- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اگر جمہوریت محفوظ رہتی، سو سال تک ملک میں احتجاج نہ ہوتا

مولانا عبدالحمید نے اپنے اکتیس مارچ دوہزار تئیس کے بیان میں یکم اپریل یوم اسلامی جمہوریہ ایران کی سالگرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ملک میں مسلکی نگاہ کے نفاذ کو بہت سارے مواقع ختم ہونے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث قرار دیا۔
زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: جب ایک سیاسی نظام ختم ہوتاہے اور کوئی نیا نظام آتاہے، اس کی تعیین کے لیے رفرنڈم بہت اچھا اقدام ہے۔ پہلوی رجیم ختم ہونے کے بعد ایران کے اکثر عوام نے اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دیا۔ قوم نے جمہوریت کو انتخاب کیا جس کا مطلب ہے ہر مسئلے میں اکثریت کی رائے فیصلہ کن ہے۔ یہ جمہوریت اسلامی اور اسلامی احکام کے مطابق ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: ایران کے عزیز شہریوں نے ایک ایسی چیز کا انتخاب کیا جو صدیوں تک اس کی محبت ان کے دلوں میں تھی؛ یہ لوگ اسلام کو نبی کریم ﷺ، خلفائے راشدین اور حضرت علیؓ کے عہد سے پہچانتے ہیں کہ یہ کیسا قیمتی تحفہ ہے۔ سب ایرانیوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے حق میں ہاں کا ووٹ دیا اور ہم نے کہا جو کچھ ہمارے آباؤ اجداد کے دور میں میسر نہیں ہوا تھا، وہ آج میسر ہوچکاہے۔
انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: یہ بہترین موقع تھا اگر اس کی قدر ہوتی اور جس طرح اسلام کی چھتری تلے سب آتے ہیں، اس نئے نظام کی چھتری میں سب اپنا جائز مقام پاتے۔ اسلام کا ظرف بہت اعلیٰ ہے اور اس سے فائدہ اٹھاکر سب لسانی، مسلکی اور مذہبی برادریوں کو چاہے دیندار ہوں یا مذہبی معاملات میں سست اور ان کی سوچ کچھ بھی ہو، اس چھتری کے نیچے اکٹھے کیا جاسکتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لوگوں کی قابلیت کو معیار بنانے کے بجائے انہیں مرد اور عورت سمیت دیگر اکائیوں میں دیکھا گیا، مسلک پرستی اور مخصوص نظریے کو بنیاد بناکر انتہائی قابل افراد کو خدمت کرنے سے محروم رکھا گیا۔اگر جمہوریت جو عوام کا انتخاب تھامحفوظ رہتی، کوئی احتجاج پیش نہیں آتا؛ سو سال بھی گزرجاتے اور کوئی شکایت نہ ہوتی۔

قوم کے قابل اور مفکر افراد کو سیلیکشن بورڈز نے مسترد کیا
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے واضح کرتے ہوئے کہا: نظام کی چھتری سب کے لیے یکسان نہ تھی۔ اقلیتوں کو پریشانی کا سامنا ہوا اور ان کے حق میں بڑا ظلم ہوا۔ اہل سنت جو مسلمان ہیں، سخت رکاوٹوں اور تشویش میں مبتلا ہوئے اور ان کے قابل افراد کو انتخابات میں حذف کیا گیا۔ الیکشنز میں ایسی شرطیں رکھی گئی ہیں کہ قابل افراد سامنے نہ آسکیں اور ان کی اہلیت منظور نہ ہو۔ اہل سنت کے علاوہ دیگر قابل افراد کو دور رکھا گیااور ان کی اہلیت کو مسترد کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا: ان سالوں میں اہل سنت کے ایسی افراد جو صدر بننے کے قابل تھے، انہیں وزیر یا نائب وزیر کے عہدے تک بھی منظور نہیں کیا گیا۔ انقلاب کے بعد تیس صوبوں میں ایک گورنر بھی اہل سنت سے مقرر نہیں کیا گیا۔
