- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ریاست کا اقتدار عسکری قوت میں نہیں عوام کی رضامندی میں ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے چھ جنوری دوہزار تئیس کو زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے ایران میں جاری تین مہینوں سے حکومت مخالف احتجاجوں کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا پکڑدھکڑاور مخالفین کو پھانسی پر چڑھانے کے بجائے اپنی پالیسیاں بدل دیں۔

جبری اعترافی بیان شریعت اور قانون کے دایرے میں ناقابل قبول ہے
مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ میں حکومت کو اللہ جل جلالہ اور لوگوں کی جانب سے ایک قسم کی نمائندگی یاد کرتے ہوئے کہا ان دونوں نمائندگیوں کا تقاضا ہے کہ خدا کی مخلوق پر رحم کیاجائے۔
انہوں نے کہا: دنیا کی تمام حکومتوں کو چاہیے اپنے عوام کے حوالے سے مہربان ہوں۔ حکام بیدار ہوں اور عوام کے حالات سے باخبر رہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان پر تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اس ذات کی نمائندگی کرنے والوں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ والدین کی اولاد پر جتنی شفقت ہے، حاکم کی عوام پر بھی اتنی ہی شفقت ہونی چاہیے۔ جو آزادی اللہ نے انسان کو دیا ہے، وہی آزادی حکومتیں عوام کو دیں۔ حاکم عفو اور تسامح سے کام لے اور عوام کی خطاؤں سے درگزر کرے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: نبی کریم ﷺ منبر پر عفو و بخشش کا حکم دیتے، لیکن اب اگر کوئی الزام قبول نہ کرے، اسے تشدد کا نشانہ بناکر الزام قبول کرنے پر مجبور کیاجاتاہے۔ کسی مشتبہ یا ملزم شخص کو جرم قبول کرنے کے لیے مارنا اور پیٹنا شریعت اور آئین کی نظر میں مردود ہے۔ حکومتیں عوام کی خدمت کریں، ان کے لیے عذاب نہ بنیں۔ تکبر اور بڑائی کسی بھی حکومت میں حاکم کا حق نہیں ہے۔ وہ حاکم خدا کا نمائندہ ہوسکتاہے جو عوام کے ساتھ شفقت اور تواضع کا برتاؤ کرے۔ حاکم ان ہی لوگوں میں ایک ہے؛ آسمان سے نہیں اترا ہے جس کے پاس خدائی اختیارات ہوں۔ اللہ نے کسی بھی حاکم کو مطلق اختیار نہیں دیاہے۔
انہوں نے کہا: تین ماہ سے مسلسل عوامی احتجاج ملک میں جاری ہیں اور عوام کے مسائل ہمارے سامنے ہیں۔ عوام کسی بیرونی طاقت کی خاطر خود خطرے میں نہیں ڈالتے اور سڑکوں پر نکل کر جیل جانے کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ اس قوم کو مسائل سے شکایت ہے؛ معیشت روز بروز کمزور ہوتی ہی جارہی ہے۔اظہارِ رائے کی آزادی ناپید ہے اور قوم کے مختلف افراد چاہے ان کا تعلق کسی بھی برادری اور پیشہ سے ہو، مسائل سے دوچار ہیں۔ اس ملک سب باشندے اپنے جائز حقوق چاہتے ہیں۔

تین ماہ تک جیلوں میں ڈالتے رہے، اب مذاکرات کا تجربہ کریں
مولانا عبدالحمید نے احتجاج کرنے والوں پرسخت برتاؤ کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے کہا: قوم کے متعدد مسائل ہیں۔ تین ماہ سے انہیں جیلوں میں ڈالتے رہتے ہو، احتجاجیوں پر مسائل آرہے ہیں، لیکن وہ احتجاج چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ دیکھیں وہ چاہتے کیا ہیں؟ پھانسی پر چڑھانے اور جیلوں میں ڈالنے سے ان کی باتیں سن لیں۔ دیکھیں قوم کیا کہتی ہے۔ یہ ایران کے عوام ہیں۔ خواتین اور نوجوانوں کے مسائل ہیں۔ ایک مرتبہ بات چیت اور مذاکرات کو بھی آزمائیں۔ قید کرنے اور بچوں، خواتین اور نوجوانوں کو سخت سزائیں دلوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

