- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

غلط پالیسیوں کی وجہ سے امورِ مملکت کمزور افراد کے سپرد ہوجاتے ہیں

مولانا عبدالحمید نے دس مارچ دوہزار تئیس کے بیان میں ایک بار پھر سب ایرانیوں کے قومی مفادات کو ہر مسئلے سے زیادہ اہم یاد کرتے ہوئے ملک کی موجودہ صورتحال اور سیاسی و معاشی ڈیڈلاک کو کمزور افسران اور حکام سے کام لینے کا نتیجہ قرار دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہمیں سرحد پار کے لوگوں کے لیے سوچنا چاہیے کہ ان کے لیے ہم کیا کچھ کرسکتے ہیں؛ کچھ اور نہ ہو، کم از کم دعا تو کرسکتے ہیں۔ ہم ایک ملک میں رہتے ہیں اور سب ایرانیوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی مشترک بات میں ایک ہی اسٹیج پر ہیں؛ ہم پوری دنیا کے لوگوں سے انسانی بھائی چارہ میں مشترک ہیں۔ ایرانیوں کے ساتھ وطنی اور دینی بھائی چارہ میں ساتھ ہیں۔ لہذا ہماری پہلی ترجیح قومی مفادات ہیں۔ ہمارے لیے امن، آزادی اور انصاف بہت اہم ہیں اور ہم یہ چیزیں سب ایرانیوں کے لیے چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: قومی مفادات سب ایرانی قومیتوں اور مسالک کے لیے ترجیح رکھتے ہیں اور پوری قوم ان مفادات میں مشترک ہیں۔ ایران سب ایرانیوں کا ملک ہے اور اس کے مفادات بھی پوری قوم کو ملنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں حیرت انگیز منافع رکھا ہے۔ یہاں قابلیت کی کمی نہیں ہے اور سب کو پتہ ہے؛ اگر کوئی کمزوری ہے تو ملک چلانے میں ہے جس سے ہم پریشان ہیں۔ کمزور حکام اس قابلیت سے درست فائدہ اٹھانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے ملک کے حالیہ احتجاجوں کو کمزور مینجمنٹ کے ثمرات میں یاد کرتے ہوئے کہا: یہ قوم کیوں معاشی مسائل میں پھنس چکی ہے اور بھوک برداشت کررہی ہے؟ معیشت میں لوگ کیوں خود کو بندگلی میں محسوس کررہے ہیں؟یہ ملک کیوں دیگر ملکوں سے مقابلہ نہ کرسکے؟ اصل پریشانی ملک چلانے کی پریشانی ہے۔ جتنے احتجاج ملک میں ہورہے ہیں اور لوگ نعرے لگارہے ہیں، سب اسی جانب سے ہیں۔

جب تک ملک میں مکمل آزادی نہ ہو، مسائل نہیں ہوں گے
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے واضح کرتے ہوئے کہا: ملک میں پالیسیوں کو اس طرح سیٹ اپ کیاگیا ہے کہ مختلف شعبوں کے امور کمزور افسران اور حکام کے قبضے میں آجاتے ہیں۔ ایسی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے جن کی وجہ سے ملک کا یہ برا حال ہوچکاہے۔ ملک میں بہت سارے قابل، لایق، ماہر اور ماسٹرمائنڈز موجود ہیں جو ملک کو مختلف شعبوں میں ترقی سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ اگر کمزور حکام کے بجائے ان قابل افراد کو بر سر کار لایاجاتا، موجودہ پریشانیاں پیدا نہ ہوتیں۔
انہوں نے یاددہانی کرتے ہوئے کہا: موجودہ داخلہ و خارجہ پالیسیوں سے ہم بند گلی میں جاچکے ہیں۔ بارہا ہم نے آواز اٹھائی۔ علاقائی مسائل، لسانی ومسلکی اور اقلیتوں کے حقوق سمیت خواتین اور سب طبقوں کے حقوق کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ آزادی انسان کا حق ہے۔ ہم انسانی حقوق پر زور دیتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ ملک میں ایک ایسی تبدیلی لانی چاہیے جس سے قوم کے مطالبات پورے ہوجائیں۔ حق کی راہ آگے نہیں جاتے ہیں اور کسی بھی فرد یا گروہ کے حق میں ظلم کے خلاف ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: زاہدان کے خونین جمعہ کے مسائل پر کوششیں جاری ہیں۔ کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں، لیکن ناکافی ہیں۔ ہمارا خیال ہے سب کے حقوق کا خیال رکھاجائے اور سب انصاف کی بنا پر میدان میں آجائیں۔ یہ سب حقوق کا کیس نہیں بھلایاجائے گا اور ان شااللہ ہم آئندہ بھی اس کیس کی پیروی کرتے ہیں گے۔

