- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ملک چلانے کی موجودہ پالیسیوں سے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں

ایرانی بلوچستان کے ممتاز عالم دین نے سات اپریل دوہزار تئیس کے بیان میں ایران کے جاری بحرانوں اور مادی، روحانی اور اخلاقی میدانوں میں ملک کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اکثر لوگوں کا خیال ہے جن پالیسیوں سے ملک چلایاجارہاہے، مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔
زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے نماز جمعہ سے پہلے اپنے ہفتہ وار بیان میں کہا: ملک کی بھاگ دوڑ چلانا اور حکومت صرف مادی امور میں نہیں ہے؛ بیک وقت انسان کی مادی اور روحانی تربیت پر توجہ دینا ان کی ذمہ داری ہے۔ بہت سارے ملکوں نے مادی لحاظ سے اپنے عوام کو خوشحال بنایا ہے اور وہاں کوئی مالی اور مادی پریشانی نہیں ہے، لیکن اس فراغ بال کی تکمیل اس وقت ہوسکتی ہے جب روحانی لحاظ سے بھی وہ خوشحال ہوں۔

ایران کا سب سے بڑا اثاثہ ایرانی قوم ہے
انہوں نے کہا: معاشی لحاظ سے آج ایرانی عوام سخت ترین مسائل سے دوچار ہیں۔ ہمارا ملک مادی لحاظ سے ناکام رہاہے۔ اتنے وسائل اور سہولیات کے باوجود کوئی اور ملک ہوتا، بہت ترقی کرجاتا۔ چوالیس سالوں میں اگر اچھی منصوبہ بندی ہوتی اور گڈ گورننس اور میرٹ کا خیال رکھا جاتا، آج ایران خطے کا معاشی حب ہوتا اور بہترین انڈسٹری ہمارے پاس ہوتی۔ ہماری معیشت اور کرنسی دنیا کی کرنسی اور معیشت سے مقابلہ کرسکتی۔ لوگوں کا پیٹ بھر دیں اور ان کی معاشی حالت کا گراف سابقہ رجیم سے کئی گنا زیادہ ہونا چاہیے۔
مولانا نے مزید کہا: حکومت کے پاس بہت ہی اسباب و وسائل تھے۔ تیل کو سو ڈالر سے بھی زیادہ مہنگا بیچتے تھے، یہاں قدرتی ذخائر موجود ہیں، بندرگاہیں اور زراعت سمیت متعدد معاشی ذرائع ملک میں ہیں۔ ایران کا خاص جغرافیہ اور غیرمعمولی سٹریٹجی اس کو آگے بڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر ایران کے اچھے لوگ اور شریف قوم اس ملک کے عظیم اثاثہ ہیں۔ ان قابل اور چالاک لوگوں سے استفادہ کرنا چاہیے تھا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے عوام کے معاشی حالات کو چونکا دینے والا یاد کرتے ہوئے کہا: افسوس ہے کہ کچھ ایسے حالات پیش آئے ہیں کہ مارکیٹس اور تجارت جام ہونے والی ہے۔ لوگ کسی سامان کو سستا خریدکر بیچ دیتے ہیں، پھر اسی سامان کو مہنگا خریدتے ہیں۔ کوئی منافع نہیں ہوتا۔ تاجر برادری کے لوگ پریشان ہیں ایسے حالات میں کیا کریں۔ پوری زندگی اجیرن بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا: دیہاتوں، بستیوں اور شہر کے مضافتی علاقوں سے چونکا دینے والیررپورٹس موصول ہورہی ہیں۔ بعض لوگوں کے پاس افطاری اور سحری کے لیے کچھ نہیں ہے۔ شہروں کے رہنے والے مکان کا کرایہ دینے سے عاجز ہیں اور خانہ بدوش ہوکر سڑکوں پر سوتے ہیں۔ ان مسائل کا حل حکومت کے پاس ہے۔ اس طرح کی زندگی کب تک چلے گی؟

