- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ملک میں جاری پالیسیاں تعطل اور ناکامی کا شکار ہیں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے پچیس نومبر دوہزار بائیس کے خطبہ جمعہ میں کہا ملک میں کوئی بھی حکومتی عہدیدار قانون سے بالاتر نہیں اور سب چھوٹے بڑے حکام کو عوام کی تنقید اور قانون کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا گزشتہ تینتالیس سالوں سے جاری پالیسیاں بند گلی میں تعطل کا شکار ہیں۔
خطیب اہل سنت نے ایرانی بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہم ایرانیوں میں ایک افسوسناک بری عادت پائی جاتی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کو بہت اونچے مقام تک پہنچادیتے ہیں اور ان کے گرد گھیرا اتنا تنگ کرتے ہیں کہ کوئی ان کے قریب نہ آسکے۔ یہ بہت پرانی عادت ہے جس کا ایران میں رواج ہے۔ گزشتہ سیاسی نظام میں ایسا ہی ہوا اور بادشاہ تک عوام کی بات نہیں پہنچنے دیا جاتا۔ اس دور میں اگر کوئی تنقید کرتا، تو ساتھ ساتھ اسے ‘‘اعلی حضرت’’ سے تعریفیں کرنے کا حکم ہوتا، پھر وہ چھوٹے اور درمیانی درجے کے حکام سے تنقید کرسکتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا: حالانکہ کسی ماں نے حضرت علیؓ سے بڑھ کر کوئی بچہ جنم نہیں دیا ہے کہ وہ ان سے بڑھ کر ہو؛ حضرت علیؓ عوام ہی کے ساتھ رہتے اور ان کی تنقید سن کر برداشت کرتے تھے۔

کوئی ذمہ دار ناقابلِ تنقید ہو، آمریت پیدا ہوجائے گی
مولانا عبدالحمید نے کہا: انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں بعض حکام سے تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ جس کے پاس ذمہ داری ہے، اسے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ سب کام قانونِ الہی اور ملکی قوانین کے دائرے میں ہوں۔ جو لوگ قوانین سے اپنی ذمہ داریاں حاصل کرتے ہیں، وہ خود کو قانون سے بالاتر قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ اگر حکام تنقید کی اجازت دیتے اور درست بات کو قبول کرتے، آج ہمارے حالات یہ نہ ہوتے۔
انہوں نے مزید کہا: کچھ لوگ حکام سے تنقید کے الزام میں جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ تنقید کرنے والوں کی جگہ جیل نہیں ہے۔ تنقید نہ ہو، اصلاح بھی نہیں ہوسکتی۔ اگر سیاسی نظام اور حکومت سے تنقید نہ ہو اور ہر فرد جس مقام اور عہدے پر فائز ہو، تنقید کی اجازت نہ دے، پھر آمریت پیدا ہوجائے گی۔ آمریت اس وقت پیدا ہوجائے گی جب کوئی حاکم ناقابلِ تنقید ہو۔
ممتاز عالم دین نے کہا: آج اگر احتجاجی مظاہروں میں شدید نعرے لگائے جاتے ہیں اور لوگ آپے سے باہر ہوچکے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگوں کو تنقید کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور عوام کی آواز حکام تک نہیں پہنچ پاتی۔ موجودہ حکومت اور نظام اسلام کے نام پر بر سرِ کار آئی ہے اور اسے اسلام اور جمہوریت کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے۔ اسلام ایک گونہ جمہوریت ہے اور ہمارے خیال میں بعض امور میں اسلام میں زیادہ آزادی پائی جاتی ہے۔ حکام عوام کے ساتھ بیٹھیں، سکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھ کریں عوام کی باتیں سن لیں۔ نبی کریمﷺ، خلفائے راشدین اور حضرت علیؓ سب عوامی تھے اور عوام کی تنقید قبول کرتے تھے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: یہ بڑی تشویش کی بات ہے کہ بہت سارے حکام ہماری بات سننے کے لیے بھی تیار نہ ہوئے۔ بہت سارے ناقدین جذبہ خیرخواہی کے تحت موجودہ صورتحال پر تنقید کرتے تھے جن میں بندہ بھی شامل ہے۔ کچھ ناقدین نے حل بھی پیش کیا، لیکن کسی نے بات نہ مانی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ پورے ملک میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

اصلاح پسند بتادیتے کس نے انہیں اصلاح سے منع کیا
خطیب اہل سنت زاہدان نے اصلاح پسندوں کے بعض اعذار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اصلاح پسندوں نے اپنے دور حکومت میں اصلاح کا دعویٰ اور نعرہ لگایا۔ سماج کے بہت سارے حلقے یہ سمجھتے تھے کہ حکومت کو اصلاح کی ضرورت ہے؛ لہذا انہوں نے اصلاح پسندوں کی حمایت کی۔ لیکن اصلاح پسندوں نے بھی خاطرخواہ کام نہیں کیا۔ سب سے بڑا شکوہ یہی ہے کہ انہوں نے کیوں اصلاح نہیں کی۔ اگر کوئی رکاوٹ بنا تو کیوں وہ خاموش رہے اور رکاوٹ بننے والوں کو بے نقاب نہیں کیا؟ اس صورت میں لوگ ان سے ناراض نہ ہوتے اور انہیں معذور سمجھ لیتے۔
انہوں نے کہا: کسی جمعے کے دن مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ (بانی جامعہ دارالعلوم زاہدان) نے جیب سے ایک پرچی نکالی جو اول سے آخر تک تنقید پر مشتمل تھی اور اس میں جھوٹ اور الزام تراشی و دشمنی بھی تھی۔ مولانا ؒ نے پورا خط پڑھنے کے بعد فرمایا اصلاح کرنے والے شخص کو دشمن کی بات سن لینا چاہیے؛ دوست ہمارے وجود میں کوئی عیب نہیں دیکھتے ہیں۔ دشمن لاپروا ہوتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: اگر اسلامی جمہوریہ ایران میں اصلاحات نافذ ہوتے، آج عوام سڑکوں پر نکل کر آزادی کا نعرہ نہ لگاتے۔ ماضی میں مواقع ہاتھ سے گئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا، لوگ غربت اور مصیبت کا شکار نہ ہوتے۔ شاید بہت سارے ذمہ داران کو معلوم نہیں عوام پر کس قدر دباؤ ہے۔

