- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

ڈرون حملے اور مہنگائی

mehngaiمہنگائی پر کون لکھے، کہ یہاں تو قلم و قرطاس کو استعمال کرنے کے ماہرین کی تحریریں وکی لیکس کے انکشافات کی عریاں سادگی سے آنکھیں دوچار کئے ہوئے ہیں اب ان دنوں عوام و تجزیہ نگار وکی لیکس اور حکومتی انہدام کیسے ہو گا ،جیسے سربستہ رازوں کے مطالعے میں مستغرق ہیں اور مہنگائی مافیا نے چپکے سے خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرلیا ہے اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی منظوری دیدی گئی ہے۔

بلاشبہ وکی لیکس کے انکشافات قابل بیان ہیں لیکن ایسا نہیں کہ ان کے ساتھ ”ٹوٹے“ جوڑ کر صرف انہی کو موضوع سخن بناکر اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹادی جائے کیونکہ ایک تو ہمارے سیاستدانوں سے لے کر حکمرانوں تک اور سیاسی ملاؤں سے لے کر جرنیلوں تک کے چہرے اس سے بھی زیادہ بدنما ہیں جس طرح کی نقاب کشائی جولین اسانج نے کی ہے اور یہ سچ مراسلہ نگار سفیروں کے ممالک اور خود پاکستانی عوام سے بھی پوشیدہ نہیں ہے پھر یہ کہ اس سے نہ تو ہمارے حکمران اشرافیہ اپنا رخ سیاہ دھونے کی زحمت کیلئے تیار ہوسکتے ہیں اور نہ ہی عوام کو اپنی حالت زار بدلنے کیلئے متحرک کیا جاسکتا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ابلق صحافت پر سوار غیروں کے انکشافات پر خود آرائی کرکے خود کو ماہر تیر انداز ثابت کرنے کی بجائے خود بھی کبھی کوئی راز منکشف کرنے کا کارنامہ لاجواب دکھا دیں، مثلاً یہ کہ طالبان کون ہیں؟ مسلم لیگ بنانے والے بنگالی ہم سے جدا کیوں ہوئے؟ قائد ملت تا بنت ملت محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے پس پشت ”کون“ اور کیا عوامل تھے وغیرہ وغیرہ۔ وہ اس راز کو بھی پردہ اخفا سے باہر نکالنے کیلئے کوئی سعی حاصل کرلیں کہ قیام پاکستان تا امروز وہ کون ہیں جنہوں نے امریکی جریدہ محبت پر دوام کی مہر لگا رکھی ہے، کیونکہ آزادی تا ہنوز پاکستان کی غالب اکثریت تو امریکا مخالف ہے، پھر یہ کون ہیں جو خطے سے بار بار جانے کے باوجود امریکا کو یہاں لے آتے ہیں؟
اب اگر ایک بڑا اور موثر طبقہ پے رول پر ہی حق نمک ادا کرتا رہے گا تو پھر حکمرانوں کے حس مدہوش کو گدگدی کرتے ہوئے کون یہ باور کرائے گا کہ اگر ڈرون حملے اس وجہ سے بند نہیں کرائے جاسکتے کہ امریکا بہادر سے ڈر لگتا ہے اور یاپھر اس محبوب سے مراسم بگاڑ نے کے تصور سے ہی جان نکل جاتی ہے تو پھر کم از کم یہ تو بتایا جائے کہ یہ پاکستانی مہنگائی مافیا کے عوام پر ڈرون حملے آخر کیوں بند نہیں کرائے جارہے؟ یہ آئے روز جو نہتے لاغر و نحیف عوام پر مہنگائی کے بم برساتے ہیں آخر ان کا بازوئے قاتل روکا کیوں نہیں جاتا؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکی ڈرون حملوں کی طرح مہنگائی مافیا کے حملے بھی حکمران اشرافیہ اور ان کے حلیف طبقات کی ملی بھگت اور رضاد رغبت سے ہی ہورہے ہیں اور ان کیلئے ”بھی“ باقاعدہ خفیہ اجازت نامے جاری کئے جاچکے ہیں؟ وگرنہ ریاست اتنی کمزور نہیں ہوتی کہ کوئی یوں دھندناتا شہریوں کو ناکوں چنے چباتا پھرے، یہ کیسے ممکن ہے کہ حکمران دشمن نواب اکبر بگٹی شہید جیسے طاقتور سردارکوتو ”حسب اعلان“ یہ پتہ نہ چل سکے کہ آلہ اجل کہاں سے آیا؟ اور عوام دشمن بزدل ذخیرہ اندوز ریاست کے اندر ریاست سجائے عوام کی بے حسی کا مذاق اڑاتے پھریں۔ اگر مولانا ظفر علی خان کے وارث یونہی داستان گو بنے عوام کو افیون کھلاتے ہوئے انہیں طلسمی جھولے میں جھولاتے رہیں گے تو پھر حکمرانوں کو کیا پڑی ہے کہ مہنگائی مافیا کو نکیل ڈال کر اپنے پیٹ پر خود ہی لات دے ماریں، جہاں تک ہم جیسے چھوٹے لکھاریوں کا تعلق ہے تو پشتو ضرب المثل ہے کہ سادہ لوح مولوی کے پندو نصائح کون سنتا ہے…
کاش عوام ہوش ربا ایشوز کے سحر سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں مراجعت فرمالیں اور کبھی ایک اور کبھی دوسرے کی فکر کی بجائے اپنی بھی کچھ فکر کرلیں اور اس امر پر غور کرلیں کہ اب تک کی مہنگائی نے ان کا جو حشر کررکھا ہے اگر مزید ٹیکسوں کا بوجھ بھی ان کے زمین سے لگے کمر پر ڈال دیا جائے تو پھر کیا ہوگا؟
قدم قدم پہ اُٹھاتے ہو فتنہ محشر
یہ کم سنی کا ہے عالم، شباب کیا ہوگا

اجمل خٹک کشر
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)