- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، لیکن شہدا کے خون پر سودا نہیں کریں گے

ایرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین نے حالیہ دنوں سپریم لیڈر کے بھیجے ہوئے وفد سے بات چیت کے نتائج حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ہم بات چیت اور مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اگر پوری دنیا کو ہمیں دی جائے، پھر بھی ڈیل اور سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
مولانا عبدالحمید نے اٹھارہ نومبر دوہزار بائیس کو زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: رہبر کی جانب سے زاہدان اور خاش کے خونین جمعوں کے بارے میں تحقیق کے لیے تہران سے ایک وفد یہاں آیاتھا۔ کچھ لوگوں نے پیشگی رائے دیتے ہوئے کہا ہم شہدا کے خون پر سمجھوتہ کرنے والے ہیں؛ یہ بالکل غلط بات ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں ان کے خون پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ہم کسی کے بھی حق ضائع ہونے کے مخالف ہیں، حتیٰ کہ وہ اگر ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا: یہ مصیبت ہم پر آئی تھی اور شہدا کے اہل خانہ کا تقاضا بھی تھا کہ یہ وفد دارالعلوم زاہدان آجائے اور ہم سے ملاقات کرے۔ عرف اور آداب کا تقاضا بھی یہی تھا کہ جسے دکھ پہنچا ہے، اس کے پاس جانے کی ضرورت ہے؛ کسی سے تعزیت کے لیے اسے اپنے پاس نہیں بلایاجاتاہے۔ لیکن اس وفد کی توقع تھی کہ ہم ان کے پاس ایک سرکاری محکمے میں چلے جائیں، ہم نے ایسا نہیں کیا۔ پھر بھی شہر کے ایک قبائلی رہ نما کے گھر ان سے ملاقات ہوئی۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ہم نے اس وفد پر واضح کیا کہ لوگ باتوں سے زیادہ تمہارے عمل کو دیکھتے ہیں۔وعدے بہت ہوئے، اب عمل کا وقت ہے۔ اگر تم نے کوئی مثبت قدم اٹھایا، سب دیکھ لیں گے۔ ہم بھی یاد کریں گے۔ آئندہ پتہ چلے گا اس وفد کے آنے کا کیا فائدہ ہوا۔ البتہ مذکورہ وفد صرف زاہدان اور خاش کے مسائل کے لیے آیا تھا؛ آزادی، امتیازی پالیسیوں اور قومی و علاقائی مسائل کے بارے میں جو مختلف لسانی و مسلکی برادری ان سے دوچار ہیں، ان کے بارے میں قومی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سب لوگ آزادی اور انصاف چاہتے ہیں
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: آج کل پورے ملک کی فضا احتجاج کی فضا ہے اور مختلف طبقوں کے لوگ احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں۔ نومبر 2019 کو پھوٹنے والے پرتشدد اور خونین احتجاجوں کی وجہ بظاہر پیٹرول کی قیمت اچانک بڑھانا تھی، لیکن یہ صرف ایک چنگاری تھی جس نے لوگوں کو سڑکوں نکالا۔ اصل میں لوگ ناراض تھے اور انہوں نے اپنی ناراضگی کے اظہار کی مہنگی قیمت ادا کی اور بہت سارے لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔
انہوں نے کہا: دیکھنا چاہیے کہ لوگ کیا کہتے ہیں اور ان کے نعرے اور مطالبات کیا ہیں۔ وہ آزادی اور عدل و انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ خواتین اور مختلف طبقے کے لوگ آزادی کا نعرہ لگارہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے معاشرے کے مختلف طبقے دباؤ برداشت کرتے ہیں اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ملک میں آزادی اور انصاف کا مسئلہ موجود ہے۔ یہ سب کا مسئلہ ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: آزادی بڑا اہم مسئلہ ہے۔ جیسا کہ انسان کو غذا اور دیگر ضروریات کا تقاضا پیش آتاہے، اسی طرح آزادی بھی اس کی ضرورت ہے۔ لگتاہے ملک میں امتیازی سلوک، نابرابری اور دباؤ بڑے پیمانے پر پائے جاتے ہیں اور اسی وجہ ملک گیر احتجاج دیکھنے میں آتے ہیں۔