زاہدان میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں سے شہری پریشان ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے گزشتہ دنوں بڑے پیمانے پر نوجوانوں کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: حال ہی بڑی تعداد میں نوجوانوں کو سکیورٹی اداروں نے زاہدان شہر میں گرفتار کیا ہے۔ ہم سب زاہدانی شہری اس حوالے سے پریشان ہیں۔ عوام پر دباؤ ڈالنے سے کوئی کام ٹھیک نہیں ہوگا۔ ہم جذبہ خیرخواہی سے تمہیں مخاطب کرتے ہیں۔ تم نے اصل علت سے مقابلے کے بجائے نتائج سے مقابلہ کیا ہے۔ تم نے عوام کا احتجاج اور غم و غصہ دیکھا ہے، لیکن یہ نہیں پوچھا کہ تم کیوں سڑکوں پر نکلے ہو؟ تمہیں گھر واپس جانے کو کہاجاتاہے لیکن تم واپس آتے ہو۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی جمہوریہ ایران سمیت سب ممالک کے سربراہوں کو میرا مشورہ ہے اپنی قوموں سے الجھنے کے بجائے، ان کے مطالبات پر توجہ دیں۔ لوگ بند گلی میں جاچکے ہیں۔ اگر قوم ناراض ہواور حکومت سے الگ ہوجائے، پورا ملک بند گلی میں چلاجائے گا۔ حکومت عوام کا نمائندہ ہے، اسے چاہیے عوام کے مفادات کی خاطر داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں مناسب تبدیلی لائے۔ چو تبدیلی عوام چاہتے ہیں، اسی تبدیلی کو لائیں؛ عوام کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے خود کو اور عام شہریوں کو کیوں تکلیف میں ڈالتے ہو؟!
مولانا نے کہا: ایران میں کوئی قانون آسمان سے اتری ہوئی وحی نہیں ہے؛ آئین اور عدلیہ کے قوانین وحی منزل نہیں ہیں۔ چالیس سالوں سے معلوم ہوا ہے ان قوانین میں کمزوری ہے۔ انسان کے لکھے ہوئے قوانین میں اصلاح و ترمیم کی اجازت ہے۔ بہت سارے قوانین بشمول پھانسی کے قوانین اسلامی شریعت کے خلاف ہیں۔

ایران سب ایرانیوں کا ہے
ممتاز سنی عالم دین نے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: قوم تمہارا دشمن نہیں ہے اور تم بھی قوم کے دشمن نہیں ہو۔ پیش آنے والا اختلاف تدبیر اور سمجھداری کے ساتھ حل ہونا چاہیے۔ جب کوئی نوجوان یا خاتون کو قتل کیا جاتاہے، ہمیں سخت دکھ ہوتاہے۔ یہ سب ایرانی قوم کے افراد ہیں۔ اس قوم سے نرمی کا معاملہ کریں۔ صرف دین بے زار ناراض نہیں ہیں، دیندار طبقہ بھی موجودہ حالات سے ناراض ہے۔ جو دین پر عمل نہیں کرتا، اسے چھوڑنے کا نہیں کہتے ہیں، سب کے حقوق ہیں۔ سب قوم کے افراد ہیں۔ ایرانی قوم دنیا کی بہترین اقوام میں سے ہے۔ صرف ان لوگوں کو خوش رکھنے کی کوشش نہ کریں جو تمہاری تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ ایران سب ایرانیوں کا ملک ہے؛ چاہے وہ ریاستی نظام اور صدر کے حق میں ہوں یا ان کے خلاف۔
انہوں نے مزید کہا: ہماری کرنسی کا انتہائی برا حال ہوچکاہے، اس طرح زندگی کا گزارہ نہیں ہوسکتا۔ اگر تم نے اپنی پالیسیاں بدل دیں، مجھے یقین ہے ہمارا ایک ملین تومان ایک ہزار ڈالر کے برابر ہوگا۔ معیشت کا سیاست سے گہرا تعلق ہے۔ ماہرین، علما ، دانشوروں اور سیاسی قیدیوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی رائے معلوم کریں۔ قوانین عوام کے مفاد ہوں؛ جمہوری نظاموں میں اصل حاکم عوام ہی ہیں۔ اسلامی حکومتوں میں حاکمیت خدا اور عوام کا حق ہے اور خدا کی رضامندی عوام کی رضامندی میں ہے۔