مولانا عبدالحمید نے اہل سنت پر مذہبی دباؤ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: حتیٰ کہ مذہبی امور میں بھی اہل سنت کو آزادی نہیں ملی، حالانکہ قانون نے انہیں آزادی دی ہے۔ حکومت نے ایک ادارہ بنایا تاکہ اہل سنت کے سب مذہبی امور کو اپنے کنٹرول میں لے، جب میں تہران ان کے ادارے کا دورہ کیا، انہیں واضح بتایا کہ جب اس بلڈنگ میں چوکیدار سے لے کر دیگر اعلیٰ عہدیداروں میں ایک سنی شہری بھی نہیں ہے، پھر اہل سنت کیسے تم پر بھروسہ کرکے اپنے مذہبی امور کو تمہارے سپرد کریں؟ بہت وزارتخانوں میں اوپر سے لے کر نیچے تک ایک سنی شہری بھی نہیں ہے؛ حالانکہ اتنے مسالک اور قومیتیں ایرانی ہیں اور اسلام کی چھتری میں سب جماعتیں، پارٹیز، لسانی اور مسلکی و مذہبی گروہ آجاتے ہیں۔ یہ سب آزادی، انصاف اور عدل کی چھتری تلے آتے ہیں، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔

مسلکی سوچ نے ملکی امور ایک مخصوص طبقے کے سپرد کیا
ممتاز عالم دین نے مزید کہا: مسلکی نگاہ چاہے شیعہ ہو یا سنی، جب ایسی سوچ نافذ ہو، حلقہ تنگ ہوجاتاہے۔ لہذا پابندیاں لگ گئیں اور صرف ایک مخصوص طبقے کو اوپر آنے کا موقع ملا جس نے قومی، علاقائی اور صوبائی عہدوں کو اپنے قبضے میں لیا۔ یہاں تک کہ وہ دیندار لوگ جن کی سوچ کا دائرہ زیادہ وسیع تھا انہیں بھی نظرانداز کیا گیااور ایسے لوگوں اور افسروں کو ترجیح دی گئی جن کی سوچ بڑی حد تک محدود ہے اور مذہبی امور میں پابندہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا: اہل سنت کے قابل افراد کو بتایا گیا جس دروازے سے اندر آئے ہو، اسی راستے سے واپس چلے جاؤ۔ ایک وزیر نے کسی سنی شہری کے لے وائس منسٹر کا عہدہ جاری کیا تھا، دو مہینے تک اس کا حکم نامہ تصدیق نہیں ہوتا تھا۔ خود وزیر عاجز تھے۔ حساس ادارے انہیں منظور نہیں کرتے تھے اور سب اختیارات حساس اداروں کے سپرد ہوئے ہیں جہاں اکثر نوجوان ہوتے ہیں۔ بوڑھے باتجربہ افراد سے تدبیر لی گئی ہے اور نوجوانوں کو بااختیار بنایا گیاہے۔ تدبیر بڑوں سے ہو اور نفاذ نوجوانوں کی جانب سے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: بعض اوقات ذہن میں آتاہے کہ اگر حکام ہم اہل سنت کو ہمارے حقوق سے محروم رکھتے ہیں، کاش امورِ مملکت کو قابل شیعہ شہریوں کے سپرد کرتے جو سب عوام کے مفادات کو چاہتے ہیں۔ شیعہ کے قابل افراد یہی ہیں جو اب یورپ سمیت دیگر ملکوں کو آباد و خوشحال کررہے ہیں۔ ایران میں قابل افراد کی کمی نہیں ہے جو اس ملک کے اثاثے ہیں۔

ہمارے مذہبی اور مقامی مسائل کا حل قومی مسائل کے حل میں ہے
خطیب اہل سنت نے کہا: میں جان بوجھ کر قومی مسائل سے بات کرتاہوں؛ ہمارے برادری کے مسائل اس وقت حل ہوسکتے ہیں جب قومی اور وفاق کے مسائل حل ہوجائیں۔ ہم بھی ایرانی قوم کے افراد ہیں۔ہمارے بہت سارے مشکلات قومی ہیں اور ایرانی قوم ان سے دست و گریبان ہے۔ قومی مسائل کا حل مقامی مسائل پر ترجیح رکھتے ہیں۔