اعلیٰ حکام خوب جان لیں موجودہ آفیسرز سے ملک چلانا ممکن نہیں ہے
مولانا عبدالحمید نے معاشرے کے روحانی مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: معاشی بحران کے ساتھ ساتھ، یہاں روحانی اور اخلاقی گراوٹ بھی ایک مسئلہ ہے۔ ایک اسلامی نظام نے انبیا کا نظام یہاں نافذ کرنے سے عاجز رہاہے۔ لوگوں کے ایمان اور اخلاق بنانے میں ناکام ہوئے اور جتنے احتجاج ہوتے ہیں، ان سب کی جڑ اور اصل وجہ یہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: حکومت نے ان لوگوں کو بر سر کار لایاہے جو اپنے کام سے نابلد ہیں۔ میرٹ کا خیال نہیں رکھا گیا۔ جب قوی اور امین لوگ عہدوں پر فائز نہ ہوں، مسائل پیش آتے ہیں۔ ہمیں دیانتدار اور قابل آفیسرز کی ضرورت ہے جو اپنی جیب بھرنے کے بجائے دوسروں کی خدمت کریں۔
خطیب اہل سنت نے کہا: اعلیٰ حکام اچھی طرح جان لیں کہ ان آفیسروں اور عہدیداروں سے ملک چلانا ممکن نہیں ہے۔ یہاں کوئی معجزہ نہیں ہونے والا ہے۔ اس غلط سوچ کو دماغ سے نکالیں۔ ہم اسباب کی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ غیب سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بصارت اور وسائل عطا کیا ہے۔ غیب سے کیوں کوئی تمہاری مدد کے لیے آئے؟ دستِ غیب کے بجائے اپنے ہی ہاتھوں پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ اس ملک و ملت کے لیے کوئی تدبیر کریں۔

مسلک پرستی بندگلی میں پھنس چکی ہے؛ ملک کو بندگلی سے نکالیں
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسی قوم کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرو۔ اس خیرخواہ کی نصیحت قبول کریں۔ سیاسی قیدیوں کو چاہے مرد ہوں یا عورت رہا کریں۔ وہ طریقہ اپنائیں کہ عوام کی اکثریت کی رضامندی حاصل ہوجائے۔ قابل لوگوں کو دنیا کے جن ملکوں میں ہیں اور اپنے ہی ملک سے تلاش کرکے ان کی خدمات حاصل کریں۔ صرف ایک ہی طبقہ کے پیچھے نہ پڑیں۔
انہوں نے مزید کہا: مسلک پرستی، جماعت پرستی اور صرف اپنی ہی برادری کو آگے لانے کی پالیسی بری طرح شکست کھاچکی ہے۔ اس سے ملک بندگلی میں پھنس چکاہے اور ملک کو اس ڈیڈلاک سے نجات دلائیں۔ یہ تب ممکن ہے جب تمہاری نگاہیں بدل جائیں۔ اسلامی جمہوریہ کا مطلب لیں؛ جمہوریہ کا مطلب ہے عوام، اور اسلام کا اعتماد بھی عوام ہی پر ہے۔ عوام کی رائے بہت اہم ہے۔ ان کی رائے نافذ کریں اور قابل ذمہ داران کی تلاش کرکے ان کی خدمات حاصل کریں۔ مسلمانوں میں بھی قابل افراد موجود ہیں اور غیرمسلموں میں بھی۔ ان سب کی خدمات حاصل کریں تاکہ ملک مادی و روحانی بحران سے نجات حاصل کرے۔

