- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

جن لوگوں نے ’اسلامی جمہوریہ‘ کے حق میں ووٹ دیا تھا وہی سراپا احتجاج ہیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے تازہ ترین بیان (28 اپریل 2023ء) میں ایرانی عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام کو عوام کی بات سننے اور ان کے مطالبات ماننے کی نصیحت اور تاکید کی۔

’اللہ‘ اور ’عوام‘ کو کھونے والے کی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے
مولانا عبدالحمید نے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: دنیا کی سب حکومتوں اور ریاستوں کے لیے دو اہم اور بڑے محور موجود ہیں جنہیں کبھی نہیں گنوانا چاہیے۔ ان دو محوروں کو ساتھ رکھنے سے کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔ اگر علمائے کرام، قائدین اور سب طبقے ان دو محوروں کو ہاتھ سے جانے دیں، ان کی شکست لازمی ہے؛ یہ دو محور ”اللہ“ اور ”عوام“ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: جو خدا کی نافرمانی کرکے اللہ کو ناراض کرے، ناکام ہوجائے گا؛ چاہے یہ شخص کوئی حکمران ہو یا عالم دین یا عام شہری۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کے ساتھ ہے جو سچا ہو۔ اللہ تعالیٰ کو دورنگ اور دورخی آدمی ناپسند ہے جو عوام کی جان و مال اور عزت لوٹنے کی کوشش کرتاہے۔ اگر کوئی ظلم کرتاہے، دن رات نمازیں پڑھتاہے لیکن عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتاہے اور ظلم کرتاہے، اللہ اس کے ساتھ نہیں ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: دوسرا محور عوام ہیں؛ ارشادِ الہی ہے: “يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ؛ اے نبی! خدا تم کو اور مومنوں کو جو تمہارے پیرو ہیں کافی ہے.” اگر کوئی خدا اور عوام دونوں کو گنوائے، دنیا میں اس کی کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ پھر وہ یہاں نہیں ٹھہرسکتا۔ چاہے یہ شخص عالم دین ہو یا خطیب یا کوئی حکمران یا کسی بھی طبقے کا۔ عوام کی بات سننا اور اللہ کا حکم ماننا بہت اہم ہے۔اگر ہم نے ان دو محوروں کو گنوایا، پھر کوئی ہمیں نہیں بچاسکتا۔

سب سے بہترین سیاستدان وہی ہے جو عوام کے مفادات کو ترجیح دیتاہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: سب سے اہم اور بہترین سیاست یہی ہے کہ بندہ اپنے رب کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے اور ہر اس کام سے گریز کرے جس سے اللہ ناراض ہوجاتاہے۔ بہترین سیاستدان وہی ہے جو عوام کا ساتھ دیتاہے اور ان کے مفادات کے لیے سوچتاہے اور ان ہی کو ترجیح دیتاہے۔ ایسے سیاستدان دنیا میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن جو سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے پڑتاہے اور اللہ اور اس کے بندوں کے مفادات اور منافع کو پسِ پشت ڈالتاہے، وہ مسائل سے دوچار ہوتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: بندہ نے بارہا اس مختصر منبر سے کہا ہے کہ اللہ اور عوام دونوں اہم ہیں۔ عوام کو ساتھ دیں اور ان کی باتیں سن لیں۔ کوئی بھی شخص عوام کو اپنا دشمن نہ سمجھے اور ان کی باتوں کو اپنے خلاف نہ سمجھے، عوام کی باتوں پر توجہ دیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔

حکام کی جانب سے عوام کے معاشی مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نظر نہیں آتا
خطیب اہل سنت زاہدان ایران کے معاشی بحران کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج کل ملکی مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر مزدور ہڑتال کررہے ہیں اور پورے ملک میں مزدوروں کا کہنا ہے ان کی تنخواہیں کم ہیں اور ان کی زندگی کا پہیہ نہیں چلتاہے۔ ملازموں کی تنخواہیں بھی ناکافی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: قومی کرنسی کی قدر بھی گرچکی ہے۔ کرایہ پر رہنے والے افراد کرایہ ادا کرنے سے عاجز ہیں اور کرایہ پر دینے والے مالکان کو کرایہ کی کمی کی شکایت ہے۔ ہمارے پیسے کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں ہم عوام کو چاہیے ایک دوسرے کے ساتھ جہاں تک ہوسکے تعاون کریں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: پہلے ہم سنتے تھے کہ کچھ شہری خانہ بدوش ہوچکے ہیں اور بستر ساتھ رکھ کر سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن اب ہمارے چھوٹے شہر میں بھی کرایے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ لوگ مکان کا کرایہ ادا کرنے سے عاجز ہوچکے ہیں۔ سخت حالات پیش آچکے ہیں اور مہنگائی بڑھ چکی ہے۔ عوام کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ عوام کے مسائل بحرانی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں، لیکن حکام کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدام دیکھنے میں نہیں آتا کہ ان مسائل کو حل کرائیں۔

