- سنی آن لائن - https://sunnionline.us/urdu -

بہروپیا طالبان کمانڈر

taliban00افغانستان میں امریکی قبضے کا مجموعی عرصہ سابقہ سوویت یونین کے قبضے کے عرصے سے تجاوز کرگیا ہے اور 9 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود افغانستان میں امریکی کامیابی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ امریکہ شروع دن سے ہی اس بات پر مصر رہا ہے کہ طالبان دہشت گرد ہیں اور ان سے بات چیت کا کوئی امکان نہیں لیکن جوں جوں افغانستان میں طاقت کے اندھا دھند استعمال کی امریکی حکمت عملی ناکامی سے دوچار ہوتی جارہی ہے اسے اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ وہ اس جنگ میں کبھی فتح حاصل نہیں کرسکے گا اور افغانستان میں طویل عرصے تک مزید قیام امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ امریکی زوال پذیر معیشت افغان جنگ کے بھاری اخراجات مزید برداشت نہیں کرسکتی اور اگر امریکہ مسلسل اسی طرح جنگ و جدل کی اس آگ میں ڈالر جھونکتا رہا تو اس کی معیشت مزید تباہی سے دوچار ہوجائے گی۔

ان حالات کے پیش نظر امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی راہ نکال کر افغانستان سے آبرومندانہ طریقے سے نکلنے کی راہ ہموار کی جائے۔
ایشیاء فاؤنڈیشن کے ایک حالیہ سروے کے مطابق افغانستان کی 83 فیصد اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ طالبان سے مذاکرات اور ان کی حکومت میں شمولیت کے بغیر افغانستان میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لزبن میں ہونے والی حالیہ کانفرنس میں امریکہ اور نیٹو نے فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج 2014ء سے انخلا شروع کردیں گی ۔ ان کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اچھے طالبان کو ساتھ ملاکر قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔
طالبان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے حامد کرزئی نے حال ہی میں طالبان کو 35 ہزار ملازمتوں کی پیشکش بھی کی جسے طالبان کی قیادت نے ٹھکرا دیا۔
اسی سلسلے کی ایک اور ناکام پیشرفت کا انکشاف گزشتہ دنوں ہوا جس کے باعث امریکی و نیٹو حکام کو شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔اطلاعات کے مطابق امریکی و نیٹو حکام طالبان کمانڈر سمجھ کر جس شخص سے مذاکرات کرتے رہے دراصل وہ ایک بہروپیا نکلا۔ یہ جعلی طالبان کمانڈر امریکی و برطانوی انٹیلی جنس اہلکاروں کی کمزوریوں سے پوری طرح واقف تھاکہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لئے کتنے بے چین ہیں۔مذکورہ بہروپیا برطانوی خفیہ ایجنسی MI-6 کے اہلکاروں سے ملا عمر کے نائب کمانڈر ملا اختر منصور کے بھیس میں ملا جس نے اپنی باتوں سے برطانوی ایجنسی کے ان اہلکاروں کو شیشے میں اتارلیا۔
برطانوی ایجنسی کے اہلکار اپنی اس دریافت پر پھولے نہ سمائے اور بہروپیئے کو ایک خصوصی طیارے میں کابل لے گئے جہاں اسے وی وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا اوراس کا قیام ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ہوا جبکہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی ”خاد“ کے اہلکار بھی اسے ملا اختر منصور سمجھتے رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بھی اس جعلی طالبان کمانڈر سے صدارتی محل میں ملاقات کی اور اس کی شخصیت اور باتوں سے متاثر ہوکر انہوں نے جعلی طالبان کمانڈر کو دیگر طالبان رہنماؤں کو خریدنے کے لئے لاکھوں ڈالر ایڈوانس دیئے۔ یہ بہروپیا لاکھوں ڈالر کی رقم لے کر افغان صدر سے یہ وعدہ کرکے رخصت ہوا کہ وہ بہت جلد ملا عمر سمیت دوسرے طالبان رہنماؤں کو بھی امریکہ اور افغان حکومت سے مذاکرات کرنے پر آمادہ کرلے گا۔
کچھ روز تک جب اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی اور یہ بھید کھلا کہ مذکورہ شخص طالبان کمانڈر ملا اختر منصور نہیں بلکہ کوئٹہ کا ایک معمولی دکاندار تھا اور بعد میں یہ خبر دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنی تو صدر حامد کرزئی کے چیف آف اسٹاف نے اپنی خفت مٹانے کے لئے امریکی اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس ناکامی کا سارا ملبہ برطانوی حکام پر ڈال دیا۔ ان کاکہنا تھا کہ برطانوی حکام اس جعلی طالبان کمانڈر کو افغان حکومت کے ساتھ حساس نوعیت کے اجلاسوں میں لائے تھے اور اس کی ملاقات صدر کرزئی سے کروائی تھی لیکن برطانوی حکام نے اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص افغان ایجنسی کی دریافت تھی اور افغان اہلکار ہی اس سارے عمل کے ذمہ دار ہیں۔
یہ واقعہ امریکی و مغربی پالیسی سازوں اور انٹیلی جنس اہلکاروں کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے جسے دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تاریخ میں لطیفے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افغان جنگ میں طالبان کا پلہ بھاری ہے اور امریکہ اور نیٹو حکام طالبان سے مذاکرات کے لئے کتنے بے چین ہیں۔
امریکی و مغربی اہلکار 9 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی روز اول کی طرح طالبان کے متعلق حقیقی معلومات نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ملا عمر اور اسامہ بن لادن کی موجودگی کے متعلق اندھیرے میں تیر چلاتے رہتے ہیں۔
طالبان سے متعلق امریکی اور مغربی حکمت عملی انتہائی ناقص ہے، ان کی معلومات اور دعوؤں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔مغربی ایجنسیاں کبھی یہ دعوے کرتی ہیں کہ طالبان کی شوریٰ کوئٹہ میں موجود ہے اور کبھی انہیں ملا عمر کراچی اور کوئٹہ میں نظر آتا ہے کیونکہ انہیں کسی بھی داڑھی اور پگڑی والے شخص پر ملا عمراور ان کے کمانڈروں کا گمان ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی اور برطانوی ایجنسیوں کے پاس طالبان رہنماؤں کے خاکے اور تصاویر تک نہیں ہیں کیونکہ طالبان کے سربراہ ملا عمر اور دیگر کمانڈر اپنے دور حکومت میں تصاویر کھنچوانے سے اجتناب کرتے تھے ۔
مغربی ایجنسیاں اپنی جھینپ مٹانے کے لئے اس واقعہ کو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی شرارت بھی قرار دے رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ طالبان کے اس جعلی کمانڈر کوآئی ایس آئی نے بھیجا ہو۔ اگر یہ درست مان بھی لیا جائے تو اس مشن کو مغربی خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی اور پاکستانی خفیہ ایجنسی کی بڑی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔
امریکی و مغربی حکام نے اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں تو انہیں اچھے ،برے اور پسندیدہ و ناپسندیدہ طالبان کے امتیازات کو ترک کرکے حقیقی طالبان لیڈروں سے مذاکرات کرنے ہوں گے، اس کے لئے انہیں مذاکرات میں پاکستان کو شامل کرکے اس کی معلومات اور تجربات سے استفادہ کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان کی شراکت کے بغیر طالبان سے مذاکرات کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

اشتیاق بیگ
(بہ شکریہ اداریہ روزنامہ جنگ)