اخلاقی پولیس اور نہی عن المنکر کے نام پر خواتین کی توہین نہیں ہونی چاہیے
خطیب اہل سنت زاہدان نے عوام میں دین بے زاری کے رجحان پر وارننگ دیتے ہوئے کہا: یہ بہت اہم ہے کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہیں ہماری وجہ سے لوگ دین ہی سے بے زاری کا اعلان کریں۔ جب لوگوں کی جیبیں خالی ہوں اور کھانے کو کچھ نہ ہو، پھر وہ کیسے برداشت کریں؟ ان سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟
انہوں نے مزید کہا: پردے کے مسئلے کے بارے میں ملک میں بڑا شور مچاہوا ہے۔ پردے کی مخالفت موجودہ مسائل کے نتائج میں سے ہے۔ خواتین غصے میں ہیں؛ جو حقوق اسلام نے انہیں دیاہے اور جو حقوق خواتین کو دیگر ملکوں میں حاصل ہیں، وہ ہمارے ملک میں پامال ہوتے چلے آرہے ہیں۔ خواتین کی جتنی عزت کرنی چاہیے، اتنی نہیں۔ امربالمعروف، نہی عن المنکر کے نام پر خواتین سے برتاؤ اور اخلاقی پولیس کی کارکردگی کی وجہ سے ان کی توہین ہوتی ہے۔ قیدخانوں میں خواتین اور مردوں کی عزت پامال ہوتی ہے۔ جو قید سے رہائی پاچکے ہیں، انہیں شکایت ہے دورانِ قید انہیں تشدد کا نشانہ بنایاگیا ہے اور ان کی بے عزتی کی گئی ہے۔ یہ بہت ہی غلط کام ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: پردے کی خاطر بعض خواتین حالیہ احتجاجوں میں ماری گئیں، اس سے خواتین کو سخت غصہ ہوا اور وہ صدمہ میں ہیں۔ ہرچند خواتین اور بہنوں کو ہماری نصیحت ہے کہ پردہ اہم ہے، اسلامی نقطہ نظر سے بھی اور مشرقی ثقافت اور ایرانی عوام کے آداب و رسوم کے لحاظ سے بھی، لیکن جن کا پردہ کامل نہیں ہے، ان سے بدسلوکی اور تشدد ہرگز درست نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اس بارے میں میرا خیال ہے نصیحت، تدبیر اور ترغیب سے کام لینا چاہیے۔ دیگر مسائل کو بھی دیکھیں، صرف اس مسئلے کو نہ دیکھیں کہ کسی خاتون کے سر پر چادر یا دوپٹہ نہیں ہے۔ یہ دیکھیں کہ خواتین پر دباؤ ڈلاگیاہے اور ان کے حق میں کوتاہی ہوئی ہے۔ یہ خاتون کسی کی بہن، ماں، بیوی یا بیٹی ہے اور یہ سب عزیز ہیں۔ سب ثقافتوں میں خاتون کا مقام اونچا ہے اور اسلام میں سب سے زیادہ۔ میرا خیال ہے تشدد سے خاطرخواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ خواتین سے پرتشدد برتاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ پرامن احتجاج سب کا حق ہے۔ پرامن احتجاج میں شریک افراد کو گرفتار کرنے یا بے عزتی کروانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ آئین ہے اور حکومت پورے آئین پر عمل کرے چاہے اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

اگر حکومت خادم ہے، پھر عوام کی عزت کرے
ایرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین نے کہا: جن لوگوں کو تم نے جیلوں میں ڈالاہے انہیں منائیں۔ پانچ سو سے زائد افراد حالیہ احتجاجوں میں پورے ملک میں مارے گئے۔ اگر کسی نے اسلحہ ہاتھ میں لے کر تمہارا مقابلہ کیا ہے، اسے مارنے کا حق پہنچتاہے، لیکن جن لوگوں نے صرف کوئی جھنڈا یا پلے کارڈ ہاتھ میں لیا ہے، انہیں گولی مارکر قتل کرنے کا ہرگز تمہیں حق نہیں تھا۔ کسی کو اجازت نہیں تھی کہ نمازیوں کو یہاں قتل کرے۔ یہ ایران ہی کے باشندے اور اسی وطن کے مالک ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: تم خود کو عوام کے خادم کہتے ہو، پھر عوام کی عزت کریں۔ جب قانون نے انہیں حق دیاہے، تب ان سے سخت برتاؤ کا حق تمہیں نہیں پہنچتا۔ اگر کوئی تخریب کاری کرتاہے، اسے گرفتار کرنے کا حق ہے، لیکن گولی سے مارنے کا نہیں۔ احتجاج کرنے والوں کو ‘محارب’ کہنے اور بتانے کو ہم ہرگز نہیں مانتے ہیں۔ خیرخواہی سے علما اور حکام کو کہتاہوں عوام سے اپنے مسائل حل کرائیں جو تمہارے محسن ہیں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے واضح کرتے ہوئے کہا: عوام کی اکثریت کا خیال ہے موجودہ طریقے سے ملک چلاکر مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ سمجھداری کا مظاہرہ کرکے عوام کے ساتھ بیٹھیں۔ انہیں قیدخانوں میں روانہ نہ کریں۔ قوم کو قائل کریں اور ان کے مطالبات پر قائل ہوجائیں۔ جو لوگ رفرنڈم کی بات کرتے ہیں، ان کا مقصد یہی ہے۔ یہ دیکھیں قوم کی اکثریت کیا کہتی ہے اور اس کے مطالبات پر کان دھریں تاکہ ملک مادی اور روحانی لحاظ سے پیچھے نہ رہ جائے اور ڈائنامک معیشت کی طرف گامزن ہوجائے۔ یہ بحران چھوٹے اقدامات اور کسی وزیر یا آفیسر کی برطرفی یا بعض تعلقات بنانے سے حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ دیگر ملکوں اور قوموں سے تعلقات بنانا بہت اہم ہے، لیکن اس سے دس گنا زیادہ اہم اندر سے تبدیلی لانا ہے۔ قوم سے اپنے تعلقات ٹھیک کریں۔

