- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ملکی مسائل کا حل ذاکروں اور خطیبوں کے پاس نہیں، ماہرین اور ناقد سیاستدانوں کے پاس ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے تیرہ جنوری دوہزار تئیس کو زاہدان میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کہا ایران کے موجودہ مسائل کا حل ذاکرین، خطیبوں، ججوں اور سکیورٹی افسران کے پاس نہیں ہے؛ سیاسی ناقدین و مخالفین اور ماہرین سے بات چیت کے ذریعے موجودہ بحرانوں سے ملک کو نجات دلایاجاسکتاہے۔

کریک ڈاؤن اور پھانسی کی سزائیں مسائل کا حل نہیں ہیں
ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: حاکم کو چاہیے پوری قوم دیکھ لے اور صرف کسی مخصوص ٹولہ اور گروپ پر توجہ نہ دے۔ حکومت اللہ کی نعمت اور ایک آزمائش ہے؛ حکام کوشش کریں کسی کے حق میں ظلم نہ ہو۔جس طرح عادل حکمران کو اللہ تعالیٰ اجر دیتاہے، اسی طرح ظالم و جابر حکمرانوں کو سزا دیتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: آج ملک میں احتجاج کی صدائیں ہر سمت سے بلند ہیں اور عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ معیشت کا مسئلہ گھمبیر ہوتا جارہاہے اور کرنسی کی قدر بری طرح گرچکی ہے، لوگوں کی آمدنی ناکافی ہے۔ اس سے لوگ احتجاج پر مجبور ہیں۔ لوگ آزادی چاہتے ہیں، لیکن انہیں آزادی میسر نہیں؛ اگر احتجاج کریں انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ تنقید کے بھی سنگین نتائج ہیں۔ لکھاری، سیاستدان، خواتین اور نوجوانوں سمیت سب کے مسائل ہیں جو پکار رہے ہیں۔ موجودہ اختلافات حقائق ہیں۔ ہم عوام ہی کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور ان کے مسائل سے ہمیں علم ہے۔ مسائل کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔ مسائل صرف معاشی نہیں ہیں، دیگر شعبہ ہائے زندگی کے مسائل بھی ہیں۔ مسائل بہت وسیع ہیں اور سب کا حل بات چیت اور مذاکرات میں ہے۔ کریک ڈاؤن، گرفتاری اور پھانسی پر چڑھانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: ہم سب ایرانی قوم کے افراد ہیں اور یہ ہمارے ہی لوگ ہیں۔ احتجاج کرنے والے اسی ملک کے باشندے اور یونیورسٹیوں اور وزارت تعلیم کے سکولوں میں تعلیم پانے والے افراد ہیں۔ ان کے مسائل ہیں۔ ایران میں کافی رنگارنگی پائی جاتی ہے اور مختلف قومیتوں اور برادریوں کے لوگ یہاں رہتے ہیں۔ ان سب کے حقوق کا خیال رکھنا اور عدل کا نفاذ ضروری ہے۔ حکومت کے بڑوں کو چاہیے ماہرین، دانشوروں، ناقد سیاستدانوں، مخالفین، علما، نوجوانوں اور خواتین کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سن لیں۔

ذاکرین کا کام کچھ اور ہے؛ مسائل کے حل کے لیے ماسٹرمائنڈز کی ضرورت ہے
مولانا عبدالحمید نے اصلاحات اور ‘گہری تبدیلیوں’ پر زور دیتے ہوئے کہا: عوام مختلف میدانوں میں گہری تبدیلی چاہتے ہیں۔ ان مسائل کا علاج اور حل موجود ہے۔ نگاہیں بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے ہی لوگ ہیں؛ ان کا نفع نقصان ہمارا نفع نقصان ہے۔ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کریں۔
