- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

کیا مولانا فضل الرحمن والد کی طرح ثابت قدم رہیں گے؟

molana-fazlurrahmanہم سیاسی عہد نبھانے اور اپنی بات کا پہرہ دینے والے لوگ ہیں۔ ہم نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ آپ ہمیں روایت شکنی پر مجبور نہیں کرسکتے۔
1973ء میں یہ بات اس وقت جے یو آئی کے سربراہ مولانا مفتی محمود نے پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو سے کہی تھی۔ جب انہوں نے پاکستان کے صدر کی حیثیت سے بلوچستان کی اسمبلی تحلیل کردی تھی جہاں نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت تھی۔ خان عبدالولی خان کے ساتھ سیاسی اتحاد میں ہونے کے باعث صوبہ سرحد میں بھی دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت تھی۔ جہاں مولانا مفتی محمود وزیراعلیٰ تھے جنہوں نے اپنی حلیف جماعت کے سربراہ خان عبدالولی خان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے وزارت اعلیٰ سے احتجاجاً استعفیٰ دیدیا تھا۔ جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے مولانا مفتی محمود پر استعفیٰ دینے کیلئے نہ صرف دباؤ ڈالا بلکہ بعض پرکشش سیاسی ترغیبات بھی دیں جن میں ان کی جماعت کو صوبے کی گورنر شپ دینے کی پیشکش بھی شامل تھی اور اس مقصد کے لئے ایک سے زیادہ مرتبہ خود ہی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ لیکن کرشماتی شخصیت کے مالک ذوالفقار علی بھٹو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ایک بااصول اور اپنے فیصلے پر قائم رہنے والے مولانا مفتی محمود کو فیصلہ واپس لینے پر نہ تو آمادہ کر سکے اور نہ ہی مجبور۔

اس وقت بھی عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام حکومت کی اتحادی جماعتیں ہیں اور خان عبدالولی خان اور مولانا مفتی محمود کے صاحبزادگان اپنی اپنی جماعتوں کے سربراہ ہیں لیکن قیادت کی اس مماثلت کے باوجود سیاسی روایات اور اصولوں کی پاسداری میں تضادات واضح نظر آتا ہے۔
یہ بات تو عبث ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسفندیار ولی خان بھی حکومت سے الگ ہو جائیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ایک بااصول شخصیت اور اپنے عہد کی پاسداری کرنے والے سیاستدان مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان کیا اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حکومت میں واپس نہ جانے کے اپنے فیصلے پر قائم رہیں گے۔
مولانا فضل الرحمان گزشتہ پانچ روز سے اپنے حکومتی ملاقاتیوں پر واضح کررہے ہیں کہ انہوں نے اپنے وعدے اور فیصلے پر قائم رہتے ہوئے حکومت میں واپسی کے تمام دروازے بند کردئیے ہیں۔ لیکن وزارتوں سے استعفیٰ دینے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بلوچستان اور گلگت بلتستان کی حکومت میں بدستور حلیف رہنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ جبکہ وہ بدستور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں اور مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اس کے علاوہ بھی بعض دوسرے ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت میں واپسی کے دروازے تو بند کردئیے ہیں لیکن باوقار واپسی کی شرط پر مفاہمت کی کھڑکیاں اور روشندان کھلے رکھے ہیں۔

فاروق اقدس
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)