بہت ساری خواتین میں مردوں سے زیادہ قابلیت پائی جاتی ہے
علمی میدانوں میں خواتین کے لیے منصوبہ بندی کی جائے
ایران کے ممتاز سنی عالم دین نے خواتین کے حقوق پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: خواتین کے مسائل میں آج کی دنیا کو دیکھ لینا چاہیے۔ جہاں دین کے نام حکومتیں آئی ہیں اور اسلامی حکومت کا نام لیاجاتاہے، انہیں دیکھنا چاہیے دنیا میں خواتین علمی، سماجی اور معاشرتی امور میں کیسے ترقی کرچکی ہیں۔ جیسا کہ انسان دنیا کا دل ہے، خواتین بھی انسان اور دنیا کے دل ہیں۔ جو احترام مردحضرات کے لیے ہے، خواتین کے لیے بھی ہے۔ مرد و زن حقوق میں برابر ہیں۔ خواتین کی عزت اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔علمی میدانوں میں ان کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: موجودہ حالات میں اگر ہم اسلام کو پیش کرنا چاہتے ہیں، ان مسائل کو مدنظر رکھیں۔ کوئی بھی دین، خاص کر اسلام خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے، اور قرآن میں کوئی متن ایسا نہیں ہے جو خواتین کو تعلیم سے منع کرے یا مرد و خواتین میں فرق رکھے۔ یہ خود اس بات کا جواز ہے کہ خواتین علم اور سائنس میں ترقی کریں۔ کسی بھی شخص کے لیے تعلیم لازمی نہیں ہے، لیکن اگر کوئی مرد یا خاتون تعلیم حاصل کرنا چاہے، اس کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہیے۔ دینی مدارس اور یونیورسٹیز سب کے لیے کھلے ہوں اور سب کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینا چاہیے۔ علم سے لوگ طاقتور ہوجاتے ہیں۔
مولانا نے کہا: بہت ساری خواتین میں ایسی قابلیت پائی جاتی ہے جو مردحضرات میں نہیں ہے۔ خواتین کو علم سیکھنا چاہیے۔ ان کی تعلیم کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

خواتین کے حقوق کے بارے میں مقامی رسم و رواج کو اسلامی احکام پر غالب نہ ہونے دیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے بعض مقامی رسم و رواج پر تنقید کی جو خواتین کے حقوق کی پامالی کے باعث بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا: بعض علاقوں میں علاقائی روایات اسلامی احکام کے برخلاف خواتین کے حقوق کی پامالی کے باعث بن جاتی ہیں اور لوگ انہیں اسلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں ان مقامی رسم و رواج سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ سب کو میری نصیحت ہے کہ خواتین کے حقوق کا خیال رکھیں۔ خواتین میں قابلیت اور عقل پائی جاتی ہے؛ سب مردو خواتین برابر نہیں ہیں، لیکن ہم کہتے ہیں کہ قابل افراد سے کام لیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا: دنیا کے موجودہ حالات میں مرد و خواتین ساتھ ساتھ کام کرتے ہیں۔ بعض گھرانوں میں مرد کام نہیں کرسکتے ہیں تو خواتین کام کرکے کماتی ہیں یا مرد کی کمائی ناکافی ہے، تو خواتین کو بھی کام کرنا پڑتاہے۔ خواتین کو بھی روزگار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے لیے کام کے مواقع فراہم کرنا چاہیے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے نوجوانوں کے حقوق پر بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا: نوجوانوں کو پالیں جو بہت اہم ہیں۔ بہت سارے معاشروں میں نوجوانوں کی آبادی دوسروں سے زیادہ ہے اور وہ پرامید زندگی گزار کر اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ نوجوانوں سے برا برتاؤ نہیں ہونا چاہیے؛ ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔ ان کی باتیں سنیں ۔ دوسروں کی طرح ہمیں بھی نوجوانوں کی بہتر ترقی اور تربیت کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

شناختی مسائل ہمارے علاقے میں پریشان کن ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے صوبہ سیستان بلوچستان میں شناختی کارڈز سے محروم شہریوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا: ہمارے صوبے کا ایک اہم مسئلہ ہے شناختی کاغذات سے محرومی ہے۔ بہت سارے شہری جو خود بھی اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں، ان کا آباؤ اجداد بھی یہاں رہ چکے ہیں اور اس ملک کی خاطر دشمن سے بھی لڑچکے ہیں، شناختی کاغذات سے محروم ہیں۔ ان لوگوں نے بہت کوششیں کی ہیں، بعض کو شناختی کارڈذ دیا گیا ہے اور بعض کے کیسز ابھی تک چل رہے ہیں اور انہیں شناختی کاغذات سے محروم رکھا گیا ہے۔

مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں طالبان حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: سیستان میں پانی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اگر وہاں پانی نہ ہو، زراعت تو اپنی جگہ، عام زندگی گزارنا بھی مشکل ہوجاتاہے۔ لہذا سب کو سیستان کے بارے میں کوشش کرنی چاہیے۔ طالبان سیستان کے پانی کا حصہ اسے دلوائیں۔ اگر پانی کم بھی ہو، پھر بھی اسے تقسیم کیا جائے تاکہ اہلیانِ سیستان بھی اپنا حصہ حاصل کرسکیں۔سیستان کے لوگوں کا بھی دریائے ہیرمند میں حق ہے۔