انہوں نے مزید کہا: میں یہ کھل کر کہتاہوں کہ اس بحران کا حل عدلیہ کے زورِ بازو اور سکیورٹی اور فوجی افسران سے ممکن نہیں ہے۔ اس مسئلے کا حل سیاسی ہے۔ خطبا اور علما وعظ و تبلیغ سے اور ذاکرین مداحی سے اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے ہیں۔ ذاکروں، شاعروں اور ادیبوں کا کام کچھ اور ہے۔ یہاں ماسٹرمائنڈز کی ضرورت ہے جو دانشور ہوں۔ جو تبدیلی عوام چاہتے ہیں، وہ حاصل ہونا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم ایران اور ایرانی قوم کی عزت چاہتے ہیں۔ ہم انسانیت کے لیے سوچتے ہیں۔ ہم سب ایرانیوں کے خیرخواہ ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی برادری سے ہو۔ اگر کچھ نہ کرسکیں، کم از کم روکر دعا ضرور کریں گے۔ ہم عقائد کو یا صرف اہل سنت کو نہیں دیکھتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے پوری انسانیت کے لیے سوچیں اور ہم نے یہ تعلیم نبی کریم ﷺ سے حاصل کی ہے۔ یہاں کوئی اجنبی نہیں ہے، سب اپنے لوگ ہیں۔ کوئی بھی ایرانی ماراجائے، جیل جائے یا تشدد کا نشانہ بنے، وہ کسی بھی گروہ سے ہو، ہمارا اپنا ہی ہے۔
نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے پر تنقید کرتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: نوجوانوں کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کی عزت تارتار نہ کریں۔ یہ بیٹیاں ہم سب کی بیٹیاں ہیں۔ خدا کی سب مخلوقوں پر رحم کرنا چاہیے۔ پورے ملک کا امن ہمارے لیے اہم ہے، اسی لیے کسی بھی شخص کو نقصان ہوجائے، ہمیں تشویش لاحق ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: چونکہ امن ہمارے لیے اہم ہے ہم پرامن احتجاج پر زور دیتے ہیں۔ پرامن احتجاج سب کا قانونی حق ہے اور بین الاقوانین کی رو سے ایک بنیادی حق ہے۔ لیکن مارنے اور قتل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ سب کو ہماری دعوت ہے کہ امن کا خیال رکھیں اور کسی کو قتل نہ کریں، راستے بند نہ کریں اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔

کھلا خط لکھنے کی وجہ اعلیٰ حکام کی خاموشی ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا کچھ لوگ تنقید کرتے ہیں کہ تم ماضی میں کیوں ایسی تنقید نہیں کرتے تھے۔ ہم تیس سالوں سے یہ باتیں کرتے چلے آرہے ہیں؛ یہ آج کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں لب و لہجہ قدرے نرم تھا اور اب مزید وضاحت کے ساتھ بات کرتاہوں چونکہ حالات بدل چکے ہیں۔ جب صدر مملکت اور دیگر حکام ملاقات کے لیے ٹائم نہیں دیتے ہیں؛ پھر ان باتوں کو منبر پر نہ کہیں تو کہاں بولیں؟ ایک حساس ادارے کے ذمہ دار نے کہا اپنی باتیں مجھے بتائیں؛ میں نے کہا تم عسکری ذمہ دار ہو اور بات چیت سیاسی افراد سے ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: کسی نے تنقید کی تم اعلیٰ حکام کو خط لکھ کر انہیں شائع کیوں کراتے ہو اور میڈیا میں وہ کیوں شائع ہوتے ہیں؟ میں نے کہا: یہ میرا حق ہے اور جان بوجھ کر میں ایسا کرتاہوں؛ چونکہ اعلیٰ حکام خطوط کا جواب نہیں دیتے ہیں اور ہم مجبور ہوکر انہیں میڈیا میں شائع کرتے ہیں۔ اگر حکام مسائل حل کرائیں، کیا ضرورت تھی منبر پر ہم آواز اٹھائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عوامی رہیں اور عوام ہی کے ساتھ زندگی گزاریں اور ان ہی کے ساتھ مرجائیں۔ حکام اپنی جگہ فوجیوں اور پولیس افسران کو مت بھیجیں۔ مذاکرات سیاسی شخصیات سے ہونا چاہیے۔