صوبہ سیستان بلوچستان کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: صوبہ سیستان بلوچستان اور ملک کے مختلف علاقوں کے سنی باشندوں کی شکایت یہ ہے کہ ان کے قابل افراد کو سرکاری عہدوں سے دور رکھاجاتاہے اور مذہبی آزادی انہیں حاصل نہیں ہے۔ ہمارے صوبے میں مکران ساحلی پٹی کو جو بہت قیمتی ہے، دوسروں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ علاقے مقامی لوگوں کے ہیں اور انہوں نے ہی ان کی حفاظت کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: اگر یہاں کوئی کارخانہ بنتاہے یا پیٹروکیمیکل فیکٹری کام کرتی ہے، اس کے نقصانات یہی لوگ برداشت کرتے ہیں، اور اس کے مفادات میں بھی انہیں شریک بنانا چاہیے۔ مکران کے ساحل آباد کرنے میں ترجیح وہاں کے مقامی باشندوں کو حاصل ہے۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہاں کے مقامی باشندوں کو مناسب تعلیم اور ٹریننگ فراہم کرے تاکہ وہ مکران کے ترقیاتی منصوبوں میں حصہ لے سکیں۔ یہاں کے وسائل مقامی باشندوں کے حق ہیں؛ پتہ نہیں ہمارے وسائل اور کانوں سے معدن نکال کرتہران میں رجسٹرڈ کمپنیاں انہیں کہاں لے جاتے ہیں، لیکن اس آگ کا دھواں صرف ہمیں نصیب ہوتاہے۔ان میگاپروجکٹس کے پیچھے کون ہیں؟ یہ ہمارے صوبے کے عوام کی تشویش کا باعث بنا ہے۔ یہ کان قومی ہیں۔

سات تومان کا ڈالر چون ہزار تومان کا ہوچکاہے/ اس قوم کے لیے کیا بچا ہے؟
ایران کے معاشی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے اہل سنت ایران کی سرکردہ سیاسی و سماجی شخصیت نے کہا: ایران کے مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اس بات پر سخت پریشان ہیں کہ ملک ترقی کے بجائے پسماندہ ہوتاجارہاہے۔ جب پہلوی حکومت ختم ہوئی اور اسلامی نظام قائم ہوا، ایک ڈالر کی قیمت سات تومان تھی، آج کیوں اس کی قیمت چون ہزار ہو؟ سات تومان کے بجائے ستر تومان ہوتا تب بھی شکوہ کا مقام تھا، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ پچپن ہزار تومان سے ایک ڈالر خریداجاسکتاہے۔ اس قوم کے لیے کیا بچا ہے؟ اس سے عوام سخت دباؤ برداشت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: قومی کرنسی کی قدر گرنے سے سب لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ مزدور، اساتذہ اور ریٹائرڈ لوگ پریشان ہیں۔ حکومت کے عہدیدار کمزور ہیں جو ان مسائل کو حل کرنے سے عاجز ہیں۔ یہی کمزور حکام بھی کہتے ہیں ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے اور فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔کتنے مواقع حکام نے گنوادیا ہے اور قوم کی دینی و اخلاقی تربیت میں ناکام ہوچکے ہیں؛ اخلاق اور دینداری ملک میں کمزور ہوچکی ہے اور لوگ دین بیزار بن چکے ہیں۔ لوگوں کی زندگی اجیرن بن گئی، تووہ دینی حکومت سے بے زار ہوئے اور پھر دین و مذہب کو ذمہ دار ٹھہرانے لگے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: کچھ بزرگ کہتے ہیں اس سال میں مہنگائی پر قابو پانا چاہیے؛ لیکن جس راستے پر ملک گامزن ہے اس کا نتیجہ مہنگائی کم ہونا نہیں ہوگا۔قوم کی دولت ملک سے باہر خرچ کرنا شرعی لحاظ سے درست نہیں جب قوم اس پر راضی نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: عوام نے کچھ عرصے کے لیے اصلاح پسندوں کو ووٹ دیا، لیکن ان سے بھی کچھ نہ بنا۔ وہ بھی کہتے تھے ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں ہے؛ یہ معلوم نہیں حقیقتا ان کے پاس اختیارات تھے یا نہیں۔ اہل سنت نے متحد ہوکر اصلاح پسندوں کو ووٹ دیا کہ اگر فلان شخص صدر بن جائے، ہمارے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ لیکن انہوں نے کچھ نہ کیا۔ وہ کہتے تھے مشکلات کے حل میں بے اختیار ہیں۔

کون مانتاہے اسلامی جمہوریہ نماز پر پابندی لگاتاہے!
