- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

لوگوں کو مارنا اور قتل کرنا کسی مشکل کا حل نہیں ہوسکتا

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے زاہدان کے ‘خونین جمعہ’ میں درجنوں نمازیوں کی شہادت اور زخمی ہونے کے ذمہ داروں کے ٹرائل پر زور دیتے ہوئے سب اعلیٰ حکام کو اس کیس کے ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے اکیس اکتوبر دوہزار بائیس کے بیان میں کہا اعلیٰ حکام کو جوابدہ ہونا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: زاہدان میں جو کچھ پیش آیا، بہت ہی دلخراش اور چونکا دینے والا واقعہ تھا۔ ایسا واقعہ اس انداز میں ایران کے کسی کونے میں کبھی پیش نہیں آیاہے۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اعلیٰ حکام کیوں اس بارے میں خاموش ہیں۔ درجنوں افراد اسی مکان اور سڑک پر بلاوجہ شہید ہوئے۔ اکثر ان کے سروں اور دلوں پر گولی برسائی گئی تھی؛ کون کس جرم کی سزا میں انہیں قتل کیا؟
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: سب اعلیٰ حکام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر جن کی قیادت میں سب مسلح ادارے کام کرتے ہیں اور ان ہی کی کمان میں ہیں، اس بارے میں ذمہ دار ہیں اور کوئی شخص اس ذمہ داری سے بھاگ نہیں سکتا۔
خطیب اہل سنت نے مقتولین کی تعداد کے بارے میں کہا: میں قتل ہونے والوں کی صحیح عدد نہیں بتاسکتا اور نوے افراد کا لسٹ شائع ہوچکاہے۔ متعدد افراد زخمی اور مفلوج ہوچکے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کے ہاتھ پاؤں یا ان کی ریڑھ کی ہڈی کٹ چکے ہیں ۔

اگر نمازی مسلح تھے تو تمہارے کتنے افراد مارے گئے؟
مولانا عبدالحمید نے اس بھیانک حادثے کو عسکریت پسند گروہوں اور علیحدہ پسندوں سے منسوب کرنے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا: جن لوگوں نے اس جرمِ عظیم کا ارتکاب کیا ہے، اب جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس واقعے کو عسکریت پسندوں سے جوڑنا سفید جھوٹ ہے۔ کبھی کہتے ہیں بندوق سے ہم پر حملہ ہوا تھا، اگر ایسا ہے پھر تمہارے کتنے اہلکار مارے گئے؟ واقعے کے شروع میں جہاں سب سے زیادہ لوگ شہید ہوئے، سکیورٹی فورسز کا ایک اہلکار بھی قتل نہیں ہوا۔ کیوں جھوٹ بولتے ہو؟ جتنا زیادہ جھوٹ بولوگے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ اور قوم کا غم و غصہ بڑھ جاتاہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا: کس قانون کے تحت تم نے ایسے مکان کو نشانہ بنایا جہاں اللہ کی عبادت ہوتی ہے؟ کس وجہ سے تم نے دو گھنٹوں تک عوام پر فائر کھول رکھی؟ یہاں ایک اہلکار بھی قتل نہیں ہوا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ مسلح نہیں تھے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: دو گھنٹوں میں ہمارے اتنے افراد شہید ہوئے کہ پورے ملک کے تین ہفتے کے احتجاجی مظاہروں میں اتنے افراد قتل نہ ہوئے۔تہران میں بیٹھے حکام سے ہماری توقع تھی اس مسئلے کی پیروی کریں گے۔ شہدا کے وارثوں اور اس صوبے کے عوام کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ جن اہلکاروں نے عوام کو قتل کیاہے، ان سب کا ٹرائل ہونا چاہیے۔ جن افراد نے قتل کا حکام دیاہے وہ گرفتار ہوجائیں۔ جن حکام نے غفلت دکھائی ہے، انہیں جوابدہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے اس کیس کی پیروی کے بارے میں کہا: وزیرِ داخلہ اور پارلیمنٹ کے سکیورٹی کمیشن کے ارکان یہاں آچکے ہیں، لیکن حق ثابت ہونے اور عوام کے ناحق قتلِ عام واضح ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی نتیجہ ہمیں نہیں بتایاگیاہے۔ ہم منتظر ہیں کہ جن لوگوں نے نمازیوں کو مارا ہے، انہیں مذمت کرکے عدالت میں لایاجائے۔
ممتاز عالم دین نے واضح کرتے ہوئے کہا: ہم نے انصاف کا دامن نہیں چھوڑا اور حکومت کو بھی چاہیے انصاف کرے۔ یہ لوگ شہید ہوئے اور تمہارے اہلکاروں کو اب جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ جن لوگوں نے انہیں فائرنگ کرکے نمازیوں کو قتل کرنے کا فرمان دیا ہے، انہیں بھی جیل ڈالنا چاہیے تاکہ عوام کے زخموں کی کچھ تسکین ہوجائے۔ پیسہ دینے اور انہیں شہید بتانے سے عوام کو تسلی نہیں ہوتی ہے۔