جامع مسجد مکی کو ‘‘ضرار’’ کہنے والے سوچ سمجھ کر بات کریں
مولانا عبدالحمید نے ایک اعلی سابق حکومتی عہدیدار (محمد جواد لاریجانی) کے ریمارکس پر جس نے مکی مسجد زاہدان کو ‘‘مسجد ضرار’’ کہا تھا تبصرہ کرتے ہوئے کہا: کسی نے مکی مسجد کو ضرار نام دیاہے۔ سبحان اللہ! یہ کیسے ہوسکتاہے کہ کوئی شخص اسلام کا دعویدار ہو اور اللہ کے گھر کو مسجد ضرار کا نام دے۔جس مکان کو منافقین نے مسجد کے نام سے مدینہ میں تعمیر کروایا تاکہ اسلام اور نبی کریم ﷺ کے خلاف سازشیں کریں، نبی اکرمﷺ نے خود اس کو مسجد ضرار نہیں کہا، حتیٰ کہ آنحضرتﷺ نے سفر سے واپسی پر ارادہ فرمایا وہاں نماز بھی ادا کریں،لیکن آیت نازل ہوئی کہ یہ مسجد خدا اور اس کے رسول برحقﷺ کی مخالفت میں تعمیر ہوئی ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: آپ کو اچھی طرح معلوم ہے مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کس نیت کے ساتھ اس مسجد کو تعمیر کروائی۔ اس مسجد کی تعمیر کا مقصد صرف اللہ کی عبادت تھا اور کسی بھی قوم اور حکومت کا نقصان مدنظر نہیں تھا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ان شاء اللہ ‘مکی’ کعبہ اور مکہ سے متصل ہے۔ یہاں سب کی بھلائی کے لیے غور ہوتاہے۔ یہ مسجد فرقہ واریت سے پاک ہے۔ ہماری سوچ پورا عالم اسلام اور امت واحدہ کے لیے ہے۔ انسانیت کے لیے غور کرتے ہیں۔ تقوے کی بنیاد پر قائم ہونے والی مسجد کو ضرار کہنے والے اللہ کا کیا جواب دیں گے؟ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں، انہیں سمجھ لینا چاہیے وہ کیا کہتے ہیں۔

مولانا گورگیج کی عدالت طلبی نامناسب ہے
دارالعلوم زاہدان کے صدر نے ایران کے شمالی صوبہ گلستان کے مایہ ناز عالم دین مولانا محمدحسین گورگیج کو علما کی مخصوص عدالت بلانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: مولانا گورگیج ایک جید عالم دین ہیں اور قرآن کی تفسیر میں بڑے ماہر استاذ ہیں؛ ہزاروں افراد نے ان سے فیض حاصل کیا ہے۔ ان کا شمار ملک کے جید، سمجھدار اور خیرخواہ علما میں ہوتاہے۔ ان کی باتیں نصیحت پر مبنی ہیں، کردارکشی پر نہیں۔ دنیا میں خیرخواہوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایک سال کے بعد نماز جمعہ کی امامت کی خاطر انہیں عدالت بلانا مناسب نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے سب کو دوراندیشی کی دعوت دیتے ہوئے افراد اور ذرائع ابلاغ کو نصیحت کی توہین سے گریز کریں اور اپنے نعروں میں صرف مسائل اور مشکلات کو اجاگر پیش کریں اور آزادی، انصاف، معیشت اور خوشحالی جیسے مسائل کے بارے میں نعرے لگائیں، لیکن شخصیات کی توہین سے پرہیز کریں۔ انہوں نے کہا: یہ ہمارا عقیدہ ہے، محض عارضی پالیسی نہیں ہے۔ ہم اخلاق اور انصاف سے دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