- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اگر عوام کا جمہور کوئی اور نظام چاہتاہے، ان کی بات مان لی جائے

ایران کے ممتاز عالم دین نے سترہ فروری دوہزار تئیس کو زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے عوام اور ریاست کے درمیان پیش آنے والے اختلاف کے حل کے لیے اپنا حل پیش کردیا۔ انہوں نے کہا سب سے بہترین حل اکثریت اور جمہورکی بات مان لینے میں ہے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا: سب کو معلوم ہے عوام اور حکومت کے درمیان اختلاف پیش آچکاہے اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس بند گلی سے نکلنے کے لیے آج اپنی رائے پیش کرنا چاہتاہوں جو معقول اور کم نقصان والا حل ہوگا۔ یہ اختلافات کئی سالوں سے موجود تھے اور اب اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ قوم کے کچھ مطالبات ہیں اور وہ تبدیلی چاہتی ہے۔ ریاست کی رائے کچھ اور ہے اور اس کے اپنے مسائل ہیں۔ ماضی سے یہ قانون چلاآرہاہے کہ جب کوئی اختلاف پیش آتاہے، حل کے لیے وہ کسی پنجائیت و۔۔۔ کے پاس فیصلہ کے لیے جاتے ہیں۔ ہر فریق کی جانب سے ایک فرد یا گروہ آتاہے اور وہ اختلافات ختم کرنے اور حل پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی خاندان میں اختلاف پیش آئے، قرآن کے مطابق فریقین سے نمائندے منتخب ہوکر اکٹھے بیٹھ جائیں، اور اگر وہ دیانتداری کا مظاہرہ کریں، مسئلہ حل ہی ہوجائے گا۔ حکمیت بہت اہم ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی تائید آئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: چوالیس سالوں سے ایران میں اسلامی جمہوریہ کا نظام نافذ ہے۔ 1979 ء کو جب انقلاب کامیاب ہوا، سابق قائدِ انقلاب نے ‘خالص اسلام’ لانے کی بات کی۔ سب خوش ہوئے اور اس بات کو خوش آمدید کہا۔ اسلام میں لوگوں کا فہم مختلف ہے۔ اسلام کیا ہے؟ اس سوال کے جواب مختلف ہیں اور تصورات ایک نہیں ہیں۔مرحوم قائدِ انقلاب نے اپنا فہم اسلام نافذ کروایا اور اب بھی اسی فہم کے مطابق سیاسی نظام چل رہاہے۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کا فہم مختلف ہے؛ ہوسکتاہے اہل سنت اور اہل تشیع میں بھی مختلف نظریات موجود ہوں۔

کوئی حکمران خدا کی جانب سے متعین نہیں ہوا ہے؛ حکمرانوں کا انتخاب عوام کا حق ہے
خطیب زاہدان نے فہم اسلام کے فرق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: ہمارا فہم اسلام وہی ہے جو حضرت علیؓ کے عدل و انصاف میں تھا۔ ہم دیانتداری اور سچائی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس فہمِ اسلام میں آزادی اور انصاف اہم ہیں، اظہارِ رائے کی آزادی، سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی آزادی ہے اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں کو آزادی حاصل ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے اسلام کے شروع ہی سے سب کو آزادی حاصل تھی۔ اس فہمِ اسلام کے مطابق، حکمران سے تنقید آزاد ہے۔ مرد و زن کو خلفائے راشدین سے تنقید کرنے کی آزادی حاصل تھی اور تنقید کرتے بھی تھے۔ حکمران کو خلیفہ یا امیرالمومنین کہا جا تھا، لیکن یہ سب حکمران عوام کے انتخاب سے بر سر کار آئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا: خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ مجھے اسی شورا نے خلیفہ چنا جس نے دیگر خلفا کو انتخاب کیا تھا۔ ہمارے فہم کے مطابق کسی حکمران کو اللہ تعالیٰ نے حکمران متعین نہیں فرمایاہے۔ نبی کریم ﷺ جس نے ایک حکومت کی بنیاد رکھی اور ان کی پیروی سب پر واجب تھی، نبی تھے، لیکن ابوبکر صدیقؓ سمیت سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ سب کو عوام نے اپنا حکمران منتخب کیا۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: ہمارا عقیدہ ہے کہ عوام کو اپنی تقدیر کا فیصلہ کرناہے، اور انہیں آزادی حاصل ہے کہ جس کو چاہیں وہ اپنا حکمران منتخب کریں۔ ہم نے آئین کو ووٹ دے کر تائید کی ہے، لیکن آئین میں کچھ شقیں ہمارے عقائد کے خلاف ہیں، لیکن جب جمہور نے اس کو ووٹ دیاہے، تو ہم نے بھی مان لیا ہے، ہرچند ہماری تنقید اپنی جگہ موجود ہے۔ اس فہم میں حکمران کا انتخاب اور چناؤ کا عمل عوام پر ہے۔