بلوچ عوام کے شناختی کارڈ بلاک کرنا سیاسی اقدام ہے
ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے صدر مقام زاہدان میں اس صوبے کا ایک اہم مسئلہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا: شناختی کاغذات ہر شہری کے لیے اہم اور ضروری ہیں۔ ایران میں مختلف قومیتیں رہتی ہیں جن کی اپنی تاریخ ہے۔ بلوچ عوام ان میں ایک سرگرم برادری ہے جنہوں نے سرحد پر اجنبی طاقتوں اور دراندازی کرنے والی فوجوں کا مقابلہ کیا ہے۔ اُس وقت یہاں کوئی سرحد بھی نہیں تھی اور یہ بارڈرز بعد میں بن گئے۔ شناختی کاغذات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ایران میں شناختی کارڈ کی تاریخ زیادہ لمبی نہیں ہے۔ لوگ یہاں رہتے تھے اور جب قحط ہوتا، اپنے مال مویشیوں سمیت پاکستان یا افغانستان کا رخ کرتے تھے۔ بعض لوگ کہیں بھی نہیں گئے ہیں اور ان کے پاس شناختی کاغذات نہیں ہیں۔ لوگوں کو شناختی کارڈ کی خاطر تنگ کرنا یہاں کوئی حقیقی مسئلہ نہیں رہاہے، اس کی وجوہات سیاسی ہیں۔ بہت سارے ایرانی شہری ان ہی شہروں میں رہتے ہیں، لیکن وہ شہری خدمات سے محروم ہیں اور ان کے بچے تعلیم سے محروم رہے ہیں۔ ہمارے صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: سکیورٹی ادارے کچھ لوگوں کو شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے گرفتار کرتے ہیں؛ حالانکہ وہ اسی ملک میں پیداہوئے ہیں اور چالیس پچاس سالوں سے یہاں رہتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن انہیں شناختی کارڈ نہیں دیاجاتاہے۔ دوسری جانب بعض ملکوں میں اگر کوئی شخص پانچ سال گزارے، اسے شناختی کارڈ بھی دیتے ہیں اور سب شہری حقوق سے بھی نوازتے ہیں۔ یہ قوم کیوں ایسی مصیبت سے دوچار ہو؟ اس بارے میں حکام مناسب چارہ جوئی کرکے حل نکالیں۔

مسئلہ فلسطین میں بعض لوگ پاپ سے زیادہ کیتھولک ہیں
مولانا عبدالحمید نے مسجد الاقصیٰ میں اسرائیلی فورسز کے فلسطینی نمازیوں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ایک ویڈیو کے مطابق اسرائیلی فورسز مسجد الاقصیٰ میں داخل ہوکر نمازیوں کی پٹائی کرتے ہیں۔ مسجد الاقصیٰ دنیا کی سب سے زیادہ پرانی عبادتگاہوں میں شمار ہوتی ہے جو مسجد الحرام اور مسجد النبی کی لائن میں ہے۔ ایسی حرکت کسی عام مسجد میں بھی مذموم ہے، چہ جائیکہ مسجد الاقصیٰ جیسی عظیم اور اہم مسجد کی بے عزتی کی جائے۔ جو بھی انتہاپسندی کرے اور عزت کا خیال نہ رکھے، وہ اپنے ہی کے لیے مسائل بناتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: امید ہے فلسطینی عوام کا مسئلہ حل ہوجائے اور وہ اپنے جائز حقوق حاصل کریں۔ جب ہم مفاہمت کی بات کرتے ہیں، ہمارا مقصد عادلانہ مفاہمت اور عادلانہ صلح ہے، ظالمانہ نہیں۔ کیا کوئی عادلانہ صلح کی مخالفت کرتاہے؟ لیکن کچھ لوگ پوپ سے زیادہ کیتھولک بن کر فلسطینیوں کی جانب سے بات کرتے ہیں، وہ خود صلح اور آزادی پر راضی ہیں۔ یوکرئن کے لیے بھی ہم اسی تمنا کا اظہار کرتے ہیں اور روس اور یوکرین جنگ ختم کرکے عادلانہ صلح پر اجماع کریں۔اس بارے میں اگر چین ثالثی کا کردار ادا کرے، یہ خوشنامی ان کے ملک و قوم کے لیے باقی رہے گی۔