یہ کیسی آزادی ہے کہ علما تعزیت کے لیے زاہدان نہیں آسکتے ہیں؟!
ممتاز عالم دین نے صوبہ خراسان کے مایہ ناز عالم دین مولانا حبیب الرحمن مطہری کو زاہدان کے دورے سے روکنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: جامعہ احناف خواف کے مہتمم مولانا حبیب الرحمن مطہری سمیت خراسان سے علما کا ایک وفد یہاں زاہدان تعزیت کے لیے سفر کرنا چاہتے تھے کہ راستے سے انہیں واپس کردیا گیا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک اقدام ہے۔ اگر حاکم تنگ نظر ہو، خود تکلیف میں پڑجاتاہے۔ یہ پورا ملک ایرانیوں کا ہے، وہ آزاد ہیں جہاں چاہیں سفر کریں؛ انہیں کسی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: حق یہ تھا کہ سکیورٹی حکام انہیں یہ کہتے کہ زاہدان جاتے ہوئے ہمارا سلام بھی پہنچادینا۔ تم کہتے ہو یہاں آزادی ہے کہ میں تنقید کرسکتاہوں، لیکن اس زاویے سے بھی دیکھیں کہ علما سمیت بہت سارے لوگوں کو صرف تعزیت کے اظہار سے یہاں آنے نہیں دیاگیا ہے۔یہ آزادی کے خلاف ہے؛ انہیں آنے دیں ۔ خود بھی پرسکون رہوگے اور ان کے آنے سے کچھ نہیں ہوگا۔

زاہدان کے خونین جمعہ کے ججز دباؤ میں ہے
مولانا عبدالحمید نے زاہدان کے خونین جمعہ جس میں درجنوں نمازی شہید اور تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے کے کیس کے بارے میں کہا: جو کچھ زاہدان میں پیش آیا ابھی تک ہمارے لیے واضح نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کو کیوں اتنی بے دردی سے شہید کیا گیا۔ پتہ نہیں یہ اہلکار ایرانی بھی تھے یا نہیں، کیونکہ ایک ہم وطن اپنے بھائیوں کو اس قدر بے رحمی سے قتل نہیں کرتاہے۔ ابھی تک حکام سکیورٹی اہلکاروں کو مذمت کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جنہوں نے عام شہریوں کو بلاوجہ شہید کیا۔ عوام کو تسلی نہیں ہوچکی ہے۔ عدالت قائم ہوئی ہے اور تقریبا تیس افراد کو طلب کیا گیا ہے، لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق ججوں پر اس حوالے سے دباؤ ہے۔ اس غیور قوم سے اچھا معاملہ کرنا چاہیے۔
یوکرینی ہوائی جہاز کو تہران کے قریب میزائل مارکر گرانے کے واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگر یوکرینی جہاز کے شہدا کے لواحقین سے اچھا برتاؤ ہوتا، آج یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔ اب بھی ہماری نصیحت ہے کہ انہیں بتائیں دیگر ملکوں میں کیس دائر کرنے کی ضرورت نہیں اور یہاں آجائیں، جو کچھ تم کہتے ہو، ہم مان لیتے ہیں۔ اگر ایسا ہوجائے تم سے کیا کم ہوگا؟ میرا خیال ہے ریاست کا اقتدار عسکری قوت اور ایٹم بم میں نہیں، عوام کی رضامندی حاصل کرنے میں ہے۔ ریاست عوام کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے اور حقائق کو مان کر انصاف فراہم کرے۔
انہوں نے مزید کہا: 176 بے گناہ شہریوں کو میزائل مارکر شہید کیا گیا جن میں بہت سارے ماہرین اور قابل افراد تھے۔ یہ عوام کے لیے بہت بڑی مصیبت تھی۔ بڑا افسوسناک ہے کہ ان کے لواحقین انصاف طلب کرنے کے لیے اپنے ملک کے بجائے دیگر ملکوں میں چکر کھارہے ہیں۔ حکام کو چاہیے تھا جب وہ دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں، اپنے ملک میں سب فلائٹس منسوخ کردیتے؛ اس قانون ایک عام شہری بھی جانتاہے۔ پتہ نہیں ہمارے حکام نے کیوں ایسا نہیں کیا اور ایک مسافربردار جہاز کو مارکر گرایا۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: حکام اس حادثے کے بعد سچائی کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیتے اور حقائق کو عوام کے سامنے رکھتے، مجھے یقین ہے عوام کو تشفی ہوجاتی اور کینیڈا اور یورپ میں شکایت کرنے کے لیے رجوع نہ کرتے تھے۔ صدر رئیسی کو میں نے کہا کہ پوری دنیا میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں اور یہ عام سی بات ہے کہ صدر تک عوام سے معافی مانگے اور استعفا دے، لیکن ہمارے حکام کیوں اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں؟حکام کو چاہیے اپنا قصور تسلیم کرکے معافی مانگیں۔