ہمارے فہم اسلام میں پھانسی اور جبری اعتراف نہیں ہے
مولانا عبدالحمید نے اسلام سے اپنا فہم واضح کرتے ہوئے مزید کہا: جس فہمِ اسلام کی بات ہورہی ہے، اس کے مطابق پھانسی کی سزا قصاص کے علاوہ کہیں بھی نہیں ہے، دیگر کیسز بہت ہی شاذ و نادر ہیں جن کا نفاذ ہی نہیں ہوتا۔ اس فہم میں پھانسی نہیں ہے۔ ہوسکتاہے بعض مسلم اور غیرمسلم ممالک میں پھانسی کی سزا ہو، لیکن اس فہم میں نہیں ہے۔ جبری اعتراف کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس فہم کے مطابق عوام آزادی کے ساتھ حکمرانوں اور حکومت سے تنقید کرسکتے ہیں۔ تنقید کا حق خواتین کو بھی حاصل ہے۔ تعلیم حاصل کرنا سب کا حق ہے اور خواتین بھی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ قرآن و حدیث کا خطاب مردو زن کے لیے مشترک ہے۔ اس فہم کے مطابق سب قومیتیں،مسالک اور انسان برابر کے حقوق حاصل کرسکتے ہیں اور سب سے اہم نکتہ انسانیت ہے۔ یہاں انسانیت کے لیے فکر ہوتی ہے اور سب کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہوتاہے۔ یہ فہم سختی کے ساتھ امتیازی سلوک کی تردید کرتاہے اور اس کے مخالف ہے۔ کسی بھی سرزمین کے باشندے اپنی قابلیت اور میرٹ کی بنا پر انصاف کی چھتری تلے آجاتے ہیں۔ کاش اس فہم کے بعض حصے دنیا کے کسی کونے میں نافذ ہوتے تاکہ سب اس کو دیکھ لیتے۔

اگر ہمیں اختیارات حاصل ہوتے، ایک گھنٹے کے لیے بھی سیاسی قیدی جیلوں میں نہ رہتے
اہل سنت ایران کے ممتاز رہ نما نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: جو کچھ میں نے اپنے فہمِ اسلام کے بارے میں کہا، وہ میرا ہی فہمِ اسلام ہے اور مجھے کوئی اصرار نہیں ہے کہ دیگر لوگ اسے مان لیں۔ اس فہم میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر میرے پاس کوئی اختیار ہوتا، میں ایک گھنٹے کے لیے بھی کسی سیاسی قیدی کو جیل میں رہنے نہیں دیتا؛ سیاسی قیدی وہی ہے جو بات کرتاہے اور تنقید کرتاہے۔ بات کرنے اور تنقید کرنے کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: یہ ہمارا فہمِ اسلام ہے اور اسلام سے لوگوں کا فہم مختلف ہے۔ ہمیں کوئی اصرار نہیں کہ چند سالوں کے لیے یہ فہم نافذ ہوجائے۔ ہمارا خیال ہے کہ موجودہ اختلاف جو ایران میں پیدا ہوا ہے اس کا حل اکثریت کی رائے حاصل کرنے میں ہے۔

