- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

سکول طالبات پر گیس حملے احتجاجوں کو دبانے کی سازش ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے تین مارچ دوہزار تئیس کو سکول اور بعض کالجوں کی طالبات پر گیس حملے کے سلسلہ وار واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو عوامی احتجاجوں کو دبانے کی سازش قرار دی۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے سکیورٹی فورسز کی سخت ناکہ بندی اور گھیراؤ میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا: دسیوں سکولوں میں طالبات پر گیس اور زہریلے حملے ہوئے ہیں؛ لڑکیوں اور بچیوں کو نشانہ بنانے سے پوری قوم میں تشویش کی لہر دوڑگئی ہے۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ تین مہینے ہوچکے ہیں کہ قم سے شروع ہونے والے یہ سلسلہ وار حملے تہران سمیت مختلف شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ سینکڑوں بچیاں اور بعض علاقوں میں بچے بھی ان حملوں کی زد میں آچکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: یہ کون لوگ ہیں جن کی شناخت اب تک نامعلوم ہے؟ کون یقین کرسکتاہے کہ حکام اور حساس اداروں کو ان کی حقیقت معلوم نہیں؟ چھوٹے چھوٹے مسائل سکیورٹی اداروں کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے، لیکن اتنا بڑا مسئلہ جس نے پوری دنیا کو ہلا کر چھوڑدیا ہے، کیسے صیغہ راز میں ہے؟ہمارے حکام اور حکومت کے پاس تمام ضروری آلات ہیں، ان کی لاعلمی ناقابل یقین ہے۔ لہذا اس مہم کو روکنا چاہیے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے واضح کرتے ہوئے کہا: بہت سارے مبصرین کا خیال ہے اور شاید یہی بات قرینِ حقیقت بھی ہے کہ زہریلے حملے احتجاجی تحریک کو دبانے کی سازش ہے۔ ان ہی لڑکیوں نے اسکولوں میں احتجاج کیا؛ اب کچھ عناصر گیس حملوں میں ملوث ہیں اور جن حکام کو ان کے بارے میں معلوم ہے، وہ بھی خاموش ہیں اور انہیں منع نہیں کرتے ہیں، اس کی وجہ ان کے سابقہ احتجاج ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے لیے مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: احتجاج ہمارا قانونی حق ہے۔ توڑپھوڑ اور لوگوں کی جان و مال پر دست درازی کے خلاف ہیں،لیکن نے پرامن احتجاج جہاں لوگ اپنے مسائل اور مطالبات کو بیان کرتے ہیں، قانون کے مطابق اس کی اجازت ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: سکول اور کالج کی طالبات پر گیس حملے بند کرنا چاہیے؛ اس سے عوامی غم و غصہ پھیلے گا۔ یہ ہمارے ملک کے لیے بڑا نقصان دہ ہے۔ علم و دانش کے زیور سے آراستہ ہونا بچوں اور بچیوں سب کے لیے ضروری ہے اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں سکیورٹی فراہم کرے۔ ایران کے سب شہریوں کو امن فراہم کرنا چاہیے؛ چاہے وہ تاجر ہوں، یا سکول کے طلبا و طالبات یا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم طلبا و طالبات۔ تعلیم کا سلسلہ امن کے سایے میں جاری رہنا چاہیے۔ تعلیم ملک کے اہم محوروں میں شمار ہوتی ہے۔

سب سے برا حکمران وہ ہے جو اپنی قوم سے جھوٹ بولے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں حکومت اور قوم کے درمیان سچائی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: سب سے برا حکمران وہی ہے جو اپنی قوم سے جھوٹ بولتاہے۔ جب لوگ کسی کو اپنا صدر، ذمہ دار اور نمائندہ منتخب کرتے ہیں، پھر وہ ان سے جھوٹ بولے، یہ سب سے بڑا جھوٹ ہوگا۔ سب سے برا جھوٹ وہی ہے کہ جن پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں، وہ جھوٹ بولیں۔
انہوں نے مزید کہا: لوگوں کی نجات سچائی میں ہے اور جھوٹ سے انسان تباہ ہوجاتاہے۔ اسلام نے اس پر بڑی تاکید کی ہے کہ امانت میں خیانت اور غداری سے گریز کرنا چاہیے۔

حکام احتجاج کرنے والوں کا قتل اور قید کرنا انکار کرتے ہیں، اسی عیدگاہ میں کتنے لوگ شہید ہوئے!
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایرانی وزیر خارجہ کی سی این این سے حالیہ گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: افسوس ہے کہ کچھ لوگ جھوٹ بولنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے ہیں اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ ایک ذمہ دار نے یورپ کا دورہ کیا تھا اور ہمیں حیرت ہوئی کہ اس نے وہاں دعویٰ کیا کہ ایران کے احتجاجوں میں کسی کا قتل نہیں ہوا ہے، اور احتجاج کی خاطر کوئی شہری قید نہیں ہوا ہے۔ یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ بہت سارے افراد حالیہ احتجاجوں میں قید بھی ہوئے، قتل بھی ہوئے ۔ اسی عیدگاہ میں کہا گیا کہ پرامن احتجاج عوام کا حق ہے اور لوگوں کی بات سنی جائے۔ چابہار میں ایک حادثہ پیش آیاتھا اور ہم نے کہا اس کیس کی حقیقت واضح کریں، لیکن ایک خونین حادثہ پیش آیا جہاں درجنوں افراد شہید ہوئے۔ دیگر شہروں میں بھی متعدد شہری مارے گئے۔
انہوں نے مزید کہا: حکام حقایق کو بتائیں۔ کوئی بھی حکومت چاہے اس کا نام اسلامی ہی کیوں نہ ہو، اسے اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ حقایق کے خلاف دعویٰ کرے۔ کوئی بھی اسلامی نظام چاہیے عادلانہ ہو یا ظالمانہ، قیامت تک باقی نہیں رہے گا۔ کیا صحت اور حیات ہمیشہ کے لیے ہیں؟ ہماری عمر ایک دن ختم ہوجائے گی؛ ہم سب چلے جائیں گے، جو باقی رہے گا وہ سچائی اور خدمتِ خلق ہے۔