اہل سنت 43 سالوں سے امتیازی سلوک کا شکار ہیں
مولانا عبدالحمید نے اہل سنت ایران کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: سنی برادری جو اس قوم کا الگ نہ ہونے والا دھڑا ہے، گزشتہ تینتالیس سالوں سے امتیازی پالیسیوں اور رویوں سے نالاں ہے۔ سنی اکثریت علاقو ں نے مختلف طریقوں سے اپنے مطالبات پیروی کی ہے؛ بات چیت ہوئی ہے، مذاکرے ہوئے ہیں اور انتخابات میں مل کر انہوں نے شرکت کی ہے اور جس صدارتی امیدوار کو انہوں نے ووٹ دیا ہے، وہ کامیاب بھی ہوا ہے، لیکن پھر بھی امتیازی سلوک کا خاتمہ نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہمیں کوئی آزادی حاصل نہیں تھی، لیکن محدود آزادی کے ساتھ ساتھ دباؤ بھی تھا۔ ایک اعلیٰ سرکاری ادارہ (ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل) نے ایک ایسا ایکٹ اہل سنت کے مذہبی امور کے بارے میں پاس کیا جو آئین کے آرٹیکل بارہ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ہم کیسے اپنے مدارس اور مساجد دوسروں کے حوالے کریں جو ہمارے مسلک سے نہیں ہے! ہم پر سخت دباؤ ڈالا گیا، بہت سارے علما جیل گئے۔ ہمارے خطوط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا اور اہل سنت کے مذہبی امور میں مداخلت پر حکومت نے زور دیا۔ہماری مساجد کے ائمہ ہم خود مقرر کرتے ہیں، دوسروں کو کیا حق ہے!
ممتاز عالم دین نے کہا: ایران کے مختلف شہروں میں اہل سنت آباد ہیں۔ لیکن انہیں ہر جگہ مسجد بنانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ 2005ء میں جب بم شہر میں زلزلہ ہوا، تین ہزار بلوچ شہری فوت ہوئے۔ لیکن ان کی ایک مسجد بھی نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے۔ کرمان، یزد، اصفہان، تہران اور دیگر بڑے شہروں میں اہل سنت مسجد تعمیر کرنے کے مجاز نہیں ہے۔ لوگ گھروں اور نمازخانوں میں خوف و ہراس کی فضا میں نماز پڑھتے ہیں، وہاں بھی انہیں پولیس یا سادہ لباس والے اہلکار تنگ کرتے ہیں۔ دنیا کے کس ملک میں لوگ اس طرح نماز پڑھتے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا: جب بھی ہم مذہبی آزادی کی بات کرتے ہیں اور مسجد کا تقاضا پیش کرتے ہیں، ہمیں ایک پمفلٹ دیا جاتاہے کہ ایران میں اہل سنت کی اتنی مسجدیں ہیں؛ گاؤں کی مساجد کو بھی شمار کرتے ہیں، لیکن یہ ہرگز نہیں کہتے کہ تہران سمیت دیگر بڑے شہروں میں ہماری کتنی مسجدیں ہیں۔ ہم نے قسم کھا کر حکام کو کہا ہے کہ اہل سنت کو ان شہروں میں مسجد تعمیر کرنے دیں، اس کا فائدہ شیعہ برادری اور حکومت ہی کو پہنچتاہے۔ کچھ عرصہ قبل دوبارہ نماز کے بارے میں سخت دباؤ ڈالا گیا اور ہمیں دس دن تہران میں رہنا پڑا تاکہ ہمیں نماز پڑھنے دیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: سرکاری اداروں میں اہل سنت کو امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے ان کے مناسب حصے نہیں ملتے۔ بعض علاقوں ضلعی گورنر اہل سنت سے ہیں اور بعض جگہوں پر یہ بھی نہیں ہے۔ انقلاب سے لے کر اب تک کوئی سنی شہری صوبائی گورنر یا وزیر نہیں بن سکا۔ہم نے جس صدر کو ووٹ دیاہے، اس سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ کابینہ میں اہل سنت، لسانی برادریوں اور خواتین سے کام لیں۔ خواتین ہماری طرح ان سالوں میں امتیازی پالیسیوں کا شکار رہی ہیں۔

اہل سنت کے علاوہ، شیعہ برادری اور لسانی گروہ بھی امتیازی پالیسیوں سے شکایت کرتے ہیں
انہوں نے مزید کہا: یونیورسٹی کے اساتذہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ امتیازی سلوک سے نالاں ہیں۔شیعہ برادری میں بھی امتیازی سلوک پایاجاتاہے اور مختلف قومیتوں اور مسالک کے افراد شکایت کرتے ہیں۔ سلیکشن بورڈز نے ملک میں نابرابری کو فروغ دیاہے۔ سلیکشن بورڈز کے سامنے بعض لوگ خود کو مذہبی، دیندار اور انقلابی دکھاتے ہیں، دکھاوے کے لیے مسجد جاتے ہیں اور سرکاری ریلیوں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ پھر یہی لوگ سب کچھ لوٹ کر خزانہ خالی کرواکر بھاگ جاتے ہیں۔ کرپشن ملک میں بری طرح جڑ پکڑچکاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: سلیکشن بورڈز کے لیے کاش سب سے زیادہ اہم لوگوں کی اہلیت ہوتی؛ صدارت، پارلیمنٹ کی رکنیت اور ملکی و صوبائی عہدوں کے لیے سب سے اہم میرٹ اور قابلیت ہونا چاہیے۔ ہم نے ماضی میں بھی حکام کو کہا ہے کہ دائرہ تنگ مت کریں؛ اگر کوئی زیادہ مذہبی نہیں لیکن قابل ہے، اس کی صلاحیتوں سے کام لیں۔ ملک میں مختلف جماعتوں اور افراد سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانا اور انہیں محدود کرنے سے مسائل پید اہوتے؛ انہیں آزادی اور تنقید کا حق دینا چاہیے۔

