- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اسلام کی باکمال خواتین۔ حضرت عاتکہ بنت زید رضی اللہ عنہا

خاندان قریش کے قبیلہ عدی سے تعلق رکھتی تھیں، سلسلہ نسب اس طرح ہے، عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرظ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی۔
عظیم صحابی رسول حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ (جن کو دنیا میں جنت کی بشارت سے سرفراز کیا گیا) میں سے ہیں، اُن کے حقیقی بھائی تھے اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ چچازاد بھائی ہوتے تھے، اسی طرح مشہور صحابیہ حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا ان کی حقیقی چچازاد بہن اور بھاوج ہوتی تھیں۔

قبول اسلام
حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کے والد محترم زید زمانہ جاہلیت میں ہی توحید کے قائل تھے، اللہ کی یکتا نیت اور وحدانیت کا اعتراف کرتے تھے اور جن کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: وہ قیامت کے دن تنہا ایک امت کی حیثیت سے اُٹھیں گے، زید کو چند سال قبل از بعثت نبوی ﷺ کسی دشمن نے قتل کر ڈالا اور عاتکہ یتیم ہوگئیں، سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد اسلام قبول کیا اور شرف صحابیت سے مشرف ہوئیں۔

نکاح
نہایت حسین و جمیل، عاقلہ فاضلہ، عالمہ خاتون تھیں، ان کی شادی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ سے ہوئی، حضرت عبداللہ کو ان سے اس قدر لگاؤ تعلق اور والہانہ محبت تھی کہ ان کے عشق و فریفتگی میں جہاد کو ترک کردیا، وہ بھی شوہر پر جان چھڑکتیں، ان کے آرام و راحت کا خوب خیال کرتیں، چونکہ انہوں نے حضرت عبداللہ کو جہاد پر جانے کی ترغیب نہیں دی تھی، اس لئے حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عبداللہ کو حکم دیا وہ عاتکہ کو طلاق دیں، ابتداءً تو کچھ زمانہ تک اس معاملہ کو ٹالتے رہے، جب والد محترم کا اصرار بڑھا تو حضرت عاتکہ ؓ کو ایک طلاق دی، لیکن بیوی کی جدائیگی اور فراق ان کے لئے وبال جان بن گیا، انہوں نے ان کی ہجر و فراق پر یہ اشعار کہے:
أعاتک لا انساک ما ذر شارق٭٭٭ و ما نا قمری الحمام المطوق
اے عاتکہ! جب تک سورج چمکتا رہے گا، اور قمری بولتی رہے گی میں تجھے نہ بھولوں گا۔
أعاتک قلبی کل یوم و لیلۃ٭٭٭ الیک بما تخفی النفوس معلق
اے عاتکہ! میرا دل شب و روز بصد ہزار شوق و تمنا تجھ سے لگا ہوا ہے۔
و لم أرم مثلی طلق الیوم مثلھا٭٭٭ و لا مثلھا فی غیر جرم تطلق
مجھے جیسے آدمی نے اس جیسی خاتون کو کبھی طلاق نہ دی ہوگی اور نہ اس جیسی خاتون کو بغیر گناہ طلاق دی جاتی۔ (اسد الغابۃ: عاتکہ بنت زید: 181/7، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے رقیق القلب اور نرم خو واقع ہوئے، ان تک ان اشعار کی خبر پہنچی تو انہوں نے حضرت عبداللہؓ کو رجعت کی اجازت مرحمت کی، (فرّق لہ أبوہ و أمرہ بمراجعتھا، ثم شھد مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزاۃ فأصابہ سھم فمات منہ) (المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک: 191/5، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الأولی: 2141ھ) جس کے بعد وہ ہر غزوہ میں شریک ہونے لگے، ایک دفعہ وہ طائف کے محاصرے کے وقت دشمن کی تیر سے سخت مجروح اور زخمی ہوگئے، زخم تو اسی وقت بھر گیا، لیکن تیر کا زہر اندر ہی اندر رستا رہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے کچھ عرصہ بعد (شوال: ۱۱ھ) کو یہ زخم عود کر آیا، اسی درد و تکلیف میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی، حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کو اپنے شوہر نامدار کی اس اچانک رحلت پر بڑا صدمہ ہوا، مرحوم خاوند کی طرح وہ بھی شعر و شاعری پر خوب عبور اور درک رکھتی تھیں، نہایت ہی وجد کے ساتھ پُر درد مرثیہ کہا:
آلیت کا ینفک عینی حزینۃ٭٭٭ علیک و لاینفک جلدی اغبرا
قسم کھا کر کہتی ہوں کہ تیرے غم میں مسلسل میری آنکھ روئے گی اور میرا جسم غبار آلود رہے گا۔
للہ علینا من رأی مثلہ فتی٭٭٭ أکروا حمی فی الھیاج واصبرا
زہے قسمت اس آنکھ کی جس نے تجھ جیسا، جنگ جو اور ثابت قدم جوان دیکھا۔
اذا شرعت فیہ الأسنۃ خاضھا٭٭٭ الی الموت حتی یدرک
جب اس پر تیر برستے ہیں تو ان کی بوچھاڑ میں گھستا ہوا، وہ موت تک اس کی طرف چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کو پالیتا ہے۔
مدی الدھر حین غنت حمامۃ ایکۃ٭٭٭ و ما ترد اللیل الصباح المنورا
جب تک کہ خون کی ندیاں نہ بہالیتا، زندگی بھر جب جنگلی کبوتر گنگنائے گا (روتی رہوں گی) اور جب تک رات پر صبح آتی رہے گی۔ (اسد الغابۃ: عاتکہ بنت زید: 181/7، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نکاح
ویسے عبداللہ بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما نے انہیں یہ کہہ کر کچھ مال دیا تھا کہ وہ ان کے بعد کسی سے نکاح نہیں کریں گی، ان کے انتقال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر پیغام نکاح بھیجا کہ تم نے اپنے اوپر نکاح کے حوالے سے اللہ عزوجل کی حلال کردہ چیز کو حرام کیا ہے، عبداللہ کے اہل کو ان کا مال واپس کردو اور مجھ سے نکاح کرلو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا۔ (الطبقات الکبری لابن سعد: عاتکہ بنت زید: 208/8، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
دعوت ولیمہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے، انہوں نے حضرت عاتکہؓ کو اوپر ذکر کردہ مرثیہ کا پہلا شعر یاد دلایا تو وہنے لگیں ‘‘فبکت، فقال عمر: ما دعاک الی ھذا یا أبالحسن؟’’ (اسد الغابۃ: عاتکہ بنت زید: 181/7 )
لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ان سے محبت اور تعلق بھی نہایت گہرا اور مثالی رہا، حضرت عمرؓ نے بھی جام شہادت نوش کیا تو انہوں نے پھر ایک دردناک مرثیہ پڑھا:
وجسد لفّف فی أکفانہ٭٭٭ رحمۃ اللہ علی ذاک الجسد
اور اس جسم کو جسے کفن میں لپیٹا گیا ہے، اس جسم پر اللہ تعالی کی رحمت ہو۔
فیہ تفجیع لمولی غارم٭٭٭ لم یدعہ اللہ یمشی بسبد
مقروض اور نادار عزیزوں کو اس کا صدمہ ہے۔

حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے نکاح
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عاتکہؓ کا نکاح حواری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زبیر بن العوامؓ سے ہوا، انہوں نے جنگ جمل کے موقع پر ابن جرموز کے ہاتھ سے شہادت پائی تو حضرت عاتکہؓ فرط غم سے ندھال ہوگئیں اور بے اختیار ان کی زبان پر یہ مرثیہ جاری ہوگیا۔
غدر بن جرموز بفارس بھمۃ٭٭٭ یوم اللقاء و کان غیر معرّد
ابن جرموز نے لڑائی کے دن ایک عالی ہمت شہسوار سے غداری کی اور غداری بھی ایسی حالت میں کہ وہ نہتا اور بے سر وسامان تھا۔
یا عمرو، لو نبھتہ لوجدتہ٭٭٭ لا طائشا رعش الجنان و لا الید
اے عمرو! اگر تو اس کو پہلے سے متنبہ کردیتا تو اس کو ایسا شخص پاتا کہ نہ اس کے دل میں خوف ہوتا نہ ہاتھ میں لرزہ۔
کم غمرۃ قد خاضھا لم یثنہ٭٭٭ عنھا طرادک یا ابن فقع القردد
کتنے مصائب ہیں کہ وہ ان میں گھس گیا، ائے بندریا کے بیٹے، تو اس کو جھکا سکا نہ پچھاڑ سکا۔
ثکلتک أمک ان ظفرت بمثلہ٭٭٭ ممن مضی، ممن یروح و یغتذی
تیری ماں تجھ پر روئے تو ان لوگوں پر جو گزر چکے ہیں اور جو زندہ ہیں، اس طرح غالب نہیں ہوسکا۔
واللہ ربک أن قتلت لمسلما٭٭٭ حلت علیک عقوبۃ المتعمد
خدا کی قسم تو انے ایک مسلمان کو ناحق قتل کیا، تجھ پر ضرور اللہ تعالی کا عذاب نازل ہوگا۔
(اسد الغابۃ: عاتکہ بنت زید: 181/7،)
پھر اس کے بعد ان کے یہاں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے پیغام نکاح بھیجا، تو فرمایا: مجھے یہ ڈر ہے کہ آپ بھی قتل کردیئے جائیں، اور نکاح سے انکار کردیا، چنانچہ حضرت علیؓ کہا کرتے تھے کہ جس کو فوراً جامِ شہادت نوش کرنا ہو وہ عاتکہ سے نکاح کرے ‘‘من أراد الشھادۃ الحاضرۃ فعلیہ بعاتکہ’’ ، وہ ایسے ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت تک بیوگی کی حالت میں رہیں، بعض کے مطابق حضرت امیرمعاویہؓ کے دور خلافت کے ابتداء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ (البدایۃ و النہایۃ: 23/8، عاتکہ بنت زید)