کوئی بھی حکومت بندوق کی نوک پر باقی نہیں رہ سکتی
ممتاز عالم دین نے رفرنڈم کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: عوام بندگلی میں گرفتار ہوچکے ہیں اور انہوں نے خلاصی کے لیے رفرنڈم کی تجویز پیش کی ہے۔ کچھ حکام نے اس تجویز کو مسترد کیاہے، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں اور رفرنڈم کا نتیجہ کیا نکلے گا۔بہترین حل یہی ہے کہ ہم علاج کے لیے سوچیں۔
انہوں نے مزید کہا: میرا اپنا حل اور تجویز یہی ہے کہ عوام کی بات مان لیں اور ان کے مطالبات کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں۔ انقلاب کے بعد ان ہی لوگوں نے اسلامی جمہوریہ کو ووٹ دیا؛ ان کا خیال تھا اسلامی نظام آئے گا اور عوام کے مسائل حل کرنے کا بہترین حل اسی نظام میں ہے۔ آج وہی لوگ اور ان کے بچے احتجاج کررہے ہیں۔ قوم کا مطالبہ دیکھنا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے واضح کرتے ہوئے کہا: ایرانی حکام کو میرا مشورہ ہے آپ جس سطح پر ہوں، عوام کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔آج قوم تم سے ناراض ہے، لیکن تم انہیں منانے کی کوشش کرو اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سنو۔ دنیا کا کوئی بھی نظام اور حکومت زورِ بازو اور بندوق کی نوک پر باقی نہیں رہ سکتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی نظام چاہے اسلامی ہو یا غیراسلامی، عوام کی رضامندی سے بچ سکتاہے۔ جن لوگوں نے 1979ء میں موجودہ نظام کے حق میں ووٹ دے کر موجودہ حکام کو اوپر سے نیچے تک قانونی حیثیت دی ہے، اب وہی لوگ اور ان کے بچے سراپا احتجاج ہیں۔ وہ اندرون اور بیرونِ ملک احتجاج کررہے ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم جو کچھ کہتے ہیں ہمارا مقصد خیرخواہی ہے۔ یہ پکار اب سے نہیں، مدتوں سے بلند ہے، شاید اب مزید وضاحت کے ساتھ آواز اٹھارہے ہیں۔ عوام سے مقابلہ نہ کریں؛ اگر عوام ہاتھ سے گئے تو خدا بھی ہاتھ سے جائے گا۔
علما کو مشورہ دیتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: علما عوام کا ساتھ دیں اور انہیں تنہا نہ چھوڑیں۔ مسلح افواج اور پولیس کو بھی نصیحت ہے کہ عوام کے سامنے نہ آئیں؛ یہ لوگ اسی ملک کے فرزند ہیں۔ عدلیہ اور مسلح ادارے عوام کے ساتھ رہیں، تم بھی ان ہی عوام کی اولاد ہو اور تمہیں عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر لوگ اصلاح چاہتے ہیں، تم اپنی اصلاح کرو، اگر تبدیلی چاہتے ہیں، تبدیلی لاؤ۔

فنوج حادثہ بہت المناک تھا / پولیس عوام کے ساتھ رہیں ان کے خلاف نہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے گزشتہ دنوں ایرانی بلوچستان کے شہر فنوج میں ایک واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: عوامی رپورٹس کے مطابق، پولیس نے فنوج میں دو موٹرسائیکلوں کا پیچھا کرکے اپنی گاڑی سے انہیں مارا ہے جہاں ایک نوجوان قتل ہوچکاہے اور تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن حکام کہتے ہیں ان دو موٹرسائیکلوں کے درمیان تصادم ہوا ہے۔ لیکن جب لوگ احتجاج کے لیے تھانے کے سامنے حاضر ہوئے، پولیس اہلکاروں نے ان پر فائر کھولی جہاں چار افراد زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا: یہ پولیس کی شان میں نہیں کہ لوگوں کے سامنے آکر انہیں مارے۔ اگر کسی سے غلطی ہوجاتی ہے، قانونی طریقے سے برتاؤ ہونا چاہیے۔ چند شب قبل زاہدان میں پولیس نے فائر کھولی جس سے عوام خوفزدہ ہوئے۔ اگر تمہیں کسی پر شک ہے تو ہر جگہ سکیورٹی کیمرے نصب ہیں، ان کی مدد سے ایسی گاڑیوں کو روکیں۔ فائر کھولنے سے نہتے شہری نشانہ بنتے ہیں۔ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ بعض اوقات لوگ ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے یا خوف کی وجہ سے پولیس کو دیکھ کر بھاگتے ہیں اور پھر گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: تم نے شہر میں سکیورٹی کی فضا قائم کی ہے، جس سے عوام پر دباؤ بڑھ رہاہے اور لوگ لائن میں انتظار کرتے ہیں۔ بعض اوقات علمائے کرام اور عمائدین کو روک کر ان کی بے عزتی ہوتی ہے۔ ایسی حرکتوں سے عوام تم سے دور ہوجاتے ہیں۔ عوام کو ساتھ رکھیں۔