احتجاج کرنے والے امریکی یا اسرائیلی نہیں ہیں
ممتاز عالم دین نے ملک کی جاری پالیسیوں کو ناکام اور بندگلی میں گرفتار یاد کرتے ہوئے کہا: عوام کی پکار سے واضح ہوتاہے کہ گزشتہ 43 سالوں سے جاری پالیسیاں ڈیڈلاک کا شکار ہیں اور ان پالیسیوں سے ملک چلانا ممکن نہیں ہے۔ لوگوں کو جیل میں ڈالنا اور قتل کرنا کوئی حل نہیں ہے؛ سمجھداری کا تقاضا ہے کہ عوام کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سن لیں۔ یہ لوگ اسرائیلی یا امریکی نہیں ہیں؛ ایرانی ہی ہیں۔ کچھ ممالک شرپسندی کرتے ہیں اور اشتعال بھی دلاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسائل بھی پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اگر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ہمارے خلاف قرارداد پاس کی ہے، تو ان کا حب و بغض ناقابل انکار ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور حکام کو چاہیے وہ کمزوریاں ٹھیک کریں۔ لوگوں کو جیل میں ڈالنا اس بیماری کا علاج نہیں ہے۔تنقید کے بغیر اصلاح ممکن نہیں ہے۔

قیدیوں سے بدسلوکی کی رپورٹس پریشان کن ہیں
صدرجامعہ دارالعلوم زاہدان نے ایران کی جیلوں میں قیدیوں سے بدسلوکی کی رپورٹس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میڈیا رپورٹس میں آیاہے کہ قیدیوں خاص کر خواتین سے بدسلوکی ہوتی ہے اور بعض باتیں گردش کررہی ہیں جنہیں زبان پر لانا مشکل ہے۔ سب اللہ سے ڈریں اور عوام سے سچ بات کہیں۔ قیدیوں سے بدسلوکی کسی بھی قانون اور مذہب میں جائز نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: بعض قیدی خود میرے پاس آئے ہیں جن سے میں نے معلوم کیا اور انہوں نے تصدیق کی کہ ان سے بدسلوکی ہوئی ہے۔ قیدیوں سے بدسلوکی کے بجائے ان کی باتیں سن لیں۔

کُرد عوام نے سرحدوں کی حفاظت کی ہے، انہیں گولیوں سے نہ ماریں
مولانا عبدالحمید نے گزشتہ دنوں ایران کے کرد علاقوں میں احتجاج کرنے والوں پر فائر کھولنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: کُرد بہن بھائی ایران کی بہترین قومیتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ کردوں نے ایرانی سرحدوں کی حفاظت کی ہے جس طرح بلوچوں نے بلوچستان میں اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگائی ہے۔ اب مشکلات سے تنگ آکر جب وہ احتجاج کرتے ہیں، انہیں گولیوں سے نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ کردوں سے پرتشدد برتاؤ نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: کرد عوام کے مطالبات اور مسائل پر توجہ دیں۔ قرآن پاک نے بہترین برتاؤ کا حکم دیاہے۔ گزشتہ دنوں بعض کرد علمائے کرام (ماموستا محمد خضرنژاد) جو مفید لوگ ہیں، گرفتار ہوئے ہیں۔ امید ہے یہ سب قیدی رہا ہوجائیں۔ہم سب اسی قوم کے افراد ہیں؛ اپنی قوم کے افراد سے اچھا سلوک کریں۔

ایران کا سرمایہ ایران ہی میں خرچ کریں
اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے اپنے بیان کے آخر میں بعض عوامی مطالبات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ہم اس ملک میں رہتے ہیں اور یہ سب کا ملک ہے؛ صرف حکام یا سکیورٹی اہلکاروں کا ملک نہیں ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں یہ ملک آباد اور پرامن رہے۔ ملک کے اثاثے کہیں اور خرچ ہونے کے بجائے اسی ملک میں خرچ ہوجائیں۔ جو چراغ گھر کے لیے ضرورت ہے، مسجد کے لیے اسے لے جانا منع ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ملک میں آزادی اظہارِ رائے، مسلک اور سوچ کی آزادی اور میرٹ پر قابل افراد سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اتنے فلٹر رکھے گئے ہیں جن سے ملک کا نقصان ہوا ہے؛ یہ سب اٹھانے کی ضرورت ہے۔