے صلیبی صہیونی آقاؤں کی خوشنودی کے لیی؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر عوام اور حکمرانوں میں بڑا بُعد ہے۔ چنانچہ آسیہ کے مقدمے میں گورنر پنجاب کی مداخلت قبل از وقت تھی کیوں کہ ابھی عدالت ِعالیہ اور عدالتِ عظمیٰ کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور اُسے اپنے خلاف ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا قانونی حق حاصل تھا۔ اس کے بعد بھی اگر سزا بحال رہتی تو صدرِ ریاست آئین میں دی گئی مراعات استعمال کرتے ہوئے ملزمہ کو معاف کرسکتے تھے۔ لیکن نہ جانے کیوں ہمارے حکمران گوروں کی گیدڑ بھبکیوں میں آکر اپنے ملک کے قوانین تک کو منسوخ کرنے پر بہت جلد آمادہ ہوجاتے ہیں، گویا یہ ملک آزاد ہے ہی نہیں بلکہ ابھی تک گوروں کا غلام ہے۔ پہلے انگریزوں کا اب امریکیوں کا۔
ہمارے عوام اپنے حکمرانوں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا پاپائے روم کے واویلا مچانے پر ملک کا قانون بدل دیا جائے گا؟ گو برطانیہ اور امریکہ کی اکثریت کیتھولک فرقے سے تعلق نہیں رکھتی، تاہم مسیحی ہونے کے ناتے وہ سب ایک ہیں۔ وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ پاپائے روم نے یورپی یونین کی رکن ریاستوں کو اس تنظیم میں ترکی کی رکنیت کی مخالفت کرنے کی پُرزور ہدایت کی تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیکولر ہونے کے باوجود آج تک یورپی یونین میں ترکی کا داخلہ نہیں ہوسکا۔ فرانس کے سابق صدر جسکارودی استنانگ جسے اس تنظیم کی دستور سازی کا کام سونپا گیا تھا‘ اس نے ترکی کی رکنیت کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ یورپی یونین عیسائی ریاستوں کی تنظیم ہے لہٰذا اس کے دستور کی اساس مسیحی اقدار پر قائم ہونی چاہیے۔ یہ کیسی منافقت ہے کہ پاپائے روم کہتا ہے کہ مذہب اور سیاست الگ الگ ہیں، کیوں کہ یہ بقول اُس کے انجیل مقدس کا فرمان ہے۔ جب ایسا ہے تو پوپ دنیا بھر کے معاملات میں کیوں اپنی ٹانگ اڑاتا ہی؟ کیتھولک کلیسا سابق سوویت یونین کے خلاف تخریبی کارروائیوں میں بھرپور طریقے سے ملوث تھا۔ موجودہ پاپائے روم کے پیش رو جان پال کا تعلق پولینڈ سے تھا، چنانچہ اس نے پولینڈ کے عوام کو سوویت یونین کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔ پاپائے روم سرد جنگ کے دور میں بہت متحرک تھا اور سوویت یونین کو خدا کا دشمن نظام کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا، لیکن اس نے گوئٹے مالا‘ کیوبا اور وسطی اور لاطینی امریکہ کی کیتھولک ریاستوں پر امریکہ کی جارحیت کی کبھی مذمت نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے نوجوان کیتھولک پادری پاپائے روم کے شدید مخالف تھے اور انہوں نے سابق پاپائے روم جان پال کے خلاف اُس کے دورانِ خطاب مخالفانہ نعرے لگائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کیتھولک چرچ کو استعمار اور استحصال کی علامت تصور کرتے ہیں۔ ہمیں پوپ بینی ڈکٹ بہت سازشی کردار نظر آتا ہے۔ اگر وہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت کا اہل نہیں سمجھتا تھا تو اسے کھل کر اس کی مخالفت کرنی چاہیے تھی، نہ کہ یورپ کے فرماں روا ؤں سے کانا پھوسی کے ذریعے۔ ہم تو مذہبی پیشوا ؤں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی جب کوئی روحانی پیشوا سیاسی سرگرمیوں‘ جوڑ توڑ‘ اکھاڑ پچھاڑ میں ملوث ہوگا تو وہ اپنے منصب کا اہل تصور کیا جائے گا نہ قابلِ احترام…. بلکہ اُسے بھی جارج بش‘ ٹونی بلیئر‘ نکولس سرکوزی جیسا کردار سمجھا جائے گا۔ یہ پاپائے روم کی انہی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ہے کہ عراق میں مسیحی برادری پر زمین تنگ ہوگئی ہے اور ان کے گرجا گھروں اور مکانوں پر بم حملے ہورہے ہیں جس کے باعث وہ اپنا آبائی وطن ترک کرکے لبنان‘ شام اور دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ سب اس صلیبی جنگ کا نتیجہ ہے جو جارج بش اور ٹونی بلیئر نے عراق کے خلاف چھیڑی تھی اور جس میں 25 لاکھ باشندے جاں بحق ہوگئے جن کی اکثریت مسلمان تھی۔
اگر عراق کے مسلمان عیسائیوں کے خلاف ہوتے تو وہ ایک ہزار سال سے وہاں خوش حال زندگی نہیں بسر کررہے ہوتے۔ کیا مغربی طاقتوں نے عراق میں فلوجہ شہر کی تین چوتھائی آبادی کو ہلاک نہیں کیا؟ کیا گوانتاناموبے‘ ابو غریب اور بگرام کے عقوبت خانوں میں بے گناہ انسانوں پر جنسی‘ جسمانی اور ذہنی تشدد کرکے ہلاک نہیں کرایا گیا؟ کیا افغانستان اور عراق میں امریکی‘ برطانوی اور یورپی سپاہیوں اور افسروں نے افغان باشندوں کا مُثلہ نہیں کیا؟ ان کی انگلیاں اور اعضاءنہیں کاٹ ڈالی؟ (ڈان 21 دسمبر 2010ئ)۔ کیا دخترِ پاکستان عافیہ صدیقی کا پاکستان سے اغوا اور ان کی عصمت دری اور جعلی مقدمہ میں پھنسا کر انہیں 80 سال کی سزا نہیں سنادی گئی؟ کیا پاپائے روم یا اس کے پیشرو نے مسلمانوں پر ڈھائے گئے ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف ویسا ہی احتجاج کیا جو وہ آسیہ کی ماتحت عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا او عراق اور اسکندریہ میں مسیحی برادری پر حملوں کے خلاف کررہا ہی؟
آخر میں ہم پاپائے روم کی خدمت میں دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ بے شک وہ پاکستان میں مسیحی برادری کے خلاف زیادتی پر احتجاج ضرور کرے مگر یہ بھی یاد رکھے کہ کیتھولک چرچ کے پاس اس کے برطانوی آقاؤں کی بخشی ہوئی جو وسیع و عریض اراضی ہے‘ اتنی قیمتی جائیداد شاید ہی پاکستان کے کسی جاگیردار یا وڈیرے کے پاس ہو۔ پاپائے روم کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت کے سروں پر چھت کا سایہ تک نہیں ہے۔ ادھر دیہی آبادی تو نیم فاقہ کشی کی زندگی بسر کررہی ہی، جب کہ تعلیم یافتہ نوجوان شہروں میں تلاشِ روزگار میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اِس وقت ملک انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے اور ہر چہار سو جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے‘ ایسے میں اگر پاپائے روم نے فرقہ وارانہ تعصب کو ہوا دی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ بپھرے ہوئے بھوکے عوام جاگیرداروں کی فاضل اراضی کی ضبطی کے ساتھ گرجا گھروں کی وسیع و عریض اراضی کو سرکاری تحویل میں لے کر بے گھر عوام میں تقسیم کرنے کی تحریک نہ چلا دیں۔ پوپ بینی ڈکٹ نے 31 دسمبر کو توہین رسالت قانون کے خاتمے کے خلاف ملک کے طول و عرض میں برپا احتجاج سے پاکستانی قوم کے تیور کا اندازہ تو لگا لیا ہوگا۔

فرائیڈے اسپیشل
پروفیسر شمیم اختر