جس طرح اپنے اہلکار کے قاتلوں کو نشاندہی کرکے پھانسی پر چڑھاتے ہو، عوام کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں
اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے زاہدان کے خونین جمعہ کے بارے میں کہا: عدلیہ حکام نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ عادلانہ پیروی کریں گے، لیکن اب سننے میں آتاہے کہ قاتل اہلکاروں کو قصاص کی سزا دلوانا ممکن نہیں ہے؛ چونکہ معلوم نہیں عیدگاہ میں کس نے کس کو مارا ہے!ہمیں حیرت ہوتی ہے ججز کیسے اس طرح کہتے ہیں۔ کرج واقعے میں لوگوں کا ایک ہجوم حملہ کرکے ایک اہلکار کو قتل کیا، تم نے کیسے اس کے قاتل کو معلوم کرکے قصاص کی سزا دلوائی؟ صوبے یا ملک میں کوئی اہلکار مارا جاتاہے تو ایک بڑی آبادی سے اس کا قاتل تمہیں معلوم ہے، لیکن جب قاتل سکیورٹی فورسز ہوں تو وہ تمہیں معلوم نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: جس طرح اگر کوئی عام شہری کسی اہلکار کو مارتاہے تو اس کو قصاص کی سزا دی جاتی ہے، اسی طرح قاتل اہلکاروں کو بھی قصاص کی سزا دینی چاہیے۔ اسی بلوچستان میں جب قبائلی جھگڑوں میں قتل ہوتاہے، تو قاتل گرفتار نہیں ہوتے ہیں، لیکن جب کوئی اہلکار ماراجاتاہے تو پوری ایک فوج اس کے قاتل کی گرفتاری کے لیے اترتی ہے۔ عوام کے قاتلوں اسی طرح پیدا کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ یہ عوام کا حق ہے اور وہ توقع رکھتے ہیں، حکومت کی بھاگ دوڑ تمہارے ہاتھوں میں ہے۔
انہوں نے اڑتیس شہدا کو سرکاری طورپر شہید قرار دینے کے اقدام کو مثبت یاد کرتے ہوئے کہا اس سے عوام کی مظلومیت پر اعتراف ہوا جو کسی قصور کے بغیر مارے گئے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں زاہدان کا خونین جمعہ ایک انسانی لغزش تھی، حالانکہ یہ ”خالص قتل عمد“ تھا۔ جان بوجھ کر نہتے عوام کو مارا گیا۔ صرف قاتلوں کی سزا پر عوام خوش نہیں ہوتے ہیں، بلکہ قتل کا حکم دینے والے بھی ٹرائل اور سزا کے مستحق ہیں۔

قیدیوں پر تشدد بند کریں
شیخ الاسلام نے اپنے بیان کے ایک حصے میں کہا: ہمارا خیال ہے اگر کسی نے اہلکاروں کو مارا ہے یا کسی اہلکار نے نہتے شہریوں اور احتجاج کرنے والوں کو قتل کرتاہے، ان سب کی سزا قصاص ہے۔ غیرمسلح شہریوں کو قتل کرنا شرعی اور ملکی و بین الاقوامی قوانین کی رو سے منع ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہیومن رائٹس واچ کے رپورٹر نے حال ہی میں ایک چونکا دینے والی رپورٹ شائع کی ہے۔ ہمیں بھی متعدد رپورٹس ملی ہیں اور شاید ہماری رپورٹس زیادہ ہوں کہ کیسے قیدیوں پر تشدد کیا جاتاہے۔ قیدی ہمارے پاس آکر اپنی سرگزشت بیان کرتے ہیں کہ ان پر کیا بیتی ہے۔جو اہلکار جیلوں اور قیدخانوں میں مشتبہ افراد یا ملزموں پر تشدد کرتے ہیں یا ان سے جبری اعتراف لینے کی کوشش کرتے ہیں ان کا کام شرعی اور قانونی لحاظ سے منع ہے اور ایسے اہلکاروں کو سزا دینی چاہیے۔ سب حکام اسلام اور قانون کے پابند ہیں۔ عدل سے کام لینا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں پورے ملک خاص کر زاہدان میں انٹرنیٹ بند کرنے کی حکومتی مہم پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا زاہدان میں جب جمعہ کی نماز ہوتی ہے، حکام نیٹ بند کرتے ہیں تاکہ عوام براہ راست بیان نہ سن سکیں۔ اس سے عوام کے کاروبار کو نقصان پہنچتاہے۔ نیٹ پر پابندی لگانا بند کریں، یہ ایک عوامی مطالبہ ہے۔