تشدد سے نجات کے لیے رفرنڈم کا انعقاد ضروری ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: میرا خیال ہے کوئی بھی شخص اپنے فہم اور رائے پر اصرار اور زبردستی سے اسے نافذ کرنے کی کوشش نہ کرے، بلکہ یہ دیکھیں کہ اکثریت کس نظام اور سسٹم کو چاہتی ہے، اسی کو مان لیں تاکہ اختلاف حل ہوجائے۔ رفرنڈم اور اکثریت کی رائے پر عمل کرنا تشدد سے نجات کے لیے بہترین حل ہے۔ چپقلش اور جھڑپ سے گریز کریں۔ جیل، کریک ڈاؤن اور زبردستی کرنا کسی مشکل کا حل نہیں ہے، حکمیت اور درست فکر سے مسائل حل کرائیں۔ جمہور کی رائے معلوم کرکے اسی کی بات مان لیں، بشرطیکہ ایرانی عوام کے حقوق یقینی ہوجائیں اور ان کی مذہبی آزادی کا خیال رکھاجائے؛ دین اور دینی مراکز اپنا کام کریں اور یہ بہترین حل ہے۔
انہوں نے مزید کہا: عوام اور قوم کے بڑے اس بارے میں سوچیں تاکہ قوم کا اتحاد و یکجہتی محفوظ ہو۔ ہم ایران کو سب ایرانیوں کا ملک جانتے ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی دین، مذہب، اور قومیت سے ہو۔ ہمارے لیے اتحاد اور قومی یکجہتی اہم ہے۔ اگر ہم پرامن طریقوں اور درست راستوں سے اپنے مسائل حل کرائیں، ایک دوسرے کے ساتھ ہوں، یہ سمجھدارانہ اور عاقلانہ کام ہوگا۔
قیدی علما کی رہائی پر زور دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: بہت سارے علما مختلف صوبوں خاص کر کردستان اور سیستان بلوچستان میں جیلوں میں قید ہیں۔ علما کا وجود خیرو برکت کا باعث ہے، اگر انہوں نے کوئی بات بھی کہی ہے، وہ خیرخواہی اور نصیحت کی بنا پر بات کرتے ہیں۔ بعض سیاسی قیدی رہا ہوچکے ہیں اور یہ مثبت اقدام ہے، امید کرتے ہیں سب دانشور، خواتین اور نوجوان جو جیلوں میں ہیں رہا ہوجائیں۔ سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے ان سے بات چیت کریں۔ پرامن طریقوں سے مسائل حل کرائیں؛ اگر ایسا ہوجائے، یہ سمجھداری اور عقلی ترقی کی نشانی ہوگی۔

بیت المال حکومتوں کے ہاتھوں امانت ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں صحیح بخاری کی ایک روایت کی روشنی میں امانت میں خیانت کو قیامت کی نشانی یاد کرتے ہوئے کہا: جب کام نااہل لوگوں کے سپرد ہوجائے اور امورِ مملکت اور عہدوں کی تقسیم قابلیت اور تخصص کی بنیاد پر نہ ہو، ضوابط کے بجائے روابط کا بول بالاہو، قیامت برپا ہوگی۔ بیت المال حکومتوں کے ہاتھوں میں امانت ہے۔ امانت کا معنی بہت وسیع ہے اور اس کی سب سے اہم مثال عہدے اور حکومت ہیں۔ لوگوں کا مال یا راز ہمارے پاس ہو، سب امانت ہیں۔ حکومت حکمرانوں کے ہاتھوں امانت ہے، اور حکومتی عہدوں کی تقسیم اور تعینات ضوابط کے مطابق ہوں روابط اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر نہیں۔
انہوں نے مزید کہا: قیامت کی دو قسمیں ہیں؛ ایک قیامت صغریٰ یا چھوٹی قیامت اور دوسری قسم قیامتِ کبریٰ ہے۔ جب حکومت نااہل لوگوں کے سپرد ہوجائے یا کوئی امانت کسی نالائق کے ہاتھ میں لگ جائے، افراتفری پیدا ہوتی ہے، لوگ ناراض ہوجاتے ہیں۔ آج کل لوگ اپنے عرف میں کہتے ہیں تمہیں پتہ نہیں بازار میں کیا ہوا تھا؛ ایک قیامت بپا تھی! یہی پریشانیاں، افراتفری اور تشویش دنیا کی قیامت ہیں جس طرح آخرت کی قیامت میں لوگ پریشان ہوتے ہیں اور ہر جگہ افراتفری ہوتی ہے۔

پیداواری اثاثے بیت المال ہیں؛ عوام اس بارے میں پریشان ہیں
سالانہ بجٹ میں پیداواری اثاثوں کے فروخت پر عوامی تشویش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خطیب اہل سنت نے کہا: سالانہ بجٹ میں خسارے کم کرنے کے لیے پیداواری اثاثوں کی نیلامی کے لیے ایک سرکاری کمیٹی بنائی گئی ہے تاکہ وہ پلاٹس اور سامان جنہیں سرکاری بتایاجاتاہے اور دراصل وہ عوامی اور بیت المال ہیں، انہیں فروخت کرکے خسارے کا ازالہ کیا جائے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ماضی میں نج کاری کے نام پر بیت المال کو بعض مقتدر اداروں نے سستی قیمت پر خرید کر عوام کا بڑا نقصان کیا۔ خطرہ یہ ہے کہ اب بھی دوبارہ ایسا ہی ہوجائے اور عوامی اثاثوں کو سستی قیمت پر بعض مخصوص افراد کو نہ دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا: اس پلان پر خود حکومت اور پارلیمنٹ میں بحث جاری ہے اور بعض حلقے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ ہماری رائے میں حکام بجٹ خسارے کو دوسرے ذرائع سے ازالہ کریں۔ بیت المال سے بڑھ کر کوئی حساس امانت نہیں ہے؛ اس کا تعلق قوم کے فرد فرد سے ہے؛ اگر کوئی قصور ہوجائے تو کس سے معافی مانگوگے؟ قوم کے ہر فرد سے معافی مانگنا ممکن نہیں ہے؛ لہذا شدت کے ساتھ خیال رکھیں کہیں عوام کا حق ضائع نہ ہوجائے۔