حکام قوم کی آواز سن لیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے پرامن احتجاج کو عوام کا حق یاد کرتے ہوئے کہا: احتجاج کرنے والوں سے بات چیت کریں۔ ان کے احتجاج کو گولی اورقید و بند سے جواب نہ دیں۔ نعرے کا جواب مروانا اور جیل بھیجنا نہیں ہے۔ افسوس کہ حکام کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مجھے یاد نہیں اب تک فیصلہ ساز اداروں سے کوئی میرے پاس آکر مشکلات سن لے۔ دوسروں کے پاس ان کی باتیں سننے کے لیے بھی کوئی نہیں جاتاہے۔ جو لوگ سیاسی قیدی ہیں، انہیں رہا کرکے ان سے بات چیت کا راستہ اپنا لیں۔
انہوں نے مزید کہا: سماج کے مختلف طبقوں میں مسائل پائے جاتے ہیں، انہیں حل کرائیں۔ یہ لوگ جو سڑکوں پر نکلے ہیں، ان کے مسائل حل کرائیں۔ بلاشبہ دشمن بھی غلط فائدے اٹھاتے ہیں، لیکن اگر مسائل نہ ہوتے انہیں فائدہ اٹھانے کا موقع کہاں سے میسر ہوتا۔ یہ ایرانی قوم ہے جو دو ماہ سے آواز اٹھاتی چلی آرہی ہے ؛ اس قوم کی آواز سن لیں۔ سیاسی قیدیوں کو رہا کریں۔ حالیہ احتجاجی سلسلے میں قید ہونے والوں کو رہا کریں۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: قوم کے ارادے کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں؛ ورنہ آئے دن حالات مزید خراب ہوں گے اور علما اور دین سے نفرت بڑھ ہی جائے گی۔ دیکھنے میں آتاہے کچھ لوگ علما کی پگڑیوں کو سروں سے اٹھاکر پھینک دیتے ہیں۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ لوگ ناراض ہیں اور انہیں علما سے توقع ہے کہ انہیں ساتھ دیں۔
انہوں نے کہا: پرامن احتجاج عوام کا حق ہے۔ عوامی اور ذاتی اشیا پر حملہ ناجائز ہے۔ پورے ملک میں احتجاج کرنے والوں کو جنگی گولیوں سے نہیں مارنا چاہیے۔ بعض ویڈیوز دیکھ آنسو نکل جاتے ہیں کہ کیسے چھوٹے بچوں اور خواتین کو ماراجاتاہے۔ عوام کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تہذیب اور ثقافت کا دور ہے؛ بات چیت اور مذاکرات کا راستہ اپنالیں۔یونیورسٹیوں کے جو طلبہ معطل ہوئے ہیں انہیں بحال کرکے تعلیم حاصل کرنے دیں۔

روس یوکرین سے جلد اپنی افواج نکالے
مولانا عبدالحمید نے یوکرین میں جاری جنگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: جنگ اور قتل و خونریزی کا بڑا نقصان ہوتاہے۔ روسی افواج مظلوم یوکرینیوں کو قتل کرتی ہیں اور ان کے ملک کو سخت نقصان پہنچارہی ہیں۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر روس سے نفرت پائی جاتی ہے۔ روسیوں کو ہمارا خیرخواہانہ مشورہ ہے کہ جلد ازجلد یوکرین سے انخلا کریں اور اس جنگ کو خاتمہ دیں۔

مولانا کوہی کو رہا کیا جائے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے آخر میں مشہد جیل میں قید بھوک ہڑتال کرنے والے مولانا فضل الرحمن کوہی کی رہائی کا مطالبہ پیش کرتے ہوئے کہا: مولانا کوہی کو نومبر دوہزار انیس کی احتجاجی لہر کے بعد گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ موصوف ایک سیاسی قیدی ہیں جن کا شمار ملک کے خیرخواہ علما میں ہوتاہے۔ ان کی ضمانت پر رہائی سے مخالفت ہوئی ہے اور اسی وجہ سے احتجاجا انہوں نے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ ان کی رہائی سب عوام کا مطالبہ ہے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں جامعہ دارالعلوم زاہدان کے سینئر اساتذہ مولانا مفتی محمدقاسم قاسمی اور مولانا ڈاکٹر عبیداللہ کی والدہ کے سانحہ وفات پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان سے تعزیت کا اظہار کیا اور مرحومہ کی مکمل مغفرت اور رفع درجات کے لیے دعا کی۔