شیخ الحدیث و صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: آخری صدارتی انتخابات میں تمام تر مسائل کے باجودبعض شیعہ و سنی شہریوں نے الیکشن میں ووٹ ڈالا، اہل سنت نے بھی شکایتوں کے باوجود صدر رئیسی کو ووٹ دیا تاکہ ان کے مسائل حل ہوجائیں، لیکن مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ ہی گئے۔ دسیوں نمازخانے مشہد شہر میں بندکردیے گئے ہیں۔ کون مانتاہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نماز پر پابندی لگاتاہے! اگر کہیں اور ہم ایسا کہیں ہمیں جھوٹے سمجھیں گے۔ کیا نماز سے کوئی منع کرسکتاہے؟ یہ کیسے مسلمان ہیں جو نماز کی چھٹی کراتے ہیں؟! نماز اور نمازخانے سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
انہوں نے کہا: بڑے شہروں میں اہل سنت کو کہتے ہیں نمازخانے کے لیے سرکاری اجازت نامے کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر نمازخانہ بند ہوجاتاہے۔ جب پوچھتے ہیں کس ادارے سے اجازت نامہ حاصل کریں، سکیورٹی حکام کہتے ہیں ہمیں بھی معلوم نہیں۔ ایک مرتبہ ثقافت اور اسلامی ارشاد کے وزیر سے میں نے کہا ہمارے لوگ نماز پڑھنے کے لیے دباؤ میں ہے اور انہیں اجازت نامہ لینے کا کہا جاتاہے۔ انہوں نے کہا نماز کی اجازت خدا ہی نے دی ہے۔ روس جیسے ملک میں نماز پر پابندی نہیں اور مسلمانوں کی بڑی مسجد ماسکو میں صدارتی محل کے ساتھ واقع ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پولیس بعض بڑے شہروں میں عید کی نماز سے منع کرتی ہے
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: میں روسی حکام کے سب کاموں کی تصدیق نہیں کرتاہوں، لیکن جس سفر میں ہم نے بعض حکام کو دیکھا وہ کہتے تھے ہماری نظر میں سب مذاہب اور مسالک یہاں آزاد ہیں اور ہم انہیں تنگ نہیں کرتے ہیں۔ وہاں کے مسلمانوں کے مذہبی امور مفتی کے اختیار میں ہیں، حکومت کے نہیں۔ اجازت نامے بھی مفتی ہی شائع کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں روس دین و مذہب کی دشمنی کرتاتھا، پھر انہیں سمجھ آیا کہ مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیے۔ ہمیں ان کے تجربے سے سبق لینا چاہیے تھا؛ مذہبی مسائل میں دباؤ ڈالنا غلط پالیسی ہے۔
انہوں نے کہا: پہلوی حکومت میں ایک بار کہا گیا نماز جمعہ پڑھنے کے لیے تحصیلدار سے اجازت لیں۔ لوگ جب تحصیلدار کے پاس گئے، اس نے پوچھا نماز جمعہ کس دن پڑھی جاتی ہے!اس نے کہا تھا جمعے کو بھی پڑھیں ہفتے کے دن بھی پڑھیں! لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی پولیس آکر بعض بڑے شہروں میں سنی باشندوں کو عید کی نماز سے منع کرتی ہے اور ساتھ یہ بھی کہتی ہے اس کا گناہ ہمارے اوپر!یہ ایک اسلامی حکومت کی پولیس ہے!
