- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

نیک صحبت کا فائدہ، بُری صحبت کا نقصان

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- مرفوعًا: «إنما مَثَلُ الجَلِيسِ الصالحِ وجَلِيسِ السُّوءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ، ونَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إما أنْ يُحْذِيَكَ، وإما أنْ تَبْتَاعَ منه، وإما أن تجد منه رِيحًا طيبةً، ونَافِخُ الكِيرِ: إما أن يحرق ثيابك، وإما أن تجد منه رِيحًا مُنْتِنَةً». {متفق علیه}

ترجمہ:
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اچھے ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال ایسی ہی ہے، جیسے کہ عطرفروش اور بھٹی پھونکنے والا۔ عطرفروش یا تو تمھیں عطر تحفے میں دے دے گا یا پھر تم اس سے خرید لوگے یا (کم از کم) تمھیں اس سے خوش بو تو آئے گی ہی۔ جب کہ بھٹی میں پھونکنے والا یا تو تمھارے کپڑے جلا ڈالے گا یا پھر تمھیں اس سے بدبو آئے گی۔

تشریح:
معاشرہ اور سماج میں انسان کو اچھے اور بُرے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، وہ جب بھی کسی اجتماعی ماحول میں ہوتا ہے یا تو اچھے ماحول میں ہوتا ہے یا خراب، اور اس کے اثرات اس کی زندگی میں نہایت خاموشی سے منتقل ہوجاتے ہیں، اس کے بڑے خواہ ماں باپ ہوں، یا اساتذہ کرام و مربیان کرام ہوں یا مشائخ عظام اُسے اچھے ماحول کی ترغیب دیتے اور برے ماحول سے دور رہنے کی تاکید کرتے رہتے ہیں، اس دنیا میں انسانوں کے سب سے بڑے محسن سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، وہ اس بات کی طرف امت کو توجہ نہ دلائیں ایسا ہو نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ آپ کی بعثت ہی انسانیت کو ترقیوں کے بام عروج پر پہنچانے کے لئے ہوئی ہے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت مفید و مؤثر انداز میں اس حقیقت کو امت کے سامنے رکھ دیا کہ ‘‘اچھی اور بُری صحبت کا بھی کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے’’۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی نصیحت کو حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اور آسان انداز میں بیان فرمایا ہے: ‘‘چوں کہ انسان کے اندر اللہ تعالی نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ دوسرے انسان کے خیالات و حالات سے بہت جلد اور بہت تیزی کے ساتھ اور بغیر کسی خاص کو شش کے اثر قبول کرلیتا ہے، اچھا اثر بھی اور برا اثر بھی؛ اس لئے اچھی صحبت بہت بڑے فائدہ کی چیز ہے، اور اسی طرح بری صحبت بڑے نقصان کی چیز ہے، اور اچھی صحبت ایسے شخص کی صحبت ہے جو ضرورت کے مطابق دین کی باتوں سے واقف بھی ہو اور جس کے عقیدے بھی اچھے ہوں، شرک و بدعت اور دنیا کی رسموں سے بچتا ہو، اعمال بھی اچھے ہوں، نماز روزہ اور ضروری عبادتوں کا پابند ہو، معاملات بھی اچھے ہوں، لین دین صاف ہو، حلال و حرام کی احتیاط رکھتا ہو، ظاہری اخلاق بھی اچھے ہوں، یعنی مزاج میں عاجزی ہو، بلاوجہ کسی کو تکلیف نہ دیتا ہو، غریبوں اور حاجت مندوں کو ذلیل نہ سمجھتا ہو، باطنی اخلاق بھی اچھے ہوں (یعنی) خدا تعالی کی محبت اور اس کا خوف دل میں رکھتا ہو، دنیا کی لالچ دل میں رکھتا ہو، دین کے مقابلہ میں مال، راحت اور آبرو کی پروا نہ کرتا ہو، آخرت کی زندگی کے سامنے دنیا کی زندگی کو عزیز نہ رکھتا ہو، ہر حال میں صبر و شکر کرتا ہو؛ جس شخص میں یہ باتیں پائی جائیں اُس کی صحبت اکسیر (یعنی لازمی طور پر اثر کرنے والی) ہے۔
اور جس شخص کو ان باتوں کی پوری پہچان نہ ہوسکے اس کے لئے پہچاننے کا یہ آسان طریقہ ہے کہ اپنے زمانہ کے نیک لوگ (جن کو اکثر مسلمان عام طور پر نیک سمجھتے ہوں ایسے نیک لوگ) جس شخص کو نیک سمجھتے ہوں، اور دس پانچ بار اُس کے پاس بیٹھنے سے بری باتوں سے دل ہٹنے لگے اور نیک باتوں کی طرف دل جھکنے لگے اس کو تم اچھا سمجھو اور اس کی صحبت اختیار کرو، اور جس شخص میں بُری باتیں دیکھی جاتی ہوں بغیر کسی سخت مجبوری کے اس سے ملنا جلنا مت کرو کہ اس سے دین تو بالکل تباہ ہو ہی جاتا ہے اور بعض دفعہ دنیا کا بھی نقصان ہوجاتا ہے، کبھی تو جان کا کہ کسی تکلیف یا پریشانی کا سامنا ہوجاتا ہے، اور کبھی مال کا کہ بری جگہ خرچ ہوگیا، دھوکہ میں آکر کسی کو دے دیا، خواہ محبت کے جوش میں آکر مفت دے دیا یا قرض کے طور پر دیا تھا پھر وصول نہ ہوا، اور کبھی آبرو کا نقصان ہوتا ہے کہ بروں کے ساتھ یہ بھی رسوا اور بدنام ہوا، اور جس شخص میں نہ اچھی علامتیں معلوم ہوں نہ بُری علامتیں تو اس کے بارے میں تو نیک گمان رکھو، اس کی صحبت مت اختیار کرو، غرض نیک صحبت کو دین کے سنورنے میں اور دل کے مضبوط ہونے میں بڑا دخل ہے، اور اسی طرح بُری صحبت کو دین کے بگڑنے میں اور دل کے کم زور ہونے میں (بڑا دخل ہے)’’۔
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح تُرا طالح کند