طالبان سے تنقید کریں گے؛ خواتین کے لیے تعلیم کا راستہ کھلا رکھیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخری حصہ میں افغان طالبان کو خطاب کرتے ہوئے کہا: جب افغانستان میں غیرملکی افواج کے خلاف جہاد جاری تھا، ہم نے اس کی اخلاقی اور معنوی حمایت کی؛ چونکہ ہمارے خیال میں یہ قبضہ گیری تھی اور کسی بھی مسلم یا غیرمسلم ملک کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی افواج کو دیگر ملکوں داخل کراکر ان کی تقدیر میں مداخلت کرے۔ ہر قوم کو اپنے ملک کی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔ ہم نے افغان جہاد کی کامیابی کے لیے دعائیں کی ہے اور ان کی کامیابی اور فتح پر خوش بھی ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا: اب افغانستان میں طالبان حاکم بن چکے ہیں؛ ہم ان کے لیے خیر کی دعا کرتے ہیں، لیکن آج انہیں مشورہ دیتے ہیں۔ ہمارا مقصد کردارکشی نہیں ہے۔ نصیحت اور خیرخواہی کی بناپر بات کرتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ طالبان اس پر کام کررہے ہیں کہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم آزاد ہو، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ حالات کو مناسب بنائیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ علم کا راستہ ایک دن بھی بند نہ رکھیں؛ اگر کوئی خرابی بھی ہے، تو ان مفاسد کا راستہ روکیں، تعلیم کا نہیں۔ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے دیں تاکہ وہ آزادی کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں۔ نیز ہمارا مشورہ ہے کہ مختلف قومیتوں، لسانی گروہوں اور مسالک کے افراد سے کام لیں۔اظہارِ رائے کی آزادی فراہم کریں اور تنقید سے نہ گھبرائیں۔
انہوں نے کہا: علاقائی رسم و رواج کو دین پر غالب نہ کریں اور دین سمجھ کر انہیں نافذ نہ کروائیں۔ قرآن و سنت کی اعلیٰ ظرفی اور فتاویٰ میں موجود رخصتوں اور سہولتوں سے استفادہ کریں۔

نفاذِ شریعت کے لیے اسلحے کی نوک پر نہیں پرامن سیاسی راستوں سے سامنے آئیں
اہل سنت ایران کی اسلامی فقہ اکیڈمی کے سربراہ نے کہا: بعض مسلم یا غیرمسلم ممالک میں کچھ گروہ جہاد کے نام پر مسلح جدوجہد کررہے اور خودکش حملے کروا کر اسلامی احکام اور شریعت کا نفاذ اپنا مقصد بتاتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کس نے انہیں ایسے اقدامات کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ ہم ہرگز ایسا کرنے کا فتویٰ نہیں دے سکتے ہیں اور دونوں جانب سے قتل ہونے والے مسلمانوں کی آخرت کے بارے میں پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا: اس مجلس سے ان گروہوں کو میرا پیغام ہے کہ اگر شرعی احکام کا نفاذ چاہتے ہو، سیاسی راستوں سے آجائیں، سیاسی جماعت بنائیں اور اپنا فارمولہ عوام کے سامنے رکھیں؛ اگر عوام نے مان لیا اور اسے پسند کیا، پھر وہ اسے ووٹ دے کر قبول کریں گے، ورنہ بزورِ بازو اور بندوق کی نوک پر لوگوں پر حکومت کرنے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا۔
یاد رہے سترہ فروری دوہزار تئیس کو نماز جمعہ کی تقریب کے ساتھ ساتھ جامعہ دارالعلوم زاہدان کے فضلا و فاضلات کی دستاربندی بھی ہوئی ۔ تین سو طلبا اور پچاسی طالبات اور بیس حافظ قرآن کو انعامات دے کر ان کی دستاربندی کی گئی۔