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: آج پوری ایرانی قوم مشکلات کو محسوس کرتی ہے۔ ایک خیرخواہ کی حیثیت سے حکام کو کہتاہوں جب تک ان کی سوچ تبدیل نہ ہواور ملک میں بڑی تبدیلیاں نہ لائی جائے، مجھے یقین ہے یہ ملک ٹھیک نہیں ہوجائے گا۔
مولانا نے شیعہ و سنی علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: شیعہ و سنی علما کو میری نصیحت ہے کہ قوم کو نہ چھوڑیں۔ اس کا نقصان ناقابل تلافی ہے۔ علما کو قوم کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ہمارا مشن یہی ہے کہ عوام کو ساتھ دیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے اگر علما عوام کو گنوائے، یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔

تیس سال ہے سپریم لیڈر سے ملنے نہیں دیتے ہیں /صدور مملکت کے پاس اختیارات نہیں ہیں
انہوں نے زاہدانی نمازیوں سے خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا: میں تمہارے موافقین میں تھا اور ہمیشہ آپ کے ساتھ تعاون کرتا تھا۔ سنی عوام نے تمہیں ساتھ دیا اور میں ان کا پیش امام تھا۔ آپ کو خوب معلوم ہے کہ اہل سنت ہی نے انتخابات کے تنور کو گرم رکھا۔ تیس سال ہوچکے ہیں کہ میں ملک کے بڑوں سے ملنا چاہتاہوں لیکن ملنے نہیں دیتے ہیں۔ میں نے صدور مملکت سے بات کی ہے، لیکن ان کے پاس کافی اختیارات نہیں ہیں۔ میں نے خط لکھ کر ملاقات کی درخواست کی، پتہ نہیں خط انہیں موصول ہوا یا نہیں، لیکن ملاقات کے لیے وقت نہیں دیا گیا۔ کہتے تھے یہ بات کرتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمیں بات کرنے دیں۔ اگر تم ناقدین اور مخالفین کے ساتھ بیٹھ کر بات کرتے، آج یہ چیلنجز پیش نہ آتے۔ حکام کوئی چارہ کریں؛ جس راہ پر تم گامزن ہو، اس کا انجام بندگلی ہے۔ عوام سے زبردستی اور زورِ بازو کے ذریعے کام نہ لیں؛ آہنی ہاتھ کے بجائے نرمی کا مظاہرہ کریں اور ان کے مطالبات مان لیں۔

قابض اسرائیل کے احتجاجوں میں کتنے افراد مارے گئے؟
ممتاز عالم دین نے ایرانی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: قوم کو مت چھوڑیں۔ اگر کوئی احتجاج کرتاہے، اس کی پٹائی نہ کریں، جیل میں نہ ڈالیں۔ خود سے پوچھیں اسرائیل جسے ہم سب قابض اور صہیونی سمجھتے ہیں، وہاں کے احتجاجوں میں کتنے مظاہرین قتل ہوئے؟ فرانس میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے ہیں اور پولیس انہیں قابو کرنے لیے پانی بہاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: مظاہرین کو کہیں بھی گولی مارکر قتل یا زخمی نہیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ تمہارے ہی عوام ہیں۔ میں تمہارا خیرخواہ ہوں؛ مجھے کچھ نہیں ملتا۔ عوام کو مارنا سنگین غلطی ہے۔ خواتین اور نوجوانوں کو قید کرنا اور خیرخواہوں کو نظربند رکھنا غلط ہے۔

افغان حکام اسلام کو حالاتِ حاضرہ کے مطابق پیش کریں