عوام کا ووٹ لیا، مگر ان سے تعزیت تک نہ کی
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ان سب لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں اندرون و بیرونِ ملک سے زاہدان کے عوام کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایسے ایرانیوں سے گلہ کیا جنہوں نے اس واقعے پر خاموشی اختیار کی۔
‘‘ہم ان ایرانیوں سے سخت گلہ کرتے ہیں کہ لوگوں نے کئی سالوں تک ان سے تعاون کیا، لیکن اب وہ خاموش رہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو اب حکومت میں نہیں ہیں، لیکن کسی وقت حکومت کا لگام ان کے ہاتھ میں تھا اور انہوں نے ہمارے عوام سے ووٹ حاصل کیا۔ ہم شیعہ علما سے بھی شکوہ کرتے ہیں جنہوں نے اس حادثے پر ایک لفظ بھی نہیں بولا۔’’
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: پوری قوم کے سب افراد نے جنگ کے میدانوں میں شرکت کرکے اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اگر مشرقی اور جنوب مشرقی سرحدوں کو یہی لوگ حفاظت نہ کرتے، تم ایران کے دل میں امن کے ساتھ نہ رہ سکتے تھے۔ ہم سب ایرانی ہیں اور ایک ہی جسم کے اعضا ہیں۔ ہمیں توقع تھی کم از کم وہ لوگ جو ان ہی عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر اقتدار پر قابض ہوچکے ہیں، اس واقعے کی مذمت کرتے۔
انہوں نے کہا: ہمیں صدر مملکت سے سخت شکوہ ہے۔ تمہیں یاد ہے کن حالات میں جب لوگ الیکشن بائیکاٹ مہم چلارہے تھے، لوگوں نے تمہیں ووٹ دیا؟ تم نے ان لوگوں سے ووٹ لے کر ان کے مطالبات کو پسِ پشت ڈالا اور اس واقعے میں ان سے تعزیت کے اظہار کو بھی ضروری نہ سمجھا۔

گزشتہ 43 سال سے امتیازی سلوک کا شکار ہیں
مولانا عبدالحمید نے حاکمیت کو خدا کی آزمائش یاد کرتے ہوئے کہا: آج کے اصحابِ اقتدار و حکومت جو ماضی میں جیلوں میں تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں جیلوں سے نکال کر انہیں طاقت اور حکومت عطا کی، انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نعمتیں آزمائش ہیں۔ کوئی بھی طاقت ور اور حکومت پر قابض شخص ہرگز یہ گمان نہ کرے کہ حکومت اس کی قابلیت کی وجہ سے ملی ہے، یہ اللہ ہی ہے جو عزت اور حکومت دیتاہے تاکہ ہمیں آزمائش و امتحان کرے۔
انہوں نے مزید کہا: اگر عدل و انصاف نافذ ہو، لوگوں کی خدمت ہوجائے اور اصحابِ اقتدار اپنے دروازے عوام کے سامنے بند نہ رکھیں اور تنقید برداشت کریں، اللہ بھی راضی ہوگا اور حکام کی حکومت بھی جاری رہے گی۔
ممتاز بلوچ عالم دین نے کہا: حکومتوں کو چاہیے عوام کے سامنے جوابدہ ہوں اور لوگوں کی صدائے احتجاج سن لیں۔ گزشتہ تینتالیس سالوں سے مختلف مسالک اور قومیتوں کے لوگ امتیازی سلوک اور مسائل سے دوچار ہیں۔ ان سالوں میں کتنی شکایتیں بھیجی گئیں اور اعلیٰ حکام کو خط بھیجا گیا۔ لیکن امتیازی رویہ بدستور جاری رہا۔
انہوں نے حالیہ ملک گیر احتجاجوں کو متعدد عوامی مطالبات کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ یاد کرتے ہوئے کہا: اگر ماضی میں عوامی شکایات پر توجہ ہوتی، آج کی صورتحال شاید پیش نہ آتی۔ عوام کو بات کرنے دیں اور انہیں اپنا دشمن نہ سمجھیں۔ لوگوں کی بات سننا اور تدبیر کرنا بہترین علاج ہے۔ لوگوں کو مارنا اور قتل کرنا کسی بھی فرد یا گروہ کی طرف سے ہو، کوئی حل نہیں ہے۔ ہم سب ایرانی ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: مجھے بڑا افسوس ہوتاہے کہ کیوں سابقہ رجیم کی طرح کیوں مختلف مسالک اور قومیت کے افراد مسلح اداروں میں نہیں ہیں۔ میں باربار کہہ چکاہوں کیوں ہمیں اجازت نہیں ملتی کہ ہم بھی اپنے ملک کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں اور ملک کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگائیں، لیکن کسی نے ہماری بات نہ سنی۔ اگر ایسا ہوتا، آج ایسے حادثے پیش نہ آتے۔