دینی و سیاسی شخصیات مخالفین کی باتیں سن لیں، مدح و ثنا سے آدمی کی کمر ٹوٹ جاتی ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے تعمیری تنقید کی افادیت پر خطاب کرتے ہوئے کہا: تعمیری تنقید ملک کے لیے بہت مفید ہے؛ اگر ایسا نہ ہو ملک ٹھیک نہیں ہوگا۔دنیا کے عرف میں اور بین الاقوامی، قومی اور شرعی قوانین کے مطابق بھی تعمیری تنقید فایدہ مند اور موثر ہے، اور سب کو ایسی تنقید کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ تعریفیں کرنا اور مدح سرائی نقصان دہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کے سامنے کسی نے ایک شخص کی تعریف کی۔ آپﷺ نے فرمایا تم نے اپنے بھائی کی گردن توڑدی۔ مدح و ثنا اور تعریف سے آدمی کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: سمجھدار لوگوں کو اپنی تعریف سننا پسند نہیں اور صرف سادہ دل لوگ اپنی تعریف سن کر خوش ہوتے ہیں۔ حکام تنقید سے نہ گھبرائیں۔ جس کی تنقید نہ ہو، اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی اور آمریت پیدا ہوجاتی ہے۔ آمریت انسانیت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اعلیٰ حکام صرف اپنے اداروں کے ماہرین کی آرا اور مشوروں پر بھروسہ نہ کریں، بلکہ عام شہریوں کی باتیں بھی سن لیں۔ دانشوروں، علما اور مخالفین کی باتیں بھی سن لیں۔ بصورتِ دیگر غلطی کا احتمال زیادہ ہے۔ سب سیاسی و مذہبی شخصیات جو سماج کے لیے باپ کی حیثیت رکھتی ہیں، مخالفین کی باتوں پر توجہ دیں تاکہ حقایق ان کے لیے کھل جائیں۔ موجودہ مسائل میں عوام کی آواز سن لیں اور ان کے مطالبات کو دیکھ لیں۔ ہر ملک کے شہری اپنی بات کا اظہار کرسکتے ہیں۔ بندہ نے ماضی میں بھی کہا ہے کہ اکثریت کی بات مان لیں اور مروجہ طریقوں سے مسائل کا حل نکالیں۔

تعلیمی مراکز کی نیلامی ملک کا نقصان ہے
ممتاز عالم دین نے بجٹ خسارے کی تلافی کے لیے بعض صوبوں کے تعلیمی مراکز، خاص کر صوبہ سیستان بلوچستان جو پس ماندہ علاقہ ہے، کی نیلامی پر تنقید کرتے ہوئے کہا: بہت سارے صوبوں میں اب بھی تعلیمی مراکز کی کمی ہے۔ ملک کی آبادی بڑھتی جارہی ہے، ایسے میں تعلیمی مراکز کی نیلامی ناقابل تلافی نقصان ہے۔ تعلیمی اداروں کا کردار ملک کی خوشحالی و ترقی کے لیے سب پر عیاں ہے۔ ان مراکز کی فروخت ناقابل قبول ہے۔ یہ ہمارے قومی مفادات کے خلاف ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر ایرانی کرنسی کی بری حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: قومی کرنسی کی قدر گرنے سے سب کو نقصان پہنچتاہے۔ بہت سارے ممالک ہم سے زیادہ غریب ہیں، لیکن ان کی کرنسی کی قدر ہماری کرنسی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ معیشت ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ لوگ کم از کم روٹی خریدنے سے عاجز نہ ہوجائیں۔ لہذا معیشت اور قومی کرنسی کی قدر بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مولانا نے کہا: بری معاشی حالت کی وجہ سے سب مصیبت میں ہیں؛ سرکاری ملازمین اور مسلح اداروں کے اہلکاروں سے لے کر عام شہریوں اور تاجروں تک سب مسائل کا شکار ہیں۔ زندگی اجیرن بن چکی ہے اور یہ توجہ طلب مسئلہ ہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: امن سب کی ضرورت ہے اور عوام امن کی بحالی پر توجہ دیتے ہیں۔ عوام کے بغیر امن کو بحال رکھنا ممکن نہیں ہے۔ جو المناک حادثہ زاہدان میں پیش آیا، سب حکام کا ماننا ہے کہ نہتے عوام کو بلاوجہ مارا گیا۔ مناسب ہے جو حکام اور ذمہ دار یہاں آتے ہیں، کم از کم عوام سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کریں تاکہ ان سے دباؤ کم ہوجائے۔