شیخ التفسیر والحدیث مولانا عبدالحمید نے افغانستان کے نئے حکام کو پیغام دیتے ہوئے کہا: آپ نے جہاد کرکے افغانستان کی حکومت حاصل کی ہے جسے اسلامی کہتے ہیں۔ آپ کو خوب معلوم ہے کہ اسلام آخری دین اور اس کی کتاب قرآن پاک ہے۔ دین قرآن و سنت میں ہے اور باقی اس کی تفسیر و شرح ہے۔ علما و فقہا کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ جو کچھ ہے قرآن و سنت میں ہے۔ ان پر کوئی اضافہ نہیں کرسکتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: تم نے ایک عظیم ذمہ داری قبول کرکے تختِ حکومت پر قابض ہوچکے ہو۔ موجودہ حالات میں خاص حالات کو مدنظر رکھ اسلام کا نفاذ ہونا چاہیے۔ اب کے حالات سو سال قبل یا خلفائے راشدین سے مختلف ہیں۔ ایک ہزار سال قبل اگر کسی عالم نے کوئی فتویٰ دیاہے، وہ فتویٰ اسی زمانے کے حالات کے مطابق تھا۔ ماضی کے علما اگر آج ہوتے، وہ اپنے ہزاروں فتوے تبدیل کردیتے۔ آج کی دنیا بدل چکی ہے۔ فتوے زمانے کے حالات اور مزاج کے مطابق ہوتے ہیں۔

افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے راستہ ہموار کریں
مولانا عبدالحمید نے خواتین کی تعلیم پر پابندی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: انتہائی دکھ ہوتاہے کہ بہت ساری افغان خواتین اور لڑکیاں تعلیم کی خاطر دیگر ملکوں کا رخ کررہی ہیں۔ جب یہ خواتین و حضرات ناراض ہوکر وہاں سے چلے جاتے ہیں، اس کا امکان ہے کہ ان کی ثقافت ہی بدل جائے اور پھر اس کا وبال اور گناہ کس پر ہوگا؟
انہوں نے کہا: جلد سے جلد افغانستان میں خواتین کے لیے تعلیم کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ مرد ہو یا خاتون تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ علم چاہیے شریعت کا ہو یا عصری تعلیم سب ضروری ہیں؛ ان کے بغیر ترقی حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ شریعت نے خواتین کے لیے کوئی خاص علم متعین نہیں کیا ہے اور شریعت کا حکم عام ہے۔
خطیب اہل سنت نے افغانستان کی مختلف لسانی اور مسلکی گروہوں پر توجہ دینے کی ضرورت واضح کرتے ہوئے کہا: افغان قومتیں اس ملک کے لیے نعمت ہیں؛ جہاں بھی کوئی قابل شخص ہو، اس سے استفادہ کیا جائے۔ میرا برادرانہ مشورہ ہے حتیٰ کہ کوئی غیرمسلم شہری ہو، اس کی قابلیت سے بھی کام لیاجائے۔ کسی بھی لسانی برادری کو یہ احساس نہیں کرنے دیاجائے کہ وہ امتیازی سلوک کا شکار ہے۔ اہل تشیع اور ہزارہ برادری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہیں وہ مختلف مسلک کی وجہ سے خود کو محروم نہ سمجھیں۔ مجھے اسلام پر ترس آتاہے کہ کہیں ہمارے اعمال کی وجہ سے اسلام کو نقصان نہ پہنچے۔
انہوں نے کہا: افغانستان کی اسلامی حکومت تعلیم یافتہ طبقہ سے کام لے۔ آپ نگرانی کریں اور انہیں صحیح راستہ دکھائیں۔ خواتین سے بھی کام لیں اور انہیں تعلیم اور کام کرنے سے نہ روکیں۔ مردو زن کے حقوق برابر ہیں۔ مرد کا حق خاتون سے زیادہ نہیں ہے۔ تنقید سے تمہیں نقصان نہیں پہنچتا، اس میں تمہاری اصلاح ہوتی ہے۔ دوست ہمیں اصلاح نہیں کرتے، مخالفین کرتے ہیں۔ جو ملک سے باہر چلے گئے ہیں، انہیں واپس لاکر ان سے کام لیں۔
عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: افغانستان ہرگز اتنا پرامن نہیں رہاہے۔ بدامنی کے واقعات کافی کم ہوچکے ہیں۔ اس حکومت نے کرپشن کا خاتمہ کیا ہے۔ مختلف ممالک انہیں موقع دیں، وہاں اپنے سفارتخانے کھول دیں۔ اگر انہوں نے خلاف ورزی کی، ہم بھی عالمی برادری کے ساتھ ہوں گے۔ آج افغان عوام سخت بھوک اور مسائل سے دوچار ہیں۔ ان کا ملک خوشحال اور دنیا سے تعلقات میں ہونا چاہیے۔ ہم سب اصلاح اور تبدیلی کے لیے طالبان